The news is by your side.

اِدھراُدھرکی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا

کچھ عرصہ پہلے ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جس پر ابھی تک پریشان ہُوں، دل گرفتہ ہوں، نادم ہوں یا حیران ہوں؟ کہاں جاؤں، کِس سے پوچھوں؟؟ کُچھ تو بُھول ہوئی ہے، مگر کیا؟ کب؟ اور کِس سے؟ جِس رحمت للعالمین(صلی اللہ علیہِ وسلم ) کے سائے میں پناہ مِل جانے کی دُعا مانگتے آئے ہیں،  ہم اپنی جہالت، نفرت اور بےشرمیاُسی کرمانوالے کے در پہ ہی لے آئے ہیں! کِس سے پوچھوں کہ کس نے کون سی جنت ڈُھونڈتے اُس سبز گُنبد پر چڑھائی کی جو امان کا استعارہ ہے، سُنا ہے یہود و ہنود میں سے نہیں تھا، ہمیں میں سے تھا! کون سے الّلہ کی بڑائی کا نعرہ اور کس کی خوشنودی کے لیے اپنے گندے وجُود کے لوتھڑوں سے اس مبارک مہینے، اس مبارک جگہ کو متعفن کردیا اُس سورما نے؟ کیسی جہادی تربیت، کیسی برین واشنگ، اور کونسی تنظیم؟؟؟ یہاں تو کِسی گلی میں پتھر کھاتے، ہذیان بکتے دیوانے کے سامنے اُس ہستی کا نام لو تو وہیں ٹھٹھک جائے، سر جُھکا لے، ادب سے خاموش ہو جائے! کونسا نفرت کا زہر بھرا ہے اِن وحشیوں میں کہ کوئی حد نہیں جَنونیت کی، بربریت کی!۔

تُف ہے اُس کوکھ پر جہاں سے یہ آستین کے سانپ جنم لیتے ہیں! وعید دو اُن اُستادوں کو، مبلغوں کو، پَھنوں کی طرح لہراتے طُرّوں کو جو سینوں میں قرآن کی جگہ بارُود بھرتے ہیں!

مُبارک ہو! تمہارے درجات بُلند ہو گئے ہیں، سبز گُنبد پر خُون کے چھینٹے اڑانے والو! تم جلد دیکھ لو گے کہ جو تمہارے لیے واجب کی گئی ہے وہ جنت ہے یا کُچھ اور؟ تمہارا اُس عدالت تک پہنچنا ٹھہر گیاہے! جلد اپنی گردن پہ کسی خُدا کے بندے کی گرفت کا انتظار کرو! اِن ڈرے سہمے ہوئے لوگوں نے جس دِن اپنی ہی آستین کوجھاڑ ڈالا، خُدا کی زمین تنگ پڑ جائے گی تم پر! یہ اپنے مطلب کی آیتوں کی تشریحیں اور دلیلیں جَلد تمہارے گلے میں نامرادی اور پھٹکار بنا کر ڈالی جائیں گی، خُونِ ناحق کی سیاہی جلد تمہیں نگل جائے گی!۔

خُدا کرے سبز گنبد پر پڑنے والے یہ چھینٹے اُن کو بھی جگا دیں جو اپنا دین ، اپنی دُنیا اِن دَلّالوں کے حوالے کرکے جانے کس احمقوں کی جنت میں پڑے ہیں! کِس چیز کا انتظار ہے، کس شے کا ڈر ہے، گنوانے کو بچا کیا ہے؟ آؤ سوال پُوچھیں، منبر پر چڑھ کر خواجۂِ یثرب کی حُرمت پہ کٹ مرنے کا درس دینے والوں سے، کہ اعلٰی حضرت! کون ہیں یہ لوگ، ہماری ہی طرح کے کیوں لگتے ہیں؟ کیوں آپ ہی کے ہمسائے یا شاگرد نکلتے ہیں؟ یہود و ہنود سے بچ کے رہنے کے طریقے بہت سُن لیے، آپ سے کیسے بچیں؟ ہم گناہگار خود کو بیچتے ہیں، سرکاری زمین بیچتے ہیں، مِرچوں میں اینٹیں پِیس کے بیچتے ہیں، آپ کیا شے بیچتے ہیں؟ مذہب؟ خُدا؟ فُرقہ؟ کیا بھاؤ لگائے ہیں بھلا؟ ڈالر میں، روپے میں یا ریال میں؟۔

اور آخیر میں آؤ میرے جیسے گناہگارو، میرے سے سوشل میڈیا جہادیو، چار انگریزی کے حرف پڑھ کر سارا دن مولوی کو اور سیاستدان کو گالیاں دے کے فرض ادا کر دینے والو! اپنا بستہ بھی تو چیک کرواؤ؟ کب کھڑے ہوئے تم حق کے لیے، کب کسی سے سوال پوچھا کہ یہ جو لاکھوں بچے دو وقت کی روٹی کی خاطر مدرسوں میں فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا ایندھن بن رہے ہیں، ان کا کوئی والی وارث ہے یا نہیں؟ نئے گھر میں منتقل ہونے سے پہلے اُسی مدرسے کے بچوں سےایک دیگ بریانی کے بدلے قرآن پڑھوا کر اللہ کی برکت کے خواستگارو! کبھی تحقیق کی کہ اپنا دِین اُس بیچارے ناخواندہ مولوی صاحب کے حوالے کر کے خُود کونسی جنت ڈھونڈ رہے ہو؟ جو بچہ کسی مضمُون میں پاس نہ ہو پائے، اُسے خُدا کے دین کی خدمت کے نام پہ مدرسے میں داخل کروا کے دین و دُنیا کی کون سی خدمت کی ہم نے؟
اگر کبھی کسی ایک بھی معصوم کا مستقبل سنوارا، سمجھو کئی زندگیوں کونفرت، شدت پسندی اور تعصب کی آگ میں جھلسنے سے بچا لِیا.

آؤ سوال پوچھیں! خُود سے، اہل اقتدار سے، جُبہ ودستار سے، خادمین الحرمین الشریفین سے، کہ کیوں گالی بن گئے ہیں ہم دُنیا کے لیے؟ کیوں جہالت کے گڑھے میں اُتر گئے ہم، کیوں اک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں ہم؟ اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنی ہی صفوں میں نظر دوڑائیں، اپنی ہی آستینیں ٹٹولیں، یہ وحشی، یہ بکاؤ مال، یہ راندۂِ درگاہ، یہ خون آشام بھیڑئیے ہماری ہی صفوں سے نکلیں گے! ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ رکھیے، نہ ڈھونڈ پائے تو انتظار کیجیےتب تک، جب تک کہ یہ پاگل پن، یہ بربادی کے پیامبر خود آپ کو ڈھونڈ نکالیں، اور جو بچ جائیں گے وہ شمعیں روشن کریں گے، آنسو بہائیں گے اور اپنی باری کا انتظار کریں گے! پھر جب وہ آخری عدالت لگائی جائے گی، سوال تو پھر بھی پوچھے جائیں گے کہ شر کی آگ میرے محبوب (صلی اللہ علیہِ وسلم )کے روزے تک لپک رہی تھی اور تو کیا کر رہا تھا، تیرے اختیار میں کیا کُچھ نہیں تھا اور تو فرنگیوں کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی رِقت آمیز دُعائیں اونچے اونچے سُروں میں پڑھ رہا تھا؟؟؟؟ مورچھل کی طرح جھومتی پگڑیوں اور ہٹو بچو کی صدائیں لگاتے دربانوں والوں کی زبانیں گنگ ہو جائیں گی!۔

اِدھر اُدھر کی نہ بات کر ، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا
مجھے رہزنوں سے گِلہ نہیں،تری راہبری کا سوال ہے

Print Friendly, PDF & Email