The news is by your side.

وادی کیلاش میں جشن بہاراں

ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع سرسبز وشاداب خطہ چترال آبی اور معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے علاوہ اپنے سینے میں دنیا کے قدیم تہذیبوں کوزندہ رکھاہوا ہے۔ اگرچہ اس خطے میں انسانی آبادی کی ابتداء سے متعلق متفقہ علیہ تاریخی مواد موجود نہیں البتہ آثارِ قدیمہ کے ذخائرکے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذکیاجاسکتاہے کہ یہ خطہ قبل از مسیح سے آباد تھا ۔خطے میں بدھ مت ،ہندمت اور زرتشتی جیسے قدیم تہذیبوں کے اثرات بھی موجود ہے جبکہ بہت سارے ایسے رسم ورواج بھی علاقے میں پوری آب وتاب سے موجود ہے جن کی تاریخ دورِ حاضر کے محقیقین کے مطابق تین ہزار برس سے بھی پرانی ہے ،ان میں قدیم فارسی تہوار نوروز علاقہ چترال اور گلگت بلتستان میں اب بھی جوش وخروش سے منایاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ ضلع چترال اپنے یہاں موجود دنیا کی قدیم ترین اور منفرد کیلاش تہذیب کی وجہ سے دورِ حاضر میں دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کراچکاہے۔ کیلاش تہذیب نہ صرف چترال کی پہچان ہے، اس تنوع او رنگارنگی سے بھر پور تہذیب وثقافت کی بابت دنیا میں پاکستان کونمایاں مقام حاصل ہے۔

5 6

:کیلاش تہذیب

کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے ،جوبیک وقت ایک مذہب بھی ہے ،ثقافت بھی جبکہ اس تہذیب کے حامل لوگوں کی زبان کو بھی کلاشہ کہاجاتاہے، دیکھاجائے تو کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب کی نمائندگی کرتے ہوئے دورِ حاضر میں بھی چترال کے پرامن ماحول میں اپناوجود برقراررکھے ہوئے ہے۔کیلاش کے نسلی تعلق اور ان کی ابتداء سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں البتہ دورِحاضرمیں کیلاش تہذیب سے متعلق دونظریات بڑے ہی مشہور ہے ایک تصور یہ ہے کہ ان کا تعلق قدیم آریا نسل سے ہیں جو کہ اب چترال کے تین دیہات بمبوریت ،بیریر اور رمبور میں صرف چار سے پانچ ہزار نفوس پر مشتمل آبادی تک محدود ہوکررہ گئی ہے ۔دوسری روایت یوں ہے کہ کیلاش یونانی النسل قوم ہے، جب سکندر اعظم کی فوجیں موجودہ افعانستان سے گزررہی تھی تویونانی لشکر کے بہت سے ارکان اس خطے میں رہ گئے اور وہ یہاں آکر آبادہوگئے۔ ایرانی سیاح محمود دانشور کیلاش تہذیب پر یوں رقم طراز ہے کہ ’’یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ رسم زرتشتیوں سے مستعار لی گئی ہو،کافروں کی پچاس فیصدی رسمیں زرتشتیوں سے ملتی ہیں تاریخ بتاتی ہے کہ زرتشتی ایران سے نکل کر اپنے مذہب کو غیر ممالک میں پھیلاتے رہے‘‘۔

بعض مورخوں کا خیال ہے کہ کافروں کا تعلق قدیم یونانیوں سے ہے لیکن یہ صیحح ہے کہ ان کی بعض عادات قدیم یونانیوں سے ملتی جلتی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب حملہ ہوا تو اس وقت چند اثرات باقی رہ گئے تھے ۔ورنہ یہ کافر دراصل قدیم آریہ لوگوں کی نسل سے ہیں ‘‘ (اشپاتا،محمد عنایت اللہ،صفحہ 9)۔

’نئی تاریخِ چترال‘ کے مصنف مرزہ محمد غفران لکھتے ہیں ’’ اس قوم کی اصلیت کا اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں کہ وہ باشگل کے اصل باشندے تھے دسویں صدی عیسوی کے دوران وہ اس ملک (چترال ) میں آئے اور یہیں کے ہوگئے ۔وہ خود یقین رکھتے ہیں کہ سیام سے آئے ہیں وہ یقین سے یہ بیان نہیں کرسکتے ہیں کہ سیام کہاں ہے بعض مورخین نے یہ بیان کیا ہے کہ سکندر اعظم یا دوسرے جرنیلوں کے سپاہ کے پسماندہ لوگوں کی اولاد ہیں جو باشگل (کنڑاور نورستان)کے وادیوں میں رہ گئے تھے۔مگر اس کا بھی کوئی مستند ثبوت نہیں ملتا‘‘۔(نئی تاریخ چترال از مرزہ محمد غفران صفحہ 3)۔

1

کیا کیلاش یونانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ؟

جدید محقیقین نے کیلاش زبان وادب،ثقافت، رسم ورواج اور یونانی زبان وادب ،ثقافت اور رسوم ورواج میں موجود مماثلات پر تفصیل سے تحقیق کی ہے وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ دراصل کیلاش یونانیوں کے نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ محمد عنایت اللہ چترال سے تعلق رکھنے والا استاد اورمصنف ہے جس نے کیلاش تہذیب وتمدن کے پر تحقیق کرتے ہوئے ’ اشپاتا ‘نام سے ایک جامع کتاب لکھ چکے ہیں۔ ( اشپاتا دراصل کیلاش سلام ہے )۔اپنے کتاب میں فاضل مصنف کیلاش اور یونانیوں کے تعلق کوکچھ ان الفاظ میں بیان کیاہے ’’سکندراعظم کے اس دنیا سے انتقال کے بعد یونان کی عظیم ریاست قائم نہ رہ سکی اور کئی حصوں میں بٹ گئی ایک حصے کا سربراہ سکندری جرنیل سیلیوکس ہوگیا، کہاجاتاہے کہ اس کی حکومت شام،ترکی سے ہوکر ہندوکش تک پھیلی ہوئی تھی۔

کیلاش کی روایتی گانوں میں اور قصے کہانیوں میں جیسے سالاکشا جیسے نام ملتے ہیں۔ کیلاش کالاسا کو اپنا جدِ امجد بتاتے ہیں ممکن ہے کہ سکندر کے ساتھ آئی فوج کا کمانڈرکالاسا ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ کیلاش کے زیر کمان فوجیوں کی اولاد کالاسا سے ہوں۔ سکندر کے جانے کے بعد پسماندہ فوجی اپنے جرنیل کالاسا کی یاد میں تقریب مناتے ہوں اور یہی کالاسا تغیر زمانہ کے ساتھ بدل کالاشا اوراس سے بھی بدل کرکیلاش بن گیا ہو۔

کھو پسی کیلاش خواتین کی ایسی ٹوپی ہے جو غمی اورخوشی میں پہنی جاتی ہے، اسی ٹوپی میں پیشانی کے عین اوپر کیلاش خواتین پرندے کا رنگدار پر لگادیتی ہے یہی روایت سکندر اعظم کے فوجیوں کی تھی وہ فوجی اپنی عظمت جتاتے ہوئے فوجی ٹوپی پر اسی قسم کے رنگدار پر لگایاکرتے تھے۔کیلاش لوگ نشیب کی بجائے ڈھلوانوں میں مکانات بنانے کو اپنی برتری خیال کرتے ہیں ۔یہی برتری کا احساس یونان کے شمالی علاقائی لوگوں کو بھی ہے وہاں پر بھی ابھری جگہوں پر مکانات بنانے کو اپنی برتری خیال کیاجاتاہے کیلاش بولی میں ادھر آؤ کے لئے ’’الے لا‘‘ بولاجاتاہے جبکہ یونان میں یہی لفظ اسی معنی میں ’’ایلا‘‘ بولا جاتا ہے ۔

کیلاش کا ایک دیوتا’’ رامائین‘‘کہلاتاہے ادھر یونان میں اسی دیوتاکو ’’رامائین‘‘بولاجاتاہے ۔اسی رامائین سے جو عقائد یہاں پیوستہ ہیں وہی عقائد یونان میں بھی اسی دیوتا سے وابسطہ ہیں۔

کیلاش کی دوشق ،چااور دریژلک ناچ انہی ناموں کے ساتھ یونان کے شمالی سرحدات میں اب بھی موجود ہیں۔ناچ کے دوران کیلاش خواتین کے بازو ایک دوسرے کے کمر سے قصداً یا سہواً کھلنے کو بدشگونی خیال کیاجاتاہے، انہی ناچوں کے دوران بازوکھلنے کے عمل کو یونان میں بھی بدشگونی سے تعبیر کیاجاتاہے ۔بارش سے تنگ آکر سیام جانے کی بات کا جہاں تک تعلق ہے وہ اصل میں سیام نہیں بلکہ شام ہے سکندر اعظم کے دور میں شام کا علاقہ ترقی یافتہ تجارتی مرکز تھا ۔ ہوسکتاہے کہ سکندرسے بچھڑے فوجیوں کا تعلق شام سے رہاہواور یہی شام بدل کر سیام بن گیا ہو۔

کیلاش خواتین جو قمیض پہنتی ہیں یہی قمیض اسی گلوگاری کے ساتھ یونان کے شمالی علاقوں میں پہنی جاتی ہے کیلاش زبان میں اس قمیص کو ’سنگاچی ‘کہاجاتاہے جبکہ یونان کی شمالی زبان میں اس کو ساکاسی Sagasti کہاجاتاہے کیلاش کھوپھسی ٹوپی کو یونانی میں کوپس کہاجاتاہے۔

فلپ چونکہ سکندر اعظم کا باپ تھا وہ جب انتقال کر گیا تو اس کے باقیات کو ایک یادگاری صندوق میں بند کرکے رکھ دیاگیا سورج دیوتا،پھول اور ستارہ سکندر کے مذہبی علامات تھے اور یہ علامات اس یادگاری صندوق کے چاروں طرف بنائے گئے ہیں ۔ان علامات کا مفہوم برتری ، عروج ،بہادری او رخوش بختی لیاجاتاہے یہی علامات انہی تصورات کے ساتھ کیلاش مذہب میں صدیوں سے رائج ہیں۔ کیلاش گھروں کے دروازوں ،گھر کے اندرونی ستوتوں اور مذہبی گھر ’جستکھان‘ کے دروازوں سمیت اندر کے ستونوں میں کندہ کرکے نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔

سکندر اعظم کی ٹوپی میں مینڈھے کی سینگ نمایاں ہے یہ تصویر یونانی سکوں میں آج بھی موجود ہے ادھر کیلاش میں بھی یہ علامت مروج ہے ،ان کے گھروں کے دروازوں اور جستکھان کے اندردیواروں پر یہ تصویردیکھی جاسکتی ہے۔ کیلاش کا سلام ’اشپاتا‘ہے یونانی زبان میں یہی سلام سپاتھا سے اداہوتاہے‘‘ ۔اس قسم کے بے شمار دلائل سے محمد عنایت اللہ نے اپنی کتاب اشپاتا میں کیلاش کو یونانی تہذیب کے باقیات ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس کے برعکس دورِ حاضر میں ماہرین آثاریات نے بھی چترال بالخصوص کیلاش تمدن پر جدید سائنسی انداز سے تحقیقات کی ہے پروفیسر اسرارالدین چترال سے تعلق رکھنے والے دانشور ہیں جو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے سابق چیرمین رہے ہیں، اس کے علاوہ آپ متعدد کتابوں اور تحقیقی مقالوں کے مصنف رہے حال ہی میں ان کی نئی کتاب’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق ‘ کے نام سے شائع کئے ہیں جس میں کیلاش سے متعلق لکھتے ہیں’آرکیالوجی کی ٹیم نے (چترال میں ) سروے کے دوران گندھارا تہذیب کی قبروں کے چند ثبوت بھی دریافت کئے ۔پراجیکٹ کے سرپرست نامور ماہرآثاریات ڈاکٹر احسان علی (موجودہ وائس چانسلر عبدالوالی خان یونیورسٹی مردان )کے مطابق یہ تقریباً تین ہزار سال پرانی قبریں ہیں۔

ڈاکٹر موصوف کی نگرانی میں پراجیکٹ کے آخری دوسالوں کے دوران تمام تحقیقی کام احسن طریقے سے انجام پایا۔ ان تحقیقات کی روشنی میں چترال کے لوگوں بالخصوص کیلاش کے بارے میں مروجہ یونانی النسل ہونے کا نظریہ غلط ثابت ہواہے ۔بلکہ ان کے آریاء النسل ہونے کے قوی شواہد حاصل ہوئے ہیں‘‘۔( اسرارالدین ،تاریخ چترال کے بکھرے اوراق، ص61)۔

اس سے قطع نظر کہ کیلاش آرین ہے یا یونانی یاکسی اور نسل سے ان کا تعلق ہے یہ حقیقت ہے کہ زمانہ قدیم میں یہ قوم اسلام کی آمد سے قبل چترال پر حکومت کرتی تھی جسے مقامی روایات میں ’کیلاش دور‘ کہاجاتا ہے جبکہ دورِ حاضر کے بعض جدید محقیقین نے لداخ کے دوردراز پہاڑی سلسلوں میں ایک ایسی نسل دریافت کی ہے جس کے رہن سہن کے طورطریق ،رسم ورواج اور ثقافت العرض زندگی کے بیشتر معمولات چترال کے کیلاش سے ملتے جلتے ہیں ،اسی لئے یہ رائے قائم کی جاتی ہے کہ شاید زمانہ قدیم میں چترال سے لے کر گلگت سکردواور لداخ تک کا علاقہ کیلاش تہذیب کے زیرِ سایہ رہاہواور جس کے باقیات اب بھی چترال کے وادی کیلاش اور سکردو سے ملحق لداخ میں اب بھی موجود ہیں۔ چترال کے بلندوبالاپہاڑیوں میں مقیم کیلاش اپنی منفرد ثقافت ،رنگارنگ تہذیبی اثرات ،موسیقی سے عشق اور رہن سہن کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔’کیلاش گوم‘یعنی کافرستان کے تین دیہات میں رہنے والے کیلاش قبیلے کی کل آبادی تقریباً تین سے پانچ ہزار کے قریب ہے جبکہ کالاشہ زبان وثقافت معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔

:

وادی چترال اور گلگت بلتستان میں موسمِ بہار کی آمد مارچ کے مہینے سے شروع ہوتی ہے یہاں کی آبادی کا ایک حصہ 21مارچ کو جشن نوروز منا کر بہار کی آمد کا باقاعدہ استقبال کرتے ہیں۔ البتہ وادی کیلاش میں جشن بہار مئی کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں منعقد ہوتی ہے، اس حوالے سے وادی میں تین دن تک رقص وموسیقی ،پینے پلانے اور لذیزکھانوں کا بندوبست کیا جاتاہے ۔محمد عنایت اللہ اپنی کتاب آشپاتا میں چلم جشٹ کی تہوار سے متعلق لکھتے ہیں ’’کیلاش کی تینوں وادیوں میں بسنے والے کیلاش اپنے سال کا آغاز چلم جشٹ تہوار سے کرتے ہیں۔ یہ ایک شکرانہ کی رسم ہے، عبادت بھی ہے اور رضائے الہٰی کا آسان اور ہنستا بستا حصول بھی ہے ۔ اس کا منانا اور اس میں بھر پور شرکت ہر چھوٹے بڑے،مرد وزن کیلاش کے لئے لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیلاش برادری خوب نکھر کر اورجذباتی لگاؤکے ساتھ اس میں شرکت کرتی ہے۔اس تہوار میں خوشی خوشی شرکت کے ساتھ صدقات کی بھرمار کرنا ایک فطری بات ہے چلم جشٹ تہوار کیلاش کے لئے روحانی تازگی کے ساتھ جسمانی مسرت کی نشونما کا آغاز ہے ‘‘ ۔ (اشپاتاصفحہ256)۔’’سردیوں کا دورانیہ کیلاش قبیلے کے لئے سوہانِ روح سے کم نہیں، خداخدا کرکے سردیاں گزرتے ہی یہ قبیلہ بطورشکرانہ اللہ کے حضور ایک تہوار مناتی ہے جسے کیلاش زبان میں’چلم جشٹ‘ کہاجاتاہے۔ سردیوں کے طویل آیام میں سارے لوگ گھروں کے اندر دب گئے تھے، آگ تاپ تاپ کر اور گھروں کے اندر گھسے گھسے بہت بوریت ہوگئی تھی ،باہر کی زندگی بڑی سخت تھی برف باری کا راج تھا، سکڑا بدن اکتاہٹ کا شکار تھا۔ ایسے کٹھن حالات میں موت کا پیغام کسی بھی وقت آسکتاتھا ۔ آفاتِ سماوی کا نزول ہوسکتاتھا، مگر اللہ نے ہر مصیبت سے بچا کر بہار سے دوچار کردیا ۔خشک مگر سرسبز وشاداب زمین پر چلنے پھرنے اور بھرپور زندگی گزارنے کا جب اللہ نے موقع دیا تو اسی خوشی میں خدا کوراضی نہ کرنا سراسر ناانصافی ہے ۔خوشی کے ان لمحات میں شکرانہ خداوندی کے لئے کیلاش قبیلہ سال کا پہلا تہوار چلم جشٹ مناتی ہے ‘‘۔(اشپاتاازمحمد عنایت اللہ صفحہ 16)۔

2 3

 :کیلاش سے متعلق بے بنیاد مفروضات

عمومی تاثر یہ ہے کہ کیلاش گوم یعنی کافرستان یا وادی کیلاش کے باسی کیلاش عقائدکے پیروکاروں کے ہاں مادر پیدر آزادی ہے ان کے یہاں کسی رشتے ناطے کا کوئی تصور سرے سے موجود نہیں ہوتا۔’’میں ایک استاد کی حیثیت سے کیلاش کی پسماندہ وادی بیریر میں آگیا اب کیلاش سے باضابطہ اور باقاعدہ واسطہ پڑا یہاں پر آنے والے سیاحوں سے میل جول بڑھانا ایک فطری بات تھی۔ سیاحو ں کی زبانی کیلاش قبیلہ سے متعلق باتین سن کر تعجب ہوتارہا ۔ایک دن ایسا ہوا کہ ہم اساتذہ بڑے راستے پر آرہے تھے کہ قریب ہی ایک گھاس پر کھڑی چند کیلاش لڑکیوں نے ہمیں پکارا جو ملکی سیاحوں کے گھیرے میں آچکی تھیں۔ہم وہاں پر گئے تو پتہ چلا کہ چند منچلے اوباش قسم کے ملکی سیاح کیلاش لڑکیوں کے ساتھ گلے میں ہاتھ ڈال کر فوٹوکھینچنے کی خواہش کررہے ہیں۔ لڑکیاں خوفزدہ ہیں اور سیاح اصرارکررہے ہیں ہمارے ٹوکنے اور تفصیل سے سمجھانے پر بھی وہ مطمئن نہ ہوئے اور کیلاش سے متعلق اپنی پڑھائی اور سنی سنائی باتوں کا حوالہ دیتے رہے۔ بہرحال ہم نے ان کو قائل کیا اور وہ معذرت کے ساتھ چلتے بنے یہ اور ایسی کتنی باتیں ہوں گی جو یہاں آنے والوں نے اپنی دانست میں یاکسی بدطنیت کی باتوں میں آکر اپنے سیاحتی سفرناموں میں لکھ ڈالیں۔‘‘۔(اشپاتا،صفحہ2)۔

 :کیلاش عقیدہ

کیلاش جسے حرفِ عام میں کافرکہاجاتا ہے ان سے متعلق یہ تصور موجود ہے کہ ان کے ہاں نہ تو مذہب کا تصور ہے اور نہ ہی عقیدے کا رحجان بس ان کی زندگی سارے حدودوقیود سے ماوراء دنیاوی عیش وعشرت میں گزرجاتی ہے حالانکہ یہ ایک بے بنیادلغو تصور ہے جس کاحقیقت سے دورکابھی تعلق نہیں کیلاش برادری کے ہاں اگر چہ کوئی خاص پیغمبر یا مذہبی کتاب تو موجود نہیں لیکن عقائد کے حوالے سے وہ توحید کے قائل ہے۔

کیلاش عقیدے کے پیروکار آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ’’آخرت کی زندگی پر ایمان ہے ا س دنیا کے بعد دوسری زندگی ہے ،جہاں جنت،دورزخ اور بیریر جیسی تین زندگیاں ہیں کیلاش مذہب میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ مرنے کے بعد بیریر میں قائم ان کی حالیہ زندگی ان کومل جائے گی ۔اسکاحصول تب آسان ہوگا جب یہاں خوب دل لگاکرجوش وجذبے کے ساتھ ناچاجائے گا،گیت گایاجائے گا۔کیلاش کی حالیہ خوش باش زندگی سے خوش ہو کر ان کا خدا قیامت کے دن انہیں اسی طرح کی زندگی عطاکریگا۔کیلاش مذہب کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ محمدؐ مسلمانوں کے پیغمبر ہیں۔ کیلاش کی دیوتا جو خداتک جانے کے وسیلے ہیں ان کی وساطت سے ہم خدا تک جاتے ہیں ان کوخوش کرتے ہیں اس سے آگے رسول کے بارے میں انہیں علم نہیں‘‘( اشپاتاازمحمد عنایت اللہ)۔

4

 :کیلاش میں فوتگی کی رسم

ہمارے سماج کا عمومی نفسیات یہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں فوتگی واقع ہوجائے تو وفات پانے والوں کے خاندان کے ساتھ سارامعاشرہ سوگوار ہوتا ہے لیکن کیلاش معاشرہ اس کے بالکل الٹ ہے جب کوئی کیلاش وفات پاجائے تو خاندان سمیت سارے علاقے کے لوگ جمع ہوکر اس کی یاد میں محفل موسیقی سجاتے ہیں مرنے والے کی تعریف ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پرسوگ نہیں مناتے کیونکہ دنیاگناہوں اوربرائیوں کامسکن ہے اب کوئی ان گناہوں اور برائیوں سے بچ کر اپنے رب کے حضور جائے تو ہم کیوں غم منائے ؟’’اگرکسی گھر میں کیلاش مرد کی موت قریب ہو تو محلہ کے بوڑھے اور بوڑھیاں بیمار کی چارپائی کے چاروں طرف بیٹھ جاتے ہیں ،اسکی موت کا انتظار کیاجاتاہے ،سب کی نظریں جانے والے پر ،جانے والا اکیلا ہی اپنا درد سہتا ہے ۔کوئی دم کوئی دعاکوئی مالش یا نبض شناسی کچھ بھی نہیں۔آنجہانی ہونے پر رومال سے جبڑا سرپر باندھا جاتا ہے۔ اور اسی طرح چارپائی میں چھوڑ کر رات گئے تک اس کی تعریف کی جاتی ہے ،خواتین اپنے سروں کے بال کھول دیتی ہیں۔صبح کو اطلاعی فائرنگ کی جاتی ہے دوسری دو وادیوں میں پیغام بھیجاجاتاہے ۔ انجہانی مالدار ہو پھر تو وادی کے عیش ہے لیکن اگر غریب ہے تو یک روزہ جشن پھربھی لازم ہے‘‘۔

’’کیلاش کا سوگ عجیب خوشیوں اورمسرتوں کا سوگ ہوتاہے میت کو اجتماعی ناچ گاہ ’’جستگھان ‘‘میں رکھ دیا جاتاہے ۔مالدار کی فوتگی پر میت کو چار دن تک کمرے میں رکھ کر اس کے گرد ناچنا،گانا،ڈھول بجانا اور کھلی آزادی کے ساتھ سگریٹ وغیرہ پینا کیلاش قبیلہ کا سوگ ہے ۔ ہوائی فائرنگ چھوٹی لڑائی کا منظر پیش کرتی ہے شراب تو محبوب مشروب ہے۔ غریب کیلاش کی موت پر سوگ کا خرچہ اس کی اپنی برادری اجتماعی امداد سے برداشت کرتی ہے ۔عورت آنجہانیہ کے بارے مذہب کا حکم چوبیس گھنٹے کے اندراندر دفنانے کا ہے ۔رسم سوگ بھی اسی وادی یا اپنے ہی گھر میں محدود منانے کاحکم ہے ۔ دوسری وادیوں میں اسکی اطلاع نہیں کی جاتی ہے ۔انجہانی اپنی حیات میں دوسرے کیلاشوں کی موت پر ناچا ہواہوتاہے اس لئے جب خود مر جاتاہے تو اس کو انتظار رہتاہے کہ اس کی میت کے گرد ناچاجائے ۔ اس ناچ اور اپنی تعریف میں گیت سن کر وہ خوش رہتاہے ۔سارے ناچ ،گیت ،ڈھول کی ڈم ڈم اور فائرنگ کی آوازسے وہ محظوظ ہوتاہے مگر اس کااظہار نہیں کرسکتا ‘‘۔ (اشپاتا،ازمحمد عنایت اللہ صفحہ61)۔

اس سال بھی مئی کے دوسرے ہفتے وادی کیلاش میں جشن بہاران کاتہوار’ چیلم جوشٹ‘ روایتی جوش وخروش سے منایا گیا ۔جو اس امر کاغمازہے کہ جہاں ایک چھوٹی سی اقلیت ہمارے معاشرے کی رنگارنگی ،گوناگونی کو ختم کرکے یک قطبیت کو مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں، وہیں معاشرے کی ایک خاموش اکثریت ایسی بھی ہے جو عقائد کو اپنی ذات تک محدود رکھتے ہوئے سماج میں موجود اختلافِ رائے ، گوناگونی ورنگارنگی کوفروع دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔وقت کا تقاضہ ہے اگر ہمیں اپنے معاشرے میں امن وبھائی چارگی اور مثبت رویوں کو فروع دینا ہے تو معاشرے کی اس رنگارنگی کا دوبارہ پرزورانداز سے احیا ء کرنا ہوگا۔بے غیراس کے پائیدار امن اور سخت گیریت ودہشتگردی کاخاتمہ مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔وادی کیلاش میں منایاجانے والا چلم جشٹ کا تہوارچترال کی پر امن معاشرے کی خوبصورتی اور مستحکم تہذیبی روایات کی موجودگی کا آئینہ دارہے ۔آئے ہم عہدکریں کہ معاشرے میں امن کے فروع کے لئے عقائد کو اپنی ذات تک محدودرکھ کر سماج کی اجتماعی خوشی اور روایات کے فروع میں اپنا کرداراداکریں۔ کیونکہ

شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع تو جلاتے جاتے

شاید آپ یہ بھی پسند کریں