The news is by your side.

پاکستانی قندیل، عورت ذات اور ہمارا معاشرہ

 ہمیں دوغلا پن ختم کرنا ہو گا بس جو دِل مانے کہو جو عقل تسلیم کرے اُس پرلبیک کہا جائے۔ قندیل فقط ایک عورت نہیں معاشرے کی سوچ کا نام ہے اوراِس سوچ کا ظہور قندیل کی شکل میں ہوا، یقین کیجئے ہم پر زبردستی کا نظام نافظ کیاجا رہاہے ورنہ ہماری مجموعی سوچ اور معیار کا اندازہ لگانا ہو تو عمران خان کے جلسوں میں خواتین سے بدتمیزی کے واقعات دیکھ لیں یہ کسی ایک جماعت کی سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں یہ اجتماعی سوچ ہے، جس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب بھائی اپنی بہن کو کالج چھوڑنے جاتا ہے تو راستے میں اوباشوں کی آوازیں آتی ہیں۔ جب باپ بیٹی کو موٹر بائیک پر ٹیوشن سے واپس لاتا ہے توتعاقب میں نظریں اورسیٹیاں، جب بہنیں شاپنگ مال سے اس لیے جلدی واپس آجاتی ہیں کہ غلیظ نظریں انہیں ایسے دیکھتی ہیں جیسے بھیڑیے شکار کے لئے جھاڑیوں میں تاک لگائے بیٹھے ہوں کہ کب شکار اُن کے ہاتھ آئے گا۔

قندیل نے معاشرے کوایک ایسی نظرسے دیکھا جو حقیقت سے بہت قریب تھا جہاں عزت، سوچ، اقداروروایات کا معیاردنیاوی دکھاوے سے ہٹ کراصل اور حقیقی روپ میں تھا،وہ اَن پڑھ تھی جو دیکھا جیسا دیکھا ویسا بیان کیااور ایسے ہی معاشرے کے لئے خود کو ڈھالا جیسا معاشرہ تھا، اُس نے کچھ بننے کی کوشش نہیں کی اورنہ ہی معاشرے کو اُس نے پڑھا اورنہ پڑھنے کی کوشش کی اُس نے جو کیا معاشرہ اُس کا طالب تھا، لیکن کیا کریں عوام کو عجت(عزت) آڑے آجاتی ہے ورنہ کون ایسا ہے جس نے قندیل کی ویڈیوز پربات نہ کی ہو، کس نے نہ دیکھا ہو۔ ہاں تین لوگ ایسے ہیں جن کو قندیل کا علم نہیں ایک وہ جو اندھا ہے ،ایک وہ جو گونگا ہے ایک وہ جو بہرہ ہے باقی معاشرہ ہی دھائی دیتا رہا ہماری مَانگیں پوری کرو اورکوئی چُھپ کرکوئی بانگ لگاتا رہا ،اب یہ بحث فضول ہے کہ قندیل کا کردار کیسا تھا وہ ایک معاشرے کی ضرورت تھی اوراِس میں صرف دِکھانے والے قصور وار نہیں دیکھنے والے بھی برابر کے شریک ہیں، ریٹنگ کا تعلق عوام سے ہے اور جو دیکھنا چاہیں وہی دکھایا جاتا ہے اور اس کا اندازہ کرنا ہو تو قندیل کے پروگرام اور ریٹنگ کا جائزہ لگا لیں کہ پاکستانی سوچ کا پلڑا کس طرف جھکا ہے تو اندازہ ہو جائے گا۔

قندیل بلوچ کا خون رائیگاں چلا جائے گا، سینیٹراعتزازاحسن

ہمیں صرف اتنا بتا دیا جاتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ہے، ارے نادانو! خودکشی کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی قاتل اور وجہ ہوتی ہے اور تم اِس غیرت کے نام پر ہونے والے قتل پرتودُھائی دیتے ہو اور معاشرے کے اِس رویے پر چُپ سادھے ہو جس میں ایک بھائی بہن کو ، باپ بیٹی کو ، ماں بیٹی کو ،بیٹا ماں کوقتل کرنے پر مجبور کر دیا، کیا معاشرہ قصوروار نہیں؟۔

