The news is by your side.

مخلصی کا بادشاہ، فقیری کا امیر

اس کائنات میں بے تحاشا مخلوقات موجود ہیں لیکن انسان ان میں سب سے افضل ہے اورجو شے اس کو دیگر مخلوقات پرسبقت دیتی ہے وہ جذبہ احساس ہے، گنتی کے مطابق تو دنیا میں ابن آدم نماسانس لینے والےانسانوں کی تعداد اربوں میں ہے جبکہ جذبہ احساس سے سرشارحقیقی انسان بہت کم ہیں۔

وہ ہی انسان صرف انسان کہلائے جانے کا مستحق ہے جس انسان میں انسانیت ہو، انسانیت کے لیےیکسانیت کی سوچ لازم و ملزوم ہےاوروہ تب ہی مکمن ہے جب ’’میں‘‘ اور’’تو‘‘ کا فرق باقی نہ رہے۔

بچے کےاس دنیا میں آنکھ کھولتےہی جو لفظ اس کو گھٹی میں ملتا ہے وہ ’میں‘ ہے۔ اس کا کیا قصور جوں جوں وقت گزرتا ہے اس کا عقیدہ پختہ اور وہ اپنی ذات کو ہی دنیا کا محورسمجھ بیٹتھا ہے اوردورِشعور میں بھی وہ لا شعوری کےنقش شدہ لفظ کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔

کیااحساس صرف انسانوں کی میراث ہے یا پھرجانوروں، پرندوں، آبی حیات اور کیڑے مکوڑوں میں بھی پایا جاتاہے؟۔

پیاراورمحبت تودیگر مخلوقات میں بھی موجود ہے لیکن ایک دائرے کے اندر رہ کر، جانور، پرندہ، آبی مخلوق اور کیڑے سب کہ سب صرف اپنے جسم سے جنےجانے والوں سے پیار ان کی نہگداشت وخوراک کا خیال رکھتے ہیں اوران کو ہر آفت و مصحبیت سے بچھاتےہیں باقی ایک دوسرے کو کاٹ کھاتے ہیں۔

انسان پر اگرغورکیا جائے تو اس کی حالت و کیفیت اس جانور سے قدرے مشابہت رکتھی ہے جوانسانیت کا نعرہ تو لگتا ہے مگراندرسے اپنی ذات کو ایک خاص دائرے میں جانورکی طرح بند کر لیتاہے۔

ابن آدم اسی وقت انسان کہلایا جائے گا جب اس میں احساس کا مادہ پایا جائے نہ کہ صرف انسانوں کےلیے بلکہ کائنات میں موجود دیگرمخلوقات کے لیے بھی سلامتی کاخیرخواہ ہو اوریہ تب ہی ممکن ہے جب اس کا ضمیرزندہ ہو۔

گزشتہ دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک ایسا ہی پیکرِانسانیت، با ضمیر، جذبہ خدمت کا حامی اور خدمت خلق سے سرشار بابا ئے خدمت کے لقب سے مشہور عبدالستار ایدھی اس جہان فانی سےکوچ کرتے ہوئے بھی اپنے اعضا جسمانی عطیہ کرکے ہمیں انسانیت کا آخری درس دیتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملا۔

ایدھی فقیری میں بادشاہی رکھنے والا بندہ مرد تھا جس نے ہمیشہ خود غرضی کو بالائے طاق رکھ کر ہاتھوں میں کشکول تھامے فلاحی مقصد کی غرض سے چندہ اکٹھا کیا بغیرکوئی آڑ اورشرمندگی محسوس کیے۔

ایدھی کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، بلکہ پوری دنیا نے اسے سراہا اورمختلف اعزازوں سے بھی نوازا۔ ایدھی نے انسانوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ جانوروں کی بھی خدمت کی۔

ایدھی کو جب خبر ہوئی کہ تھرپارکرمیں قحط سالی کے باعث جانورمررہے ہیں تو وقت ضائع کیے بغیر فورا اپنی ٹیم کے ساتھ ان کی جان بچانے اور خدمت کے لیے نکل پڑے۔

ایدھی اس فانی دنیا کا راز جانتا تھا اسی لیے ایدھی نے مادیت پر روحانیت کو ترجیح دی اوراسی کو اپنا مقصد حیات بنا لیا۔ ایدھی ’ایدھی‘ کچھ اس طرح بنا کہ اس نے خود کو دوسروں سے مختلف نہ سمجھا اورہم ایدھی اس لیے نہیں بن سکتے کہ ہم ایدھی کوخود سے مختلف سمجھتے ہیں۔

اگر ہم پاکستا ن میں مزید ایدھی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو حکومت وقت کو ایدھی کی حیات و خدمات پر مبنی ایک مضمون پرائمری نصاب میں لازمی شامل کرنا ہوگا۔ چلو کام آسان کرتےہیں انسانیت پر اتنی لمبی چوڑی تمہید نہیں باندتھے ،انسانیت کی اس تمام لکھائی کو مختصر کرتے ہیں اور ایک لفظ میں سمیٹتے ہیں ’ایدھی‘۔ آج تک ایدھی‘ انسانیت اور خدمت خلق کی وجہ سےجانا جاتا تھا آج کے بعد انسانیت ایدھی کے نام سےجانی جائے گی۔

مخلصی میں امیررہنے دے
بادشاہی کا اعتبار نہیں
احتیاطاً فقیر(ایدھی)رہنے دے

شاید آپ یہ بھی پسند کریں