The news is by your side.

انتباہ، شکوہ یا حقیقت

لیجئے جناب! عوام تو شاید تھک ہار کرسیاسی جماعتوں کو کھیلنے کیلئے میدان میں اکیلا چھوڑ آئے تھےکہ ان سے بہتری کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے، لیکن فاؤل پلے کے خلاف  اچانک  میدان کے ایک کونے سے ایسی اپیل ہوئی کہ سب حیران رہ گئے اور کچھ تو پریشان ہوگئے کہ گیم ہی نہ اوور ہوجائے۔

کچھ دنوں سے حکمرانوں کو یہ گمان ہونے لگا تھا کہ انکے زیر سایہ پاکستان ترقی کے نا قابل بیان سفر پر رواں دواں ہے، ملک کے طول و عرض میں ہر طرف سکھ ہے اور عوام چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے اس گمان کو یقین میں بدلنا شروع کردیا تو وزیراعظم سے لیکر وزراء تک سب ہی اپنی گڈ گورننس کے گن گانے لگے اوریہی حال صوبائی حکومتوں کا ہوا۔ عوام کی پہلے کون سن رہا تھا جو اب سنتا، میڈیا کو توکہنے کی عادت ہے۔ کہنے دو، والی پالیسی چل رہی تھی کہ آرمی چیف کے زیر صدرات رواں ہفتے ہونیوالی کور کمانڈرزکانفرنس کے بعد آئی ایس پی آرکی جانب سے جو پریس ریلیزآئی اس نے ایوانوں کو ہلادیا۔ سب ہی جیسے نیند سے جاگ گئے۔ پارلیمنٹ جو شاذ و نادر ہی کوئی سنجیدہ کارروائی کرتی ہے’ پارلیمنٹ سپریم ہے‘ کہ انرجی ٹانک کے زیراثرتن کر کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگی جبکہ صوبائی اورمرکزی حکومتی جماعتیں ’ تمہیں کہا‘ ’نہیں ! تمہیں کہا‘ کی گردان میں لگ گئیں حالانکہ حالات سب کے ہی نازک ہیں۔

اگرچہ اس پریس ریلیز میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا کہ سیاسی جماعتیں عدم تحفظ کا شکار ہوجائیں اور کچھ جمہوری چیمپئن جو کونے کھدروں میں چھپے بیٹھے تھے، اچھل کر’جموریت کو ڈکٹیشن نا قابل قبول‘ کا نعرہ لگادیں، پھر بھی یہاں سے وہاں تک تقریریں شروع ہوگئیں ہیں۔ حکومت نے بھی لب کشائی کرکے گرد جھاڑنے کی ناکام کوشش کی ہے۔

آخرغلط کیا کہا گیا ہے؟ یہ تو حقیقت ہے کہ حکومت کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔ ملک میں امن قائم ہورہا ہے تو اسکا زیادہ کریڈٹ سیکیورٹی اداروں کو جاتا ہے۔ سویلین اداروں کا حصہ تو اس میں بہت تھوڑا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا کافی بڑا حصہ ہنوز فائلوں میں پڑا ہے۔  اصلاحات نہیں ہوئیں، نیکٹا نہیں بن پایا۔ دہشت گردی کے مقدمات جتنی سرعت کے متقاضی تھے وہ بھی ناپید ہے۔ کالعدم تنظیموں کا معاملہ الگ ہے۔

چند دن کی تیزی کے بعد وہی ازلی نا اہلی اورسستی چھاگئی جو ہرمعاملے میں نظر آتی ہے۔ اچھی طرز حکمرانی کہیں نہیں مل رہی جو علاقے دہشت گردوں سے خالی کرالئے گئے ہیں وہاں لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کا عمل بھی انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ اب حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ  نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنا مشترکہ ذمہ داری ہے تو مشترکہ میں سے ایک فریق تو نہایت احسن طور پر اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہےجس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں، کچھ ذمہ داری دوسرے فریق یعنی منتخب نمائندوں کی بھی تو ہے۔ وہ کیوں نظر نہیں آرہی؟ اورنج ٹرین، دنیا کی مہنگی ترین میٹروکیلئے فنڈز ہیں۔ جاتی امرا کی سیکورٹی بڑھ سکتی ہے تو ملک کی اشد ضرورت نیکٹا کیلئے  فنڈزکیوں کم پڑجاتے ہیں۔ وزراء جتنی توانائی عمران خان پرخرچ کرتے ہیں اس سے آدھی بھی اپنے محکموں پرلگادیں تو گورننس گڈ ہو جائے گی۔ بجلی گیس پانی کا بحران حل کرلیں تو بھی فرق پڑنے لگے گا۔

لیکن جب پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتیں ہرمعاملے میں حکومت کی ہمنوا بن جائیں اور باہمی مفادات کیلئے ایسے اقدامات کریں جن کا عوامی فلاح سے کوئی تعلق نہ ہو۔ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز ہوں اور انکا دہشت گردوں سے گٹھ جوڑ نکل رہا ہو، حکومتیں ما فیا بن جائیں تو پھر بے چینی بھی بڑھے گی اورصبر بھی جواب دینے لگے گا۔

اداروں کوآئینی حدود میں رہنے کا درس دینے والے خود اپنا احتساب کریں کہ وہ  کتنی آئینی ذمہ داری پوری کررہے ہیں۔ آئین میں موجود عوامی بہبود کی شقوں پر کتنا عمل ہورہا ہے، آئین میں بدعنوانی کیلئے جو درج ہے اس کی بکھری دھجیاں کون سیمٹے گا- یہ بھی بتادیں۔ بات اتنی سی ہے کہ صرف جمہوریت کا چلنا ضروری نہیں ہے ملک  کا چلنا بھی ضروری ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حکومت کی کارردگی بہترہو۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں