بالاخر سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ اختتام پذیر ہوا۔ نتائج کیمطابق سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) فتحیاب ہوئی جبکہ تحریک انصاف دونوں صوبوں میں ہی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکی اور نتائج کے اعتبار سے اسکا نمبر آزاد امیدواروں کے بعد میں آتا ہے۔
گزشتہ دس سال میں ہونیوالے یہ پہلے بلدیاتی انتخابات ہیں۔ اگرچہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی جمہوریت کی اساس سمجھی جاتی ہےلیکن ہماری سیاسی جماعتیں اور سویلین حکومتیں ہمیشہ ہی اس طریقہ کار سے بھاگتی رہی ہیں۔ اب بھی اگر سپریم کورٹ کا حکم نہ ہوتا، تو شاید نہیں یقینناً اس بار بھی لوکل باڈیز الیکشن نہ ہوپاتے۔
بلدیاتی حکومتیں عوام کے بنیادی مسائل کا فوری حل دیتی ہیں نیزیہ عہدیدار چونکہ عوام کے درمیان ہی رہتے ہیں لہذٰا اپنے علاقے کے مسائل کی جڑ تک پہنچنا اور انکا حل تلاش کرنا انکے لئے آسان ہوتا ہے۔ اس سسٹم کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کی سیاسی اور انتظامی تربیت ہوتی رہتی ہےاور انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع بھی ملتا رہتا ہے۔ بعض اوقات یہی میئر اور ناظم شہر عوام میں اتنے مقبول ہوجاتے ہیں کہ قومی سطح کے کامیاب لیڈر بن کر ابھرتے ہیں، جیسے ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد اورترکی کے صدر رجب طیب اردگان جو بالترتیب تہران اور استنبول کے میئر تھے۔ انکی صلاحیتوں اور عوامی خدمت کے اعتراف میں عوام نے انہیں بے پناہ پذیرائی سے نوازا،ان دونوں کے پیچھے انکے باپ بھائی وغیرہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔
جبکہ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ وزارتیں تو چھوڑیں بلدیاتی نمائندوں کے عہدوں کے لئے بھی ہمارے سیاست دان خونی رشتوں کے چکر سے باہر نہ آسکےاور جو تھوڑی بہت جگہ بچی وہ ذات برادری لے گئی۔ یہ کیسے بلدیاتی انتخابات ہیں کہ سابق اور موجودہ وفاقی و صوبائی وزراء کے ہی باپ، بھائی، بھانجے بھتیجے منتخب ہورہے ہیں۔ یعنی حقیقی عوام کا کام صرف لائن میں لگ کر ٹھپے لگانا ہے اور عہدے لیجانا پہلے سے طاقت کے ایوانوں میں موجود خاندانوں کا حق۔ اس کی بنیادی وجہ ہے طاقت کو اپنےدائرہ اختیار سے باہر نہ جانے دینے کا حتمی فیصلہ اور سیاسی اشرافیہ کے رویوں کا غیر جمہوری انداز۔ اس صورتحال میں عوام کی سیاسی بلوغت اور تربیت کیسے ہو؟ اور کسطرح نئی لیڈرشپ کو ابھرنے کا موقع ملے؟
پھر اس الیکشن میں جو طوفان بدتمیزی مچا وہ الگ داستان ہے ۔ کارکنوں کے جوش و جذبے کو کنٹرول میں رکھنا لیڈرشپ کی ذمہ داری ہے لیکن پنجاب اور سندھ میں پولنگ والے دن مار کٹائی، فائرنگ، لاشیں، پریذائڈنگ افسر کا سر پھاڑ دینا وغیرہ جہاں ایک طرف کارکن کی عدم برداشت اور سیاسی جہالت کا ثبوت تھا تو دوسری طرف لیڈرشپ کی نا پختگی اور طاقت کے کلچر کا مظہر تھا۔ رہ گئی حکومت تو وہ اپنے اکثر دعووں کی طرح یہاں بھی ناکام ہی ہوئی۔ لیکن کیا کریں کہ ایسی ہڑبونگ اور دھینگا مشتی ہم پاکستانیوں کا قومی کردار بنتی جارہی ہے، تشدد اور اسلحہ کلچر ہماری جڑوں میں بیٹھ گیا ہے کیونکہ معاشرے میں قانون کا خوف نہیں ہے۔ ہو بھی کیسے یہاں تو ایک ڈاکو حکومتی پارٹی کی طرف سے کونسلر منتخب ہوگیا۔ اب گلہ کس سے کریں۔ ویسے بہترین سیکیورٹی انتظامات کا دعویٰ فائرنگ اور تاحال گرتی لاشوں کے نیچے دب گیا ہے جبکہ حکومتیں کامیاب انتخابات کی بانسری بجا رہی ہیں۔
ہمیشہ کی طرح دھاندلی کا شور بھی مچ رہا ہے جسمیں تحریک انصاف سب سے آگے ہے ، حالانکہ اسکی اپنی بہت سی کمزوریاں اسکے آڑے آئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بھی شبہ ہے کہ اسکے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ اسکے علاوہ الیکشن کمیشن بھی ناقص انتظامات کا طوق اتارنے اور ضابطہ اخلاق کی پاسداری کروانے میں ناکام رہا۔ جیسے تیسے کرکے سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ختم ہوا اب دیکھتے ہیں دوسرا مرحلہ اپنے ساتھ کیا لاتا ہے۔