ہم صرف تنقید کرنے والے ہیں اورکسی کی مجبوری کا اندازہ نہیں لگاتے، مجبوری کا اندازہ لگانا ہے تو ایک سچے واقعے سے لگائیں۔ ستمبر2011کراچی سے لاہوربذریعہ ٹرین جانے کا اتفاق ہوا، میں اور میرا دوست کراچی سے ٹرین میں سوار ہوئے حیدرآباد تک ہم دونوں ہی آمنے سامنے بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ حیدرآباداسٹیشن سے ایک عورت اپنی بیٹی کے ساتھ ٹرین میں سوار ہو گئی، میں سیدھا بیٹھ گیا کیونکہ ہمارے ساتھ اب ایک عورت بھی محوسفرتھی، تین چار گھنٹے تک کوئی بات نہیں ہوئی اور باتوں کا سلسلہ کچھ ایسے شروع ہواکہ اُس کو بیٹی کے لئے بیگ سے کھانے کا کچھ سامان نکالنا تھا اور اُسے مشکل پیش آرہی تھی میں نے اُن کو مدد کی پیشکش کی اوربیگ سے ڈبہ نکال کرانہیں دیا اِسی دوران میرے دوست نے پوچھا باجی ،آپ نے کہاں جانا ہے ؟جس کا جواب نہ ملا ۔ سفر جاری رہا کبھی بچی کا رونا سنائی دیتا کبھی ہم فیس بک کی دنیا میں گم ہو جاتے ساتھ ساتھ ٹرین کی چھک چھک جیسے تیسے شام ہو گئی اور ہم ملتان پہنچ گئے، میں کھانے پینے کا سامان لینے باہر نکلا تو کھانے کے ساتھ پانی کی تین بوتلیں بھی لے لیں اور واپس ٹرین میں آکرکھانا کھولا اور انہیں کھانے کا ایک ٹفن دیا جو انہوں سے شکریے کے ساتھ واپس کر دیا البتہ پانی کی چھوٹی بوتل انہوں نے ہمارے اصرار پر اپنے پاس رکھ لی ، کھانا کھانے سے پہلے اور بعد تک مجھے یہ سوال تنگ کرتا رہا کہ اِن محترمہ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا نہ جانے کیوں۔ میں سمجھ گیا شائد کہ ہماری موجودگی آڑے آرہی ہے یہ احساس ہوتے ہی میں نے دوست کا ہاتھ پکڑا اوراپنی سیٹوں سے باہرآگیا اورباہرجاتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ کھانا سامنے تختے پر رکھا ہے کھا لیں یہ کہہ کر ہم ٹرین کے دروازے پر آگئے اورباتیں کرنے لگے ، باتوں میں ہمیں اِس بات کا بہت زیادہ احساس ہوا کہ عورت کی زندگی ۔۔۔ اورٹھنڈی سانس بھری اور ہم وہیں کھڑے رہے یہاں تک کہ ہمیں یقین ہو گیا کہ محترمہ نے کھانا کھا لیا ہو گا۔

جب ہم اپنی سیٹ پر واپس گئے تو مجھے یہ دیکھ کر خوش ہوئی کہ انہوں نے ہمارا دیا ہوا کھانا قبول کیا اور شکریہ ادا کیا جو نہایت سرسری تھا۔ میں بیٹھ کر دوبارموبائل گیم میں لگ گیا کہ اچانک میری نظر خالی ٹفن پر پڑی جس کے نیچے سو روپے کا نوٹ رکھا ہوا تھا مجھے ایک دم جھٹکا لگااورخاموش بیٹھ کر نہ جانے کس سوچ میں گم ہو گیا۔ سفرجاری تھا میں تھک چکا تھا اور سونے کا خیال آیا اِسی دوران محترمہ بولیں وہ پیسے وہاں سے اُٹھا لیں ۔میں ایسے گویا ہوا جیسے میں نے پیسے پہلے نہیں دیکھے اور اِدھرُ ادھر دیکھنے لگا اور اپنے جیب پر ہاتھ مار کر دیکھا کہیں گر تو نہیں گئے جو سو دو سو روپے تھے جیب میں۔ تو وہ بولیں وہ ٹفن کے نیچے ہیں۔ میں نے اُٹھائے اور انہیں واپس دینے کے کوشش کی اور اصرار کیا لیکن انہوں نے منع کر دیا تب نہ جانے کیسے میرے منہ سے نکلا کہ یہ پیسے واپس کرنے کے لئے نہیں یہ اِس پیاری سی بچی کے لئے ہماری طرف سے تحفہ سمجھ لیں انہوں نے قبول کر لئے۔

تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے ہم سے پوچھا کہاں جاؤ گے میرا دوست بولا ہم لاہورجا رہے ہیں تو بولیں لاہوری لگتے تو نہیں، دوست بولا وہ جی ہم کشمیر کے ہیں لاہور ایک کام سے جانا ہے اور اُن سے پوچھا آپ کہاں جا رہی ہیں تو بولیں ہمارا ٹھکانہ کہاں۔۔؟ مجھے تعجب ہوا یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ ایک صحافی استاد کا قول یاد آیا کبھی کبھی خبر کے لئے کسی کی خوشی میں خوش ہونا اورکبھی غم میں رونا پڑتا ہے میں نے چہرے پر دُکھ لانے کی کمال ایکٹنگ کی ،اور انہیں یقین ہو گیا کوئی ہم سازمانے کامارا ہے۔ میرے دوست نے ایک بار دوبارہ پوچھا کیا کرتی ہیں آپ بَس کیفیت کیاتھی اچانک آنکھوں سے آنسو کا ایک سیلاب امڈ آیا بولیں آپ پڑھے لکھے دِکھتے ہو آپ کو کیا بتاؤں کہ میں لوگوں کی خوشی کا سامان ہوں، ، میں سمجھ گیا پر میرے دوست کو سمجھ نہ آئی کہ کیا کہا جا رہا ہے وہ بولنے ہی والا تھا کہ’’جی کیا کہا‘‘ میں نے کہنی کے زور سے چُپ کروا دیا۔

وہ تو جسے ایک داستان سنانے بیٹھی تھی لیکن میرے دوست کی ہنسی نے اُسے کچھ کہنے نہ دیا بس اتنا کہاکہ ’’وقت ،مجبوراوربے بس بناتا ہے‘‘ میں نے آخری بارشاہ رخ خان کی سی ایکٹنگ کی اورمایوسی بھرے لہجے میں کہا آپ اِس پیشے میں کیوں اور کیسے ۔۔؟ جس کے بعد ایک جملہ جس نے میری نیند ختم کر دی وہ یہ تھاکہ ’’صاحب! لوگ کبھی روندتے ہیں کبھی نچاتے ہیں، بس اتنا یاد رکھنا ’’دنیا میں لوگ ناچ ناچ کرمرتے ہیں اورعورت ذات‘ مَرمر کے نا چتی ہے‘‘۔

کبھی میں اُن کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا کبھی میں اِس جملے کی گہرائی کا اندازہ کرنے کی کوشش کرتا نہ جانے کب لاھور آیا میں آج تک اِس جملے کے معنی تلاش کر رہا ہوں آج قندیل کو جب مردہ حالت میں دیکھا تو اُس خدا کی بندی کا جملہ میرے ذہن میں آگیا، ’’صاحب وقت مجبوراور بے بس بناتا ہے لوگ ناچ ناچ کے مرتے ہیں، عورت ذات مَر کے ناچتی ہے‘‘۔

نجانے کب قندیل مرچکی تھی آج دفن ہونے کے لئے تیار ہوئی ہے۔ نجانے کتنی بارجوان عورت کو گھر بیکار بیٹھے رہنے پرطعنے، چھوڑیے جی یہ باتیں! ہاں یاد آیا قندیل نے حفاظت کی درخواست دی تھی نا، امجد صابری نے بھی سیکیورٹی کے لیے درخواست دی تھی۔ ایک شعرخوب یاد آیااُن حکمرانوں کے لیے جو سیکیورٹی تک نہیں مہیا کر سکتے وہ بھی شریکِ جرم ہیں۔

کرسی ہے‘ تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کرنہیں سکتے تو اترکیوں نہیں جاتے

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں