The news is by your side.

جمہوریت میں تضاد، جمہوری روایات کا عکاس نہیں ہے

مئی کے آخری ایام سیاسی لحاظ سے بڑے ہنگامہ خیز رہے۔ چینلز کو ریٹنگ بڑھانے کے بھرپور مواقع میسر آئے اور عوام گھر بیٹھے پاناما سےسیدھے لندن پہنچ کراوپن ہارٹ سرجری کے اسرارورموز بمعہ احتیاطی تدابیر سیکھتے رہے۔ یوں تو ہم پاکستانیوں کے لیے گھربیٹھے بیٹھے لندن جانا لازم ہوچکا ہے کیونکہ جمہوری مفاد اور مسائل کی کنجی ہمارے لیڈران لندن میں رکھے بیٹھے ہیں لہذٰا وہ جونہی عازم لندن ہوتے ہیں عوام بھی براستہ ٹی وی پیچھے پیچھے پہنچ جاتے ہیں۔

خیران تمام چیزوں کے دوران دو باتیں سمجھنے والوں کی دلچسپی کی سامنے آئیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ وزیراعظم پاکستان ایک مشکل آپریشن سے گزر کر رو بہ صحت ہیں جو کہ اچھی بات ہے، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کروڑوں کی آبادی والے اس ملک میں کتننے مریضوں کو وزیراعظم جیسی نہ سہی اس سے تھوڑی کمتر سہولیات ہی میسر ہیں۔ کتنے مریض ایسے ہی جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال میں عمل جراحی  اوراس کے بعد بحالی کے مراحل سے گزرتے ہیں۔  کتنے مریضوں کے گھر والے اسپتال اورطبی عملے کی قابلیت اور سہولیات پر اطمینان رکھتے ہیں اورکتنے بیرونِ ملک علاج کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اورکتنے یہیں معالج ڈھونڈتے ہیں۔

ہمارے ملک کے بیشترمریض سرکاری اسپتالوں میں ناقص سہولیات اورعملے کی بدتمیزی اوربے حسی سہتے ہوئے بیماری سے نبردآزما رہتے ہیں۔ کتنے ہی مریض ڈاکڑوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی غیرسنجیدگی اورہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مزید ستم اسپتالوں میں صفائی کے ناقص انتظامات اوربجلی کی بندش ڈھا دیتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا حال سرکاری اور نجی اسپتالوں میں ایک جیسا ہے دونوں جگہوں پراکثر مریض تختئہ مشق بنے نظر آتے ہیں۔ اس پربھی ہماری زبوں حالی کا عالم دیکھیں کہ بجٹ سے پہلے ادویات کی قیمتیں بڑھانے کے ساتھ ساتھ انہیں مارکیٹ سے غائب کرکے مصنوعی قلت بھی پیدا کردی۔ کاش کوئی اس پربھی سوچے، کاش کوئی ٹویٹراکاؤنٹ پاکستان میں علاج کی بہترسہولیات اورادویات کی فراہمی پربھی اپ ڈیٹس دینا شروع کردے۔

دوسری بات جو سمجھنے کی ہے وہ ایک خبر ہے جس کے مطابق بختاور بھٹو اور آصفہ بھٹو نے سندھ کے پسماندہ لوگوں میں ابوظہبی کی شہزادی کی جانب سے عطیہ کیا گیا راشن تقسیم کیا۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ راشن تقسیم کا یہ سلسلہ گزشتہ دس سالوں سے جاری ہے۔افسوس صد افسوس۔ پیپلز پارٹی 2008  سے 2013 تک مرکز میں حکمران رہی  اور 2008 سے تاحال سندھ میں حکومت کررہی ہے لیکن پھر بھی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی یہ جماعت سات آٹھ سال لگاتارحکومت کے باوجود غریبوں کو نہ روٹی دےسکی نہ کپڑا نہ ہی مکان۔ سندھ کے غریب آج غیر ملکی شہزادی کی امداد کیلئے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں اور سابق صدرپاکستان جناب آصف زرداری اور مسلم دنیا کی پہلی اور پاکستان کی دو دفعہ منتخب وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی صاحبزادیاں فخرسے نادار لوگوں میں ’غیر ملکی امداد‘ تقسیم کررہی ہیں۔

ابھی ایسے مواقع مزید آئیں گے جب ہم سیلاب میں ڈوبے تباہ حال لوگوں کے درمیان بھٹو کے سیاسی جانشینوں  کو وہی کچھ کرتا پائیں گے جو ان کے اجداد کرتے رہیں یعنی غیر ملکی امداد کی تقسیم، ڈوبی ہوئی آبادیوں اور زرعی اراضی کا فضائی جائزہ، بڑے بڑے وعدے لیکن عملاً نہ سیلاب کی تباہی کا حل نکالا جائے گا اورنہ ہی غریبوں کی بہتری کے اقدامات کیے جائیں گے۔ زرعی ملک کی فصلیں تباہ ہوتی رہیں گی۔ پانی بجلی کی کمی ہمارا منہ چڑاتی رہے گی مگر ہمارے حکمران امداد اور وعدوں سے آگے نہیں بڑھیں گے۔

ہم گھر بیٹھے وزیراعظم کی صحتیابی اور وطن واپسی بھی دیکھیں گے اور ٹریفک جام میں پھنسی ایمبولینس، اسپتال کے گیٹ کے آگے جمع سیورج کا پانی، بجلی کی بندش کے باعث ملتوی شدہ آپریشن، غلط انجکشن کے باعث ہونے والی اموات،وارڈ میں  بچوں کو چوہے نے کاٹ لیا، جیسی کتنی ہی خبریں دیکھ لیں گے لیکن نہ یہ ملک آگے بڑھے گا اور نہ اس کے حکمران عوامی فلاح پر توجہ دیں گے۔

سوچیں ذرا! کیا حقیقی جمہوریت میں ایسے تضاد زیب دیتے ہیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں