The news is by your side.

ہاتھ پرہاتھ دھرے منتظرِفردا ہو

 میں بور آدمی ہوں پتا نہیں کیسی باتیں کرتا ہوں ہر شخص مجھ سے نالاں ہے۔ میں لوگوں سے اکثر پوچھتاہوں کہ مجھے بھی تو بتاؤ مجھ میں کیا خامی ہے جس پر قابو پا سکوں ایک دوست جو مجھ سے شائدبہت پیار کرتاہے بولا یارتم میں ایک بہت بڑی خامی ہے کہ تم سچ بولتے ہو ۔ اپنی بات یہیں روکتا ہوں اوراَب تذکرہ ہو کچھ پاکستانی سوچ کا ۔ یہاں مجھے ایک مسئلہ درپیش ہے۔ کالم ایک لکھنا ہے اور خیالات کی بھرمار وہ بھی اس قدر مُنتشر خیالات کہ اگر انہیں یکجا کروں تو وقت درکار ہے اس لئے آج صرف اپنی قوم کے کردار و عمل کو دہرادوں کہ ہم صرف مذمت کرنے کے قابل ہیں ہم جد وجہد بھول گئے ہیں۔ ہمیں اچھے بُرے کا فرق معلوم نہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جوآمریت کے خلاف نعرے لگا کرووٹ حاصل کرتے ہیں اور کام آمروں سے زیادہ خطرناک کرتے ہیں۔ ہمارے مَرے ہوئے زندہ ہیں اور ہماری پوری زندہ قوم مُردہ ہے۔ ہمیں مستقبل کے جھوٹے سپنے دکھائے جاتے ہیں اور سپنے بھی اِیسے کہ ہمارے پاؤں دَلدل میں پھنسے ہیں اور چاند پر سیر کی باتیں۔ ہمیں یہودونصارا کو زِیر کرنے کی تقاریر سُننے کی عادت ہو گئی ہے بھلاجو قوم مریخ پر پانی تلاش کرنے کے عمل سے گزر رہی ہو اُس کا ایسی قوم مقابلہ کر سکتی ہے جس کی 60 فیصد آبادی صاف پانی کو ترس رہی ہو، جِس کو بجلی کے لارے لپے دے کرووٹ لیا جاتا ہو، جہاں مزدور کی ساری کمائی دو وقت پیٹ بھرنے پر خرچ ہو جائے۔ یقین کیجئے ہمیں اپنی بیگمات کے بارے میں علم نہیں ہوتا کہُ ان کو دوران حَمل کس کس شے کی ضرورت ہے اور ہم نکل کراُن سے مقابلہ کی باتیں کرتے ہیں جو مصنوئی طریقوں سے بچوں کو پیدا کرنے کے مراحل طے کر چکے ہیں اور ہم وہیں اٹکے ہیں کہ بچہ پیدا کرنے کے لئے کون سا دِن کون سی ساعت بہتر ہے۔

ہم وہ ہیں جو اِبھی تک اِس سوال پر لڑتے ہیں کہ آیا عورت گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہے یا نہیں۔ آج صبح ہی ایک صاحب کا اعلان سن رہا تھا یہود و نصارا کی ہرچیزحرام، جس کے بعدمیں نے اپنے ماحول کا جائزہ لگایا پتا چلا کہ میرے ماحول میں میرے علاوہ ہرشے یہود و نصارا کی ہے اوریہ دیکھ کر مسلمان قوم کے لئے چہرے کے رینٹون سے دو قطرے گرے ۔۔تب یادآیا اقبال یوں ہی نہیں روتے رہے اور وہ بھی تو دیکھو نا کیاکہتے ہیں،’’شکوہ‘‘ میں وہ اللہ سے مخاطب ہیں۔

اوربڑے فخریہ اندازمیں کہتے ہیں
صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوع انسان کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قران کو سینے سے لگایا ہم نے

یہ سب بڑے کمال اور فخر سے کہتے ہیں اور اگلے ہی لمحے خود کی جنجھوڑ کر کہتے ہیں ’’جواب شکوہ‘‘ میں کہ

وہ تو آباء تھے تمھارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پرہاتھ دھرے منتظرِفردا ہو

ہماری پاکستانی قوم نے کیا کوئی کمال کیا ۔؟ہاں ایک کمال کرتے ہیں کہ ہم کمالِ فن کی عزت نہیں کرتے ۔۔۔ جانتے ہو وہ کمال کون ہیں، وہ ہیں تو گنے چُنے جو تم میں سے بہتر اور دنیا میں تمھیں مقابلے کے قابل بنانے والے وہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان ہیں وہ ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹرادیب رضوی جیسے لوگ ہیں لیکن افسوس تم نے اُن کے ساتھ کیا کیا۔ کرپشن، جھوٹ فریب دغابازی تم میں کُوٹ کُوٹ کربھری ہے اور اوپر سے تم عَرب و عجم کی حکمرانی کے خواب بھی دیکھتے ہو۔
ارے بھائی اپنے گریبان میں جھانکنا ضروری ہے ہم میں ہرشخص اتنی کرپشن کررہا ہے جتنا اس کا جبڑہ کھا سکتا ہے جتنے اس کے ہاتھ سمیٹ سکتے ہیں۔ اپنی گلی کوچوں میں دیکھو، روڈ کنارے ریڑھی والوں کو دیکھو ایک چھوٹاسا قبضہ مافیا بنے ہوئے ہیں ۔ کیا یہ کریشن نہیں کہ روڈ پرقبضہ کرکے کمائی کی جائے اور کیا یہ رزق حلال ہے ۔ یہی نہیں روڈ کنارے جو مزدور صبح کے وقت بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی قبضہ مافیا ہیں، راہگیروں کے لئے بنائے راستے پرقابض ہیں۔

یہاں قانون کو کیا نام دوں 1957 اور1961 کے کیس پر فیصلہ 2016میں ہوتا ہے اوراگر کوئی بڑا نام ہے اور اُسے پیمرا کانوٹس ملے تو یہی عدالت اُسے چند سانسوں میں فیصلہ دے دیتی ہے ۔ یہاں پیدا ہونے پر ماؤں کی زندگیاں خطرے میں اور مرنے سے پہلے قبریں تیار کردی جاتی ہیں جاؤ ایدھی قبرستان اور کراچی کے دیگر قبرستان دیکھ لو۔ یہاں علم پر طبقاتی نظام کی اجارہ داری ہے یہاں زندہ تو زندہ ہیں لاشوں پر سیاست ہوتی ہے ۔ یہاں اپنے فائدے کیلئے اللہ اور رسولؐ کا نام بیچا جاتا ہے یہ تو عام سی باتیں ہیں۔

پاکستان میں گنے چنے چند نام جنہیں دنیا عزت سے جانتی ہے انہیں بھی سیاست کی نظر کیا گیا اَب ایدھی صاحب کو ہی دیکھ لیں اگرایدھی صاحب گوروں کے دیس میں ہوتے تو کم ازکم اُن کی وفات پر ایسے جہالت پر مبنی جملے سُننے کونہ ملتے کہ اَرے بھائی وہ تو قادیانی ہیں، وہ تو ایجنٹ ہیں، ان کے لئے دعا ہی جائز نہیں وغیرہ وغیرہ افسوس ہوتا ہے ہم کہاں جا رہے ہیں ہم اس قدر ظالم قوم ہیں کہ ہم اپنے ہیرو کو بھی نہیں پہچانتے، ہاں ہم مذمت کرنے والے ہیں یا بین کرنے والے یا جنازوں کو ہائی جیک کرنے والے ہیں۔

آؤ ایک بات بتاؤں ہے ذرا تکلیف دہ لیکن بخدا سچ ہے وہ کچھ یوں کہ کھیل کی دنیا کے دو عظیم کھلاڑی ایک گوروں (یہود و نصارا) کے دیس میں اورایک اسلام کے قلعے کا رہائشی۔ ایک کا نام محمد علی اور ایک کا نام جہانگیر خان دونوں کھیل کے شعبے کے عظیم ترین کھلاڑی۔ ایک انگریزوں کے دیس میں جس کی انگریز نے اتنی پذیرائی کی کہ اس کی زندگی کے متعلق بے شمار فلمیں بنائی جن میںAli,The greatest ,Ali the fighterاور بے شمار فلمیں اور ڈاکومینٹری بھی شامل ہیں، اس کے ساتھ اگر میں انعام واکرام کا تذکرہ کروں تو ایک آدھ موٹی کتاب بن ہی جائے جو نوازشات اُس عظیم کے لئے یہود ونصارا نے کی۔

اب میں اپنے عظیم کھلاڑی جو ابھی حیات ہیں اُن کا تذکرہ کروں بس ایک ٹھنڈی سانس بھر رہا ہوں باقی آپ سمجھ گئے ہوں گے ۔ میں جہانگیر خان سے معافی کا طالب ہوں کہ ہم آپ جیسے عظیم لوگوں کی قدر نہیں کرتے اور شاید ہم وہ قوم ہیں جو کسی کی موت کے بعد ہی اُس کی کارکردگی کو سراہتے ہیں اور ہاں ہم کارکردگی کو سُراہتے نہیں بلکہ اِس قدر پستی میں چلے گئے ہیں کہ ہم موت کو بھی کیش کرواتے ہیں ۔ اور اگر ضرورت پڑے تو جنازے بھی ہائی جیک کرتے ہیں ایدھی صاحب کی روح سے معذرت کے ساتھ کہ غریبوں کا مسیحا ،غریبوں کے درمیاں رہنے والا، مسکنت پر خوش رہنے والا اور سب سے بڑھ کر پروٹوکول کا سب سے بڑا مخالف جب دنیا سے گیا تو اُسے غریبوں سے دورکردیا گیا، تاریخ لکھے گی کہ کیسے اشرافیہ نے ایک غریب دوست شخص کے جنازے کو اپنے فوٹو سیشن کے لئے اُس کے دوستوں اور چاہنے والوں سے دور کردیا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں