The news is by your side.

فکرفردا: تاریخ چترال کے بکھرے اوراق

ہندوکش اورہندوراج کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ضلع چترال اپنی قدیم تہذیب وثقافت ،قدرتی وآبی وسائل اور فطری حسن نیز دفاعی اہمیت کی وجہ سے نمایاں مقام کے حامل ہے، اگر چہ چترال کی قدیم تاریخ سے متعلق کوئی مستند دستاویز ی مواد موجودنہیں البتہ وقتاََ فوقتاََ مختلف علاقائی اور بیرونی محققین نے لوک روایات وشعری بیانوں، لسانی سروے اور بعض آثاریاتی شواہد سے یہاں کی قدیم تاریخ سے متعلق مختلف نتائج اخذ کئے ہیں۔ جوکہ چترال میں تاریخ نویسی کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں ۔ چونکہ چترال کی تاریخ پر متعدد کتابین اورتحقیقی مقالات شائع ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک اس علاقے میں اولین انسانی زندگی اور مختلف حکومتوں وغیرہ سے متعلق متفق علیہ تشریح کا فقدان ہے ۔ اس کے علاوہ چترال کی تاریخ پر اردو اور انگریزی زبانوں میں متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ ضلع کے طول وعرض میں موجود لائبریریوں میں تاریخ چترال سے متعلق کوئی تصنیف موجودنہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید نسل کی اکثریت چترال کی قدیم وجدید تاریخ سے ناواقف ہے۔ یہی حال جدید تاریخ(1947ء سے تاحال) پر بھی طالب علموں کو کچھ نہیں ملتا۔جس کی وجہ سے نوجوان نسل کوتاریخ کا تقریباََ کچھ بھی علم نہیں، اس کے اثرات آئے روز کی ہماری بحث ومباحثوں اورفیصلہ سازی میں گمراہی کی صورت میں نظر آتے ہیں کیونکہ جو قومیں تاریخ سے نہیں سیکھتی عبرناک انجام ان کامقدر ہوتاہے۔

قدیم تاریخ چترال پر ایک نئی تحقیق نامور دانشور پروفیسر اسرارالدین کی تصنیف ’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق‘ کے نام سے مسال رواں کے شروع میں شائع ہوچکی ہے ۔ پروفیسر اسرارصاحب کا شمار بین الاقوامی شہرت کے حامل چترالی دانشوروں میں ہوتاہے جو کہ عرصہ درازتک خیبر پختونخواہ کے سب سے بڑے سرکاری درسگاہ جامعہ پشاورکے شعبہ جغرافیہ کے چیرمین رہ چکے ہیں آپ متعدد کتابوں اور تحقیقی مقالوں کے مصنف ہے۔ اس کے علاوہ آپ پشاور اور اسلام آباد میں زیرتعلیم چترالی طالب علموں کے نمائندہ رسالہ ’ماہ نامہ تریچ میر‘کے سرپرست اعلیٰ کے طورپر ادبی خدمات سرانجام دے چکے ہیں ان دنوں موصوف ریٹائرمنٹ کی زندگی بسرکررہے ہیں۔

تاریخ چترال کے بکھرے اوراق ،ایک جائزہ

پروفیسر اسرارالدین صاحب کی حالیہ شائع شدہ کتاب’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق‘ چترال کی تاریخ نویسی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اس کتاب کا پیش لفظ سوات یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ڈین فیکلٹی آف ہیومینیٹرئیز محمد فاروق سواتی نے لکھاہے جبکہ دیباچہ خود مصنف کے قلم کی پیداوار ہے ۔جس میں مصنف تقریباََ دو صفحات میں کتاب کا خلاصہ بیان کرنے اور تاریخ نویسی کے مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔یہ کتاب بنیادی طورپر تیرہ ابواب پر مشتمل ہے ،دیباچے کے بعد پہلا باب بموضوع ’چترال‘ہے جس میں ضلع چترال کی تاریخی پس منظر اور تاریخ نویسی وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔دوسراباب’چترال کی آرکیالوجی ‘ہے اس میں سرآرل سٹائن نامی انگریز محقق کے مشاہدات سے استفادہ کیاگیا ہے ۔اس باب میں انتہائی قدیم تاریخ ،چینی تاریخی ماخذات میں چترال سے متعلق موضوعات نیز مستوج میں واقع اہم آثاریاتی مقامات کی نشاندھی کی گئی ہے ۔باب نمبر 3’’چترال کی آرکیالوجی (موجودہ دور)‘‘ کے عنوان سے ہیں۔ جس میں بالائی چترال یعنی سب ڈویژن مستوج کے تاریخی گاؤں پرواک میں واقع آثاریاتی مقامات کی کھدائی سے حاصل ہونے والی قبروں ،مکانات اور مختلف نوردات سے متعلق گفتگو کی گئی ہے ۔مثلاََ مصنف لکھتے ہیں’’ 1967ء میں ایک یورپی آرکیالوجسٹ سٹکل نے چترال میں ماقبل تاریخ کے زمانے کی چارقبریں دریافت کی ۔یہ قبریں ان کو چترال ٹاؤن کے بکماک، بالاحصار( اوچسٹ)،اور نوغور موڑی نیز بروز میں تھمیونک میں ملیں ۔لیکن وہ صرف نوغور موڑی والی قبر کی کھدائی کرسکا۔ جس میں سے اس کو لوہے سے بنا ہوا نیزے کابھال ،ایک ٹوٹا ہوامٹی کابرتن اور انسانی ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ملا۔1970ء میں کیمبرج یونیورسٹی ( برطانیہ) کے مشہور ماہرین آثار قدیمہ بی آلچن اور آرآلچن کو کسی ذریعے سے اویون سے ملے ہوئے مٹی کے برتنوں کے کچھ مجموعے پیش کئے گئے تھے جن کا انہوں نے گندھاراکے زمانے کی قبروں سے تعلق جوڑ دیا۔1972ء میں راقم نے اپنے ایک آرکیالوجسٹ دوست انعام اللہ جان مرحوم ( جو کہ اس زمانے میں پشاور یونیورسٹی میں لیکچرر تھے) کے ہمراہ ایک مقامی دانشور گل نواز خان خاکی کی نشاندہی پر سنگور میں ایک مقام پر کھدائی کی۔ جہاں پر ہمیں ایک دومنزلہ قبر مل گئی ۔ قبرکا اوپر والاحصہ مقامی لوگوں نے کھود کر خراب کردیاتھا جبکہ نیچے والے حصے میں نوعددمٹی کے برتن اور ایک عدد پکی ہوئی مٹی کا مجسمہ ملا ۔مٹی کے برتنوں میں چار صراحی ،تین عدد بڑے پیالے اور دوعدد دودھ کے برتن ملے۔ اس طرح اس وقت پاکستان میں پہلی دفعہ دومنزلہ قبروں کی دریافت کی گئی تھی اور اس طرح آریائی قبروں کی ثقافت (Aryan Grave Culture) کے دائرے میں چترال کا علاقہ بھی شامل ہوگیا تھا۔( ان نوردات ) کے تقابلی مطالعہ سے یہ معلوم کیاگیا تھا کہ ان برتنوں کا تعلق ’حصار دور‘ سے ہے جو کہ تقریباََدوہزار سال قبل مسیح کا زمانہ تھا ۔ حال ہی میں اسی سائٹ پر برآمد شدہ ہڈیوں کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی گئی ہے جس کا زمانہ 360ق م سے 90عیسوی تک اندازہ لگایا گیا ہے ۔

1998-99ء میں پشاور یونیورسٹی ،کلاسگویونیورسٹی اور بریڈ فورڈ یونیورسٹی (برطانیہ) کے اشتراک سے ضلع چترال کے لئے ایک سائنسی مطالعاتی پراجیکٹ تشکیل دی گئی تھی جس میں مقامی اور باہر کے ممالک کے ماہرین طبقات الارض ،نباتات ،ارضیات ،ماحولیات،آثاریات وغیرہ نے حصہ لیا، اس پروجیکٹ میں خاص طورپر بریڈ فورٹ یونیورسٹی کی ٹیم پشاور یونیورسٹی کے اس وقت کے شعبہ آرکیالوجی کے پروفیسر وچیرمین ڈاکٹر احسان علی صاحب کے زیر قیادت ضلع چترال میں صیحح انداز میں آثار قدیمہ کے اہم مقامات کے کھوج لگانے کے لئے بھر پورکام کیا۔ جس کے نتیجے میں رومبور اور دریائے چترال کے ساتھ مختلف علاقوں میں 18مقامات پر پہلی مرتبہ گندھاراقبریں دریافت کیں۔ اس کے علاوہ 15قبرین آریائی زمانے کی شامل تھیں۔ تین تاریخی قلعے بھی دریافت کئے گئے تھے۔ اس کے بعد 2003ء میں محکمہ آثاریات وعجائب خانہ جات صوبہ سرحد ،محکمہ آثارقدیمہ حکومت پاکستان اور بوسٹن یونیورسٹی (امریکہ) کی ٹیم نے ڈاکٹر احسان علی (جو اس وقت محکمہ آثارقدیمہ صوبہ سرحد کے ڈائریکٹر مقررہوئے تھے) کی قیادت میں اور ڈاکٹر ایم آرمغل کے ہمراہ ضلع چترال کے پرواک کے مقام پر اہم جگہیں دریافت کئے۔

2004ء میں ڈاکٹر نسیم خان نے چرون کے پتھر کے کتبے کے علاوہ ژونڈاک ،گومست،شورگوچ میں پتھروں پر کتبوں نیز اویون ،بونی ،راغ میں گندھارا زمانے کے قبروں کے بارے میں نشاندہی کی۔ نیز گہریت اور کوہل میں پرانے گاؤں کے آثار بتائے۔
اب تک کل 89مقامات میں آثار قدیمہ کی دریافت عمل میں آئی ہے جن میں سے پرواک او رسنگور کے مقامات میں کھدائی کا کافی کام مکمل ہوچکاہے ۔پرواک کی کھدائی پر ابتدائی رپورٹ بھی منظر عام پر آگئی ہے البتہ سنگور پر رپورٹ ابھی بھی مکمل نہیں ہوئی ۔جن مقامات پر آثار قدیمہ کی دریافت ہوئی ہے ان کی تفصیل زمانوں کے مطابق حسب ذیل ہے۔

گندھارا تاریخ کے 34، گندھارا قبوری کلچرکے 8،بدھ مت دور کا 1، کالاش دور کے12،پانچویں صدی عیسوی کا1،اولین اسلامی دورکے2،امیہ دور8،گیارھویں صدی1،سولہویں صدی 1،اٹھارہ ویں صدی1،انیس ویں صدی1،1850ء1،حالیہ اسلامی دور3،کٹوردور11،برطانوی دور4، یعنی کل 89۔(اسرارالدین، تاریخ چترال کے بکھرے اوراق،ص53,54,55,56)۔

کتاب کا چوتھاباب،چترال کا کلاش قبیلہ ( شیگرکی تحقیق ) کے عنوان سے ہیں جس میں کلاش کے اولین نسل ان کی ثقافت ،مذہب ،رسم ورواج ،عبادات العرض کلاش برادری کی زندگی کے سارے گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے چترال میں حالیہ چند برسوں کی آثاریاتی تحقیق اور نئے تاریخی حقائق سے متعلق لکھتے ہیں ’’ارکیالوجیکل ٹیم نے ( چترال میں )سروے کے دوران گندھارا تہذیب کی قبروں کے چند ثبوت بھی دریافت کئے ۔پروجیکٹ کے سرپرست ڈاکٹر احسان علی( موجودہ وائس چانسلر عبدالوالی خان یونیورسٹی مردان) کے مطابق یہ تقریباََ تین ہزار سال پرانی قبریں ہیں جو کہ ساؤتھ ایشین آرکیالوجی کے نئے اطلاعات سے مشابہت رکھتی ہے ۔

ڈاکٹر احسان کی نگرانی میں پراجیکٹ کے آخری دوقسطوں کے دوران تمام تحقیقی کام احسن طریقے سے انجام پائے ان تحقیقات کی روشنی میں چترال کے لوگوں بالخصوص کلاش کے بارے میں یونانی والنسل ہونے کا نظریہ غلط ثابت ہوا ہے بلکہ ان کے آریاء النسل ہونے کے قومی شواہد حاصل ہوئے ہیں‘‘ (تاریخ چترال کے بکھرے اوراق،ص61)۔

مصنف جدیدآثاریاتی تحقیقات کے بعد سامنے آنے والی شواہد سے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا کہ کلاش دراصل سکندر اعظم کے سپاہیوں کی اولاد سے ہیں البتہ آج بھی اس مفروضے کو مقامی اور غیر مقامی علمی حلقوں     میں یقین کی حد تک درست ماناجاتاہے۔کتاب کے پانچویں باب بہ عنوان ’چترال کے بعض پرانے باشندے ،مرزارحمت نظر کی یادداشتیں ‘ہے۔جس میں چترال بالخصوص چترال ٹاؤن، دروش ، اور ارندووغیرہ کے مختلف علاقوں میں مقیم چند پرانے نسلوں پر کہیں مختصراََ اور کہیں جامع انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ چھٹا باب ’درد یا پساچہ زبانیں‘‘ہے جس میں نامور ماہرلسانیا ت سرجارج گرئیر سن کی تحقیق سے استفادہ کیاگیا ہے اس باب میں چترال اور گلگت بلتستان میں بولی جانے والی زبانوں کے ماخذات نیز ان کے ایک دوسرے سے مشابہات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔

خصوصیت سے کافرستان میں بولی جانے والی زبانوں ،کہواردرد گروپ یعنی شینا اور اس کے ذیلی بولیوں اور ان میں موجود پرانے ادب اور بیرونی زبانوں کے اثرات پر مفصل گفتگو ہے اس کے علاوہ پساچہ زبان ،درد تاریخ، درد اور رومن ،درد اور اشوکہ اور ان زبانوں کے پرانے ادب کوزیر بحث لایاگیا ہے ،لیکن یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ تحقیق دراصل گرئیرسن کی انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے ۔باب نمبر سات کا عنوان ’چترال کی زبانین ( جارج مارگنسٹن کی رپورٹ ) ہے ۔اس مضمون میں کہوار،کلاشہ ،پالولہ، دامیٹری /دامیلی، گوربتی یا ارندوئی وار، گوجری، کاتی (بشگالی)، پشتو، فارسی،واخی ،یدغہ کی تاریخ اور ان کے اس خطے میں ظہور نیز ان کی مختلف علاقوں میں موجودگی بیان کیاگیا ہے۔

آٹھواں باب بہ عنوان   ’برطانوی ہند کی پالیسی شمالی سرحدات کے بارے (1865-1895ء )‘ ہے جس میں گیری ایلڈر نامی ایک انگریز محقق کے انکشافات بیان کئے گئے ہیں ۔ دیکھاجائے تو یہاں سے کتاب نئی اوردلچسپ موڑمیں داخل ہوتی ہیں ۔اسی باب میں برطانوی ہند کے زمانے میں ریاست چترال کے حالات ،تبدیل ہوتے ہوئے بین الاقوامی مظاہرمیں ریاست چترال کی دفاعی اور تزویراتی اہمیت بیان کیاگیاہے۔خصوصاَزار روس کی توسیع پسندانہ اور جارحیت پر مبنی اقدامات کو کس طرح برطانوی ہند میں محسوس کیاجارہاتھا۔اور چترال جیسی گمنام پہاڑی ریاست کس طرح بین الاقوامی شہرت اختیار کر چکا تھا۔اسی زمانے میں برطانوی ہند کے کئی جاسوس ،سیاح اورجغرافیہ دانوں نے اس علاقے کے مختلف دروں کو دریافت کرنے کی مہمات شروع کردی۔اس کے علاوہ اس باب میں افغانستان ،چترال اور کشمیر کے حکمرانوں کے ایک دوسرے کی ٹانگین کھینچنے کے لئے وقتاََ فوقتاََ برپا ہونے والی شورشین اور انگریزوں کی کئی برسوں تک چترال کے حوالے سے گومگو پر مبنی پالیسیوں کو بیان کیا گیا ہے ۔ کیونکہ اس دور میں برطانوی ہند کے بعض افسران جلد ازجلد چترال کے لئے بذریعہ دیر سڑک تعمیر کرنے کے خواہش مند تھے تو ایک حلقہ اسے روس کے لئے ہندوستان پہنچنے کا آسان اور ہمورا راستے سے تعبیر کرکے اس کی پرزور مخالفت کررہے تھے۔یہی کچھ 1979ء میں روس کے افغانستان چڑھائی کے بعد پاکستانی پالیسی سازوں نے بھی اختیار کیاجبکہ لواری ٹنل پر ذوالفقار علی بھٹو کے شروع کردہ کام کو بند کردیاگیا۔اس کے پیچھے بھی دو عوامل کارفرما تھے ایک بھٹوصاحب کے شروع کردہ منصوبوں پر قدغن لگانا اور دوسرا یہ تصور کے لواری ٹنل کھلنے کی صورت میں سویت یونین کے لئے یہ پاکستان تک رسائی کا آسان گزرگاہ ثابت ہو گا۔ اس دور میں پاکستانی پالیسی سازوں کی یہ سوچ تھی کہ چاہے چترال سویت یونین کے قبضے میں بھی چلے جائے لیکن روس کی مزید پیش قدمی ناقابل برداشت ہے۔

پروفیسر اسرارالدین صاحب اپنی کتاب میں برطانوی ہند کی اس پالیسی کو’روس فوبیا ‘کا نام دیا ہے جبکہ جدید دور میں پاکستانی حکمرانوں کے ماضی میں چترال سے متعلق پالیسیاں بھی ’سویت یونین فوبیا‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔اسی باب میں ڈیورنڈلائین معاہدہ ،1892ء میں چترال کے ہیبت ناک حکمران امان الملک کی وفات کے بعدتختِ شاہی کے لئے ان کے بھائی اور بیٹوں کے درمیان شروع ہونے والی خون ریزی جس میں صرف پانچ سالوں کے درمیان پانچ مہتران تخت شاہی پر قبضہ جمانے اور مخالفین کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتاردیئے گئے تھے کوبھی بیان کیاگیاہے۔

یہ دور چترال کی تاریخ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا جبکہ خانہ جنگی کے اختتام پر انگریزوں نے ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کردی اور ریاست کے حصے بخرے کر دئیے گئے۔اس کے علاوہ چترال ڈیبٹ پہلی مرتبہ برطانیہ کے علمی ودانشورانہ حلقوں اور پارلیمنٹ تک پہنچی جس نے برطانوی معاشرے میں ایک نئی ارتعاش کو جنم دیاجو کہ نئی تاریخ رقم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوا۔باب نمبر 9کا عنوان’مہتر چترال (لارڈ کرزن کے تاثرات) ہے۔جس میں لارڈ کرزن کی وہ یادداشتین شامل ہے جو 1894ء کے موسم خزان میں وہ بروغیل کا درہ عبور کرکے چترال میں داخل ہونے کے بعد لکھاتھا۔

اس مضمون میں مصنف (کرزن) نے نہ صرف چترال کی جغرافیہ بیان کیا بلکہ رومانوی انداز اختیار کرتے ہوئے علاقے کے فطری حسن پر بھی سیر حاصل تبصرہ کیا ہے مثلاََلکھتے ہیں’’ شام کو جب چمکتی برف پوش چوٹیوں سے سورج کی روشنی گرداگرد پہاڑوں کی بکھری ہوئی چوٹیوں پر پڑتی ،اور پھر وادی کے نچلے حصوں میں خزان کی وجہ سے سرخ رنگ اوڑھے ہوئے درختوں کو ترمزی رنگ بخشتی تو یہ منظر دیکھ کر میں یہ سوچنے پر مجبورہوتا کہ اس سے زیادہ دل خوش کن منظر میں نے شائد ہی کہیں دیکھاہوگا۔

مستوج سے اوپر بعض جگہوں میں دریا کی گذرگاہ نسبتاََ چوڑی ہوجاتی ہے جہاں پر بید ،سفیدہ ،جونیپر اور برج کے چھوٹے چھوٹے جنگل نظر آتے ہیں مستوج سے نیچے دریا کی گذرگاہ تنگ ہوجاتی ہے اور بعض جگہوں میں دریا نہایت تنگ گھاٹی میں سے شور مچاتاہواگزرجاتاہے ۔‘‘ اسی طرح تریچمیر کے لئے پہاڑوں کے سردار کا لقب استعمال کرتے ہوئے اس کی تعریف میں یوں سماں باندھتے ہیں’’ یہ پہاڑوں کا شہنشاہ ہے جو تقریباََ25,500فٹ اونچا ہے جو ہرجگہ چترال کی سرزمین کے پس منظر کے طورپر نظروں کو فرحت بخشا ہے اس کی موجودگی کی دھاک مقامی باشندوں پر بہت اثر ڈالا ہے ‘‘۔( تاریخ چترال کے بکھرے اوراق،ص 171)۔

چترال کی جغرافیائی اوردفاعی اہمیت کو یوں بیان کیاجاتاہے’’ میں اس چھوٹی سی سرحدی ریاست (چترال) کو دیکھنے کا بہت متمنی تھا کیونکہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے میرے نزدیک انڈین ایمپائر کی سرحدی دفاع کے حوالے سے اس کی بہت زیادہ اہمیت تھی اور مجھے یقین تھا کہ بند پہاڑوں کے درمیان اس چھید(شگاف) کو بندکرنا کتنا ضروری تھا جس میں اس وقت روس کہیں سے بھی اندرگھسنے کے لئے گذرگاہ کی تلاش میں تھی ‘‘( صفحہ 170)لارڈکرزن نے اپنے مضمون میں چترال کی جغرافیائی وتاریخی اہمیت ،یہاں کے باشندے ،طبقے اور مہترامان الملک کی شخصیت کو بیان کیاہے ساتھ ہی اس علاقے کے لوگوں کی وحشی پن اور حکمران کی متکبرانہ انداز کو یوں بیان کیاہے ’’ اصولوں سے عاری، زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے شوقین ،چال باز لیکن ذی فہم، متکبرانہ مزاج والا او رچالاک، جو ایسی ریاست اور ایسے وقت کے لئے واحد شخصیت تھے۔ اپنی آخیری عمر میں جب وہ ستر سال پار کرگئے تو کمزوربھی ہوئے اور غیر موثر بھی۔لیکن چالیس سالوں کے دوران وہ ہندوکش کے علاقے میں ایک نمایاں راہنما رہے ۔اپنی زبردست ذاتی اور جسمانی طاقت کے بل بوتے پر ایک مشہور پولوکھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ اور بڑھاپے کے باؤجود کئی بیویوں کے شوہر تھے اور تقریباََستر(70) بچوں کے باپ تھے‘‘( صفحہ 176)۔

’’کسی بھی معاملے میں اس نے اپنی عیاری کا شائد اس سے بہتر مظاہر نہیں کیا جتنی ہوشیاری سے اس نے کشمیر کو اپنی التجاؤں کے ذریعے اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوا اس طرح برطانیہ عظمیٰ کے ساتھ پہلی دفعہ رابطہ کرکے اپنی ذاتی اور خاندانی جاہ طلبی کی شدید خواہش کے مقصد کوجلا حاصل کرنے کے قابل ہوسکا‘‘( ص176)۔

’’کسی کے لئے بھی یہ جاننا مشکل تھا کہ اس کی روٹی کے کس طرح کا حصہ مکھن لگایاہواہے اورجب کیپٹن بڈلف (جو انہی دنوں گلگت میں برٹش پولیٹیکل آفیسر تھا ) 1880ء میں پونیال کے شیر قلعہ میں پہلوان بہادر کے گھیرے میں آیا تو یہ (امان الملک ) آگے بڑھ کر اس کی مدد کو پہنچا اور اپنے داماد کو شکست دے دی‘‘۔( ص177)۔

کتاب میں امان الملک کا انگریزوں کے ساتھ کیاگیا معاہد ہ بھی انگریزی اور اردو ترجمہ کے ساتھ شامل ہے۔جو ان الفاظ میں ہے ’’میں انگریزوں کا نمک حلال ہوں اور دل وجان سے ان کی خدمت سرانجام دوں گا۔ اور اس طرح سے ان کاکوئی دشمن آنے کی کوشش کرے تو ان راستوں اور دروں کو اس وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ کنٹرول رکھوں گا یہاں تک کہ ان کی طرف سے امداد نہ آجائے ‘‘( ص 178) ۔ اسی باب میں مہتر امان الملک کی وفات اور اس کے بعدتخت شاہی پر قبضے کے لئے مہتر کے بیٹوں اور بھائیوں کے درمیان جاری رسہ کشی اور اس کے نتیجے میں پیداہونے والی خون ریزی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اس مضمون میں لارڈ کرزن صرف سیاسی معاملات ہی کو زیر بحث نہیں لاتے بلکہ علاقے کے سماجی او ر لسانی وادبی معاملات کو بھی بیان کرتے ہیں مثلاََ آوی یا سنوغر کے مقام پر تیلی سیری ( لکڑی کی شاخوں سے بنے ہوئے پل) کا منظر یوں کھینچتے ہیں۔’’ مستوج سے دودن کے بعد کیپٹن ینگ ہسبنڈ کے ہمراہ گھوڑوں پر ہم چترال روانہ ہوئے پہلے دریا کے دائین طرف چلے ایک میل نیچے رسی کے پل (Rope Bridge) کے ذریعے ہم نے دریا پارکیااورآگے بونی سے ایک میل اوپر جہاں دریاکی گھاٹی تنگ ہے رسی اور درخت کے ٹہنیوں سے بنے پل سے دریا پارکیا ایسے پل سے گزرنے کا یہ میراپہلا تجربہ تھایہ رسی کا پل ہرگزنہیں تھا بلکہ اس میں مکمل طورپر برج اور بید کی نازک شاخوں کو توڑ مروڑ کر مضبوط کیبل کی شکل دی گئی تھی ۔ اس میں سے تین کیبل کسی قدر ڈھیلے انداز میں ایک دوسرے سے جوڑے گئے تھے جو پاؤں رکھنے کے کام آتے ہیں۔جو سطحی طورپر دریا کی گھاٹی کے اوپر لٹک رہا ہوتاہے اس پل کی چوڑائی جو اس طرح مختلف رسی کے لڑوں سے بنا ہے چھ سے آٹھ تک ہوتی ہے اور لچکدار ٹہنیوں کی گانٹھ سے جوان کو باندھاگیا تھا وہ کبھی کبھی ٹوٹ جاتے ہیں ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک کیبل اپنے ساتھ دوسرے کیبل کی بہ نسبت زیادہ خم کھائے ۔اس صورت میں مسافر کو اور زیادہ احتیاط کرناپڑتا ہے ان پر چلنے کی بھی خاص ترکیب ہے پاؤں کیسے رکھیں ؟ کہاں رکھیں اور کس طرح رکھیں؟ پل والی رسی سے تقریباََ دویا تین فٹ اوپر دواور کیبل اس کی متوازی ڈالے گئے ہیں۔تاکہ ان کو پکڑکے چلاجاسکے اگرچہ تمام سٹریکچر مضبوطی سے بنائی گئی ہے پھر بھی نازک لگتی ہے خاص طورپر جھولنے کی یہ خراب ’عادت ‘ نہایت قابل نفرت ہے بالخصوص ہوا میں جب یہ جھولنے لگتاہے تو انسان کا دل اندر سے اچھل کے باہر آنے لگتاہے ۔

عجیب بات یہ ہے  کہ مقامی لوگ ان پلوں کو پانچ کی تعداد میں ایک ساتھ بھی عبور کرتے ہیں کبھی کبھی دوسروں کواپنے اوپر اٹھا کے پار کرتے ہیں حالانکہ اگر پل ٹوٹ جائے جس کے کافی امکانات ہوسکتے ہیں تو یہ سب لوگ ایک ساتھ دریامیں عرق ہوسکتے ہیں ‘‘۔آگے لکھتے ہیں کہ مستوج سے کوئی 8میل نیچے مجھے یاد آرہاہے کہ ایک ہموار میدان میں سے ہم گزر رہے تھے اتنے میں اچانک ایک جگہ ہم پہنچے تو نیچے دیکھا کہ ایک عظیم الشان کھائی ہمارے سامنے (منہ کھولے ) کھڑی ہے یہ ایک نالہ ہے جس کے کنارے عمودی طورپر کھڑے تھے یہ ( اس ہموار میدان ) کے درمیان ایک گہری کھاؤ کی طرح کٹانظر آرہا تھا ۔ جو 250فٹ گہراتھا اورنیچے دریا کے کنارے تک چلاگیاتھا اس کے تہہ میں تھوڑا ساپانی بھی بہہ رہاتھا اس کے کناروں کے ساتھ پیچ درپیچ پگنڈنڈی ایک طرف سے نیچے جارہی تھی اور دوسری طرف سے اوپر آرہی تھی مجھے محسوس ہوا کہ یہ عجیب وغریب قدرتی مظہر تھا چھ ماہ بعد یہ چترالی اور انگریزوں کے درمیان اہم معرکے کا منظر پیش کرنے والا تھا یہ نصرگول کا نالہ تھا تیس اپریل اٹھارہ سوپچانوے کو چترالیوں کے ساتھ یہاں جنگ کاحوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کرنیل کیلی نے ہنزہ اورپونیال لیویز کی مدد سے یہاں پر قبضہ کیاتھا‘‘(اسرارالدین ، تاریخ چترال کے بکھرے اوراق ، ص 185-86) ۔یہاں سے آگے کوراغ اورریشن میں جنگ کا خاکہ بھی پیش کیاگیا ہے اورچترال آمداور شاہی استقبال پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے قلعہ چترال ،مہتر اور مشیروں کے ساتھ مذاکرات ،امان الملک کی وفات کے بعدنظام الملک کا مہتر بننے اور یہاں کی نظام حکومت کے طورطریق بیان کئے گئے ہیں ۔

دسویں باب میں برطانوی حکام او رچترال کے حکمرانوں کے درمیان خط وکتابت فارسی اور ان کا تخصیص کے ساتھ اردوترجمہ ومفہوم بیان کیا ہے ۔ اس باب میں نو کے قریب خطوط شامل ہیں بارہواں باب ’’قائد اعظم کے نام ہزہائی نس محمد مظفر الملک کے خطوط، قائداعظم کے نام شہزادہ اور بیگم مطاع الملک کے خطوط ‘‘کے عنوان سے ہیں۔ باب تیرہ کا عنوان’’چترال میں ذمہ دار حکومت کے قیام کی تیاریاں ‘‘ ہیں جس میں 1947ء کے بعد کی صورتحال کا مختصراََ جائزہ لیاگیاہے۔ چودہویں  اورآخری باب ’حرف آخر‘‘کے عنوان سے ہیں جس میں کسی حد تک کتاب میں موجود عنوانات پر مختصراََ روشنی ڈالی گئی ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں