The news is by your side.

حکومت خیبرپختونخواہ کی تین سالہ کارکردگی

گیارہ مئی 2016ء کو خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کے تین سال مکمل گئے جبکہ تیس مئی دو ہزار سولہ کو اسی ہی صوبے میں بلدیاتی انتخابات کو ایک سال کا عرصہ بیت گیا ۔ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے تین سالہ کارکردگی پر بات کرنے سے قبل بلدیاتی نظام کی ایک سال پر بحث کریں گے ۔ تیس مئی 2015ء کو خیبرپختونخواہ کی حکومت نے اپنے صوبے میں مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے انتخابات منعقد کیا تیس مئی دوہزارسولہ کو ان انتخابات کو ایک سال مکمل ہوا مقامی حکومتوں کی ایک سالہ کارکردگی مایوس کن ہے ،کیونکہ ابھی تک نہ تو بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات منتقل کئے گئے اور نہ ہی ترقیاتی فنڈ ۔ مئی 2013ء کے پارلیمانی انتخابات سے قبل چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اپنی تقریروں، نجی گفتگو اور ذرائع ابلاغ کو دئیے جانے والے انٹرویوز میں متعدد باراس بات کا اعادہ کرچکے تھے کہ جمہوریت کی مضبوطی اور استحکام کا انحصار بلدیاتی نظام پر منحصر ہے ان کا دعویٰ تھا کہ اگر انہیں حکومت ملی تو نوے دن کے اندربلدیاتی انتخابات منعقد کرکے ترقیاتی فنڈ اوراختیارات منتخب نمائندوں کے حوالے کریں گے جبکہ اراکین اسمبلی کا کام قانون سازی ہوگی۔

KPK-1

تین سال قبل کے عام انتخابات میں پورے ملک سے پی ٹی آئی کو کامیابی نہ ملی البتہ خیبر پختونخواہ کے عوام نے عمران خان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انتخابات میں صوبے سے پی ٹی آئی کو کامیابی دلادی ۔ انتخابات سے قبل کے دعوے اور وعدے ایک ایک کرکے بھلادئیے گئے جن میں مقامی حکومتوں کا قیام بھی شامل تھاالبتہ ذرائع ابلاغ اور عدلیہ کی زبردست دباؤ کے بعد بالاخردوسال گزرنے کے بعد تیس مئی دوہزارپندرہ کو کے پی حکومت نے صوبہ بھر میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013 کے تحت مقامی حکومتوں کے لئے انتخابات منعقد کئے۔ شائد عوام کی بدقسمتی یا پھرتحریک انصاف کی ناقص کارکردگی کہ صرف دوسال بعد ہی عوام نے اس حکومت پرعدم اعتمادکیا اور صوبے کے پچیس میں سے صرف چاراضلاع میں پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکی جبکہ باقی مانندہ اضلاع ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ اس کے بعد صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو طاعون کی بیماری سمجھ کر انہیں ہاتھ لگانے سے پرہیز کرلیا۔ انتخابات کے 93روز بعد تیس اگست دوہزار پندرہ کو منتخب بلدیاتی نمائندوں سے حلف لے کر رسمی کاروائی پوری کی گئی اورپھراگلے کئی ہفتوں بعد ضلعی اور تحصیل حکومتوں کاقیام عمل میں آیا اس کے بعدآئے روزحکومتی ذرائع سے بلدیاتی اداروں کوفعال بنانے، اختیارات کی منتقلی اور ترقیاتی فنڈز کے اجراء کے بیانات ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے رہے لیکن عملی کام نہ ہوسکا۔ دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے اب سال میں بدل چکے ہیں لیکن ابھی تک بلدیاتی اداروں کو فعال بنانے کی نوبت نہ آئی۔ پچھلے سال کے ان بلدیاتی انتخابات کے صرف چند روز بعد صوبائی حکومت نے مالی سال 2015-16ء کا بجٹ پیش کیا جس میں بلدیات کے لئے 45ارب روپے مختص کیے گئے تھے اب جون کے دوسرے ہفتے میں پھرصوبائی حکومت اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے والی ہے، مالی سال کے اختتام کے بعد پتہ چلا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص رقم کا بڑاحصہ یعنی 110 ارب روپے استعمال نہیں کرسکے ۔بلدیات ودیہی ترقی کے لئے جاری کردہ 44ارب روپوں میں سے ایک روپیہ بھی ابھی تک خرچ نہیں کرسکے یعنی گزشتہ ایک سال سے منتخب بلدیاتی نمائندے محض لالی پاپ پرگزارہ کررہے ہیں جبکہ عوام نے ان نمائندوں کا جینا دوبھرکردیا ہے۔

KPK-3
یہ پہلا موقع نہیں کہ صوبائی بجٹ کا بڑاحصہ لیپس ہوگیا ہو بلکہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اس سال بجٹ لیپس کرنے کی ہیٹ ٹریک مکمل کی ہے ۔ اس سے قبل مالی سال 2013-14ء کے اختتام پر 94ارب روپے مالی سال 2014-15ء میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص رقم کا ساٹھ فیصد یعنی 97ارب روپے استعمال نہ ہونے کی وجہ دوبارہ خزانے میں چلی گئی تھی اور مالی سال 2015-16ء میں بھی ایک سو دس ارب روپے سے زیادہ  کی رقم لیپس ہوگئی ہے۔ نامور صحافی محمد شریف شکیب نے ایک ماہ قبل اس حوالے سے لکھاتھا کہ ’’رواں مالی سال کے گیارہ مہینوں میں سالانہ ترقیاتی فنڈز کا صرف ساٹھ فیصد ہی خرچ ہوسکا جبکہ مالی سال کے اختتام پر چالیس فیصد بجٹ لیپس ہونے کا خدشہ ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال کے بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لئے مختص 113ارب روپے میں سے صرف 67کروڑ70لاکھ روپے ہی خرچ ہوسکے ہیں جبکہ مالی سال ختم ہونے میں صرف ایک ہی مہینہ باقی ہے۔ محکمہ صحت،بلدیات ودیہی ترقی ،سماجی بہبود اورجنگلات سمیت گیارہ محکمے اپنے سالانہ ترقیاتی فنڈ میں سے پچاس فیصد بھی اب تک خرچ نہیں کرسکے۔ بات یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق محکمہ خوراک، معدنیات ، ماحولیات اور توانائی سمیت نو محکمے اپنے بجٹ کا ایک چوتھائی بھی خرچ نہیں کرسکے۔ ان محکموں کا 75فیصد فنڈز لیپس ہونے کا اندیشہ ہے۔ صوبائی حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جن شعبوں کو انہوں نے اپنی ترجیحات میں شامل کیاہے ان کے لئے مختص فنڈزبھی مالی سال ختم ہونے کے باوجود استعمال نہیں ہوسکیں گے جن میں محکمہ صحت، بلدیات ودیہی ترقی اورجنگلات قابل ذکرہیں۔

بلدیاتی اداروں کے قیام کے باوجود منتخب نمائندے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور کوئی ترقیاتی کام شروع نہیں کرسکے حالانکہ صوبہ بھرمیں چالیس ہزار سے زیادہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کے لئے 44ارب روپے کا فنڈ رکھنے کا اعلان کیاگیا تھا اس رقم میں بعد ازاں کٹوٹی کی گئی اور باقی ماندہ رقم کابھی نصف حصہ بروئے کارنہیں لاسکا۔ اسی طرح صوبائی حکومت نے ’بلین ٹری سونامی‘ مہم کے تحت صوبے میں ایک ارب پودے لگانے کا منصوبہ شروع کیاہے اس منصوبے کے لئے کافی وسائل درکارہیں لیکن مالی سال کے دوران محکمہ جنگلات وماحولیات کے لئے مختص فنڈ کا پچیس سے پچاس فیصد خرچ نہ ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے ‘‘۔

سن 2013ء کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخواہ کو جس ماڈل صوبے کی شکل دینے کی بات ہوئی تھی وہ درمیان میں کہیں گم ہوگیا البتہ بجٹ لیپس کے حوالے سے رول ماڈل صوبے کی حیثیت اختیارکی ہے ایک مختاط اندازے کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران تقریباً تین سو ارب یعنی تین کھرب روپے استعمال نہ ہوسکے جو کہ ایک غریب صوبے کے لئے بہت بڑی رقم ہے۔ مبصرین کے مطابق صوبائی حکومت نے ان تین سالوں میں ایک بھی بڑامنصوبہ شروع نہیں کیا اورنہ ہی مستقبل میں ایساکوئی امکان ہے۔ مالی سال 2013-14ء میں لواری ٹنل کے لئے تین ارب روپے مختص کئے گئے تھے مالی سال کے خاتمے پر پتہ چلا کہ ان میں سے ایک روپے بھی جاری نہیں کئے گئے۔ ملک سمیت صوبے میں بجلی کا بحران روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے لیکن ابھی تک توانائی کے شعبے میں کوئی کام نہیں ہوا صوبے کا صرف ایک ضلع یعنی چترال میں 14ہزار میگاواٹ بجلی پیداکرنے کی گنجائش ہے اس سلسلے میں کئی مقامات پر سینکڑوں اور ہزاروں میگاواٹ بجلی گھروں کی ابتدائی فیزیبلٹی رپورٹ بھی تیار کی گئی ہے لیکن اب تک ایک پربھی عملی کام شروع نہیں ہوا۔

اگر چہ صوبائی حکومت نے این جی اوز کی مدد سے چترال اور ہزارہ ڈویژن میں چھوٹے پن بجلی گھروں کی تعمیر کے لئے اربوں روپے جاری کردئیے ہیں لیکن ان میں بھی کام کی رفتار انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ ضلع چترال کا بالائی حصہ یعنی سب ڈویژن مستوج گزشتہ گیارہ ماہ سے تاریکی میں ڈوباہوا ہے پچھلے سال مون سون کے موسم میں علاقے کو روشنی سے منور کرنے والا چاراعشاریہ دومیگاواٹ کے واحد بجلی گھر کو سیلاب کی وجہ سے جزوی نقصان پہنچاتھا لیکن تاحال اس کی دوبارہ بحالی سے متعلق کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کیاگیا ہے۔

شروع کے دوسالوں میں یہ کہہ کر ترقیاتی کام شروع نہیں کئے گئے کہ چونکہ بلدیاتی نظام کی غیر موجودگی میں کرپشن کے امکانات ہے لہٰذا بلدیاتی انتخابات کے بعد منتخب نمائندوں کے ذریعے ترقیاتی کام شروع کیاجائے گا لیکن مقامی حکومتوں کے انتخاب ہوئے اب ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے ابھی تک ایک روپے بھی بلدیات کے ذریعے خرچ نہیں کئے گئے یوں ترقی کا پہیہ 2013ء کے بعد رک چکاہے۔

ان سارے  ارضی حقائق کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان تحریک انصاف پنجاب کو فتح کرنے کی کوشش میں اپنے زیرانتظام صوبے کو پتھر کے دورمیں دکھیل دیا ہے۔ خیبر پختونخواہ کی حدتک پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس مربوط لائحہ عمل اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے محض اشتہار بازی کے ذریعے کاروبار حکومت چلائے جارہے ہیں ۔رہ گیا مستقبل کا سوال تو اگلے انتخابات میں خیبرپختونخواہ سے پاکستان تحریک انصاف کا صفایاہونے والا ہے کیونکہ پی کے 8کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار تیسرے نمبر پررہے جبکہ اس سے قبل اپر دیر کے عوام نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے مشترکہ امیدوار کو بدترین شکست سے دوچار کرتے ہوئے حکومت کو سبق سکھاچکے ہیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں