The news is by your side.

جرنیل کی عدالت، وزیر اعظم کی تقریر، ہنگامہ کیوں برپا ہے؟

احتساب کے معاملہ میں بھی راحیل شریف بازی لے گئے اورآغاز کیا اپنے ہی محکمہ سے، جس کے بعد وزیر اعظم نے بھی ایک مہینہ میں قوم سے خطاب کی ہیٹرک کرڈالی۔ فوجی افسران کا کا کورٹ مارشل کرنا، ان کا احتساب ہونا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ فوج میں احتساب  کاعمل موجود ہے۔ ماضی میں بڑے بڑے افسران کا کورٹ مارشل ہوا بس فرق اتنا ہے کہ اس سے پہلے ان جرنیلوں کے نام خبروں کی زینت نہیں بنتے تھے مگراب ہمارا میڈیا کہہ لیں کہ اتنا بے باک اور آزاد ہوگیا ہے کہ ایسی باتیں عوام کے سامنے لے آتا ہے یا پھریہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ خبرنشرکروائی گئی ہے بس انداز مختلف ہے۔ اتنا سمجھ لیں کہ ایک محبت بھرا پیغام ہمارے سفید پوش حکمرانوں دیا  گیا ہے کہ اب بس بہت ہو گیا، کرپشن کرپشن بہت کھیل لی۔ اب کان پکڑلو۔

 اس خبر کی ایک افادیت یہ بھی ہے کہ اس نے فوجیوں سے زیادہ ہمارے سفید پوش حکمرانوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔اس معاملے پرکمیشن بنانے کا مطالبہ جو کہ اپوزیشن کی جانب سے سیاسی خودکشی  کے مترادف تھا  اس کا اعلان آج وزیر اعظم  میاں نواز شریف نے  قوم سے خطاب میں کردیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ان کی سیاسی بصیرت عمران خان سے کہیں زیادہ ہے۔ یاد رکھیے گا کہ اس کمیشن کے نتیجہ میں حکومت کا بال بیکا نہیں ہونے والا۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ میاں نوازشریف آف شور کا یہ دریا بخوبی پار کر جائیں گے۔ حکومت کے خلاف تو  کمیشن بن گیا مگر اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ معذرت کے ساتھ عمران خان خود کو تواحتساب کےلئے پیش کر سکتے ہیں مگر اپنے ساتھیوں کو نہیں۔  سیاستدانوں کے ساتھ بہت سے جاگیر دار وڈیرے، کاروباری حضرات، قبضہ مافیہ اوراعلیٰ عدالتوں  کے بعض جج صاحبان بمع اہل واہلیال کرپشن اس بہتی گنگا میں  ہاتھ دوہتے رہے ہیں۔ خان صاحب کے بھی کیا کہنے ، کہتے ہیں کہ مجھے تو دوہزارسولہ میں انتخاب نظر آرہے ہیں یعنی بلی کو چھیچھڑوں کے خواب۔ ان کی سوئی وزیر اعظم بننے پراڑی ہوئی ہے حالانکہ یہ وقت تھا کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر قانون سازی کروائی جاتی کہ کون  ملک کا وزیر اعظم یا سربراہ بننے کا اہل ہے، حکومت نہ  کرتی تو قوم کو کم سے کم ایک ڈائریکشن تو مل جاتی جیسا کہ پوری دنیا اس پر قانون سازی کر رہی ہے مگرافسوس ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن بھی اس کیس کو منطقی انجام تک نہیں پہچانا چاہتی۔

موجودہ حالات میں حکومت کی حکمت عملی بالکل درست ہےاپوزیشن کا حق نہیں بنتا کہ ان پرانگلی اٹھائے بلکہ پہلے اپنا قبلہ درست کرے اور پہلےمعاملات کو سمجھے اور پھر حکمت عملی بنائے ،، یہ وہ ملک نہیں جہاں اخلاقیات کو معیار بنا کر استعفیٰ مانگاجائے۔  یہ کوئی شمالی کوریا  نہیں ہے کہ  صرف ایک کشتی ڈو بنے پروزیراعظم  خود ہی استعفیٰ دے دے۔ مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا موجودہ عدالتی نظام اور معزز جج صاحبان ایسا کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں جو کہ موجودہ حکومت کے خلاف ہو؟؟؟؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت موجودہ قانون کی روح سے میاں صاحبان اور ان کے بیٹوں کو کسی صورت قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا میں یہ بات بڑی ذمہ داری سے کہ رہا ہوں، اپوزیشن کے پاس حکومت کے خلاف ثبوت نہ کافی ہیں۔

آخری نقطہ یہ ہے کہ ایک طرف انصاف اور احتساب  کی بات کی جارہی ہے تو اس بات کو بھی یاد رکھا جائے  کہ میاں صاحب کی حکومت کا تختہ الٹنے والے  مشرف صاحب  سے پہلے پی سی او کے تحت  سات ججوں نے حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔ ان  سے ایک  جسٹس جاوید گنڈا پوربھی تھے جن کو ہٹاد یا گیا جو کہ اب تک بحال نہیں ہو سکے۔ میاں صاحب اصول کی بات کرتے ہیں تو ان کو بحال کرنے میں کیامسئلہ ہے۔  دو سال سے ان جج صاحب کی سپریم کورٹ سے منظور شدہ  کیس کی فائل وزیراعظم ہاؤس پڑی ہے  مگریہ جج صاحب شاید حکومت کو قبول نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ موجودہ جج صاحبان کی نیت پر شک  کیا جائے مگر ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ سے فیصلے طاقتور کی مرضی سے ہوئے ہیں جیسا کہ بھٹو صاحب کو سزائے موت۔ ایسے جج صاحبا ن جن سے  خطرہ ہو کہ انصاف کردیں ملٹری حکومت و یا سول ،،، انہیں اعلیٰ سطح پر نہیں لگاتی ۔اس کرپشن کا فیصلہ سول تو نہیں مگر جرنیل کی عدالت میں ہو سکتا ہے مگر  یہ ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا وہ ایسا کریں گے تو ڈکٹیٹر کہلائیں گے اور  ہم نے بطور  قوم یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ جو ہمیں زیادہ جوتے مارے گا منتخب ہم اسی کو کریں گے۔