The news is by your side.

سوشل میڈ یا کے دانشوروں کی دانشمندی پر سوال

ہر تیسرے شخص کی طرح مجھے بھی نا چاہتے ہوئے فیس بک ،ٹوئیر کو آنکھ کھلتے ہی دیکھنے کی عادت سی ہو گئی ہے مگررات کا آخری پہر ہو یا دن کا آغاز جب موبائل کی سکرین پرنظرپڑتی ہےتوکچھ ایسے دانشوروں سے واسطہ پڑتا ہےکہ اب انکےبارےمیں کیا کہوں۔جیسا کہ پاکستان میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ ہر لمحے کرائم کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔والدین اپنے بچوں کو گھروں سے مت نکلنے دیں کوئی اغوا کر لےگا۔ ایسے میں ناجانے کتنے ہی ایسے بیانات ہیں جو بغیر تصدیق کے سوشل میڈیا پر 24گھنٹے گردش کرتےہیں اورہم ہیں کہ ایسی غیرسنجیدہ گفتگو کو آگے سےآگےمنتقل کررہے ہیں۔بعض توایسے دانشمند بھی ملتے ہیں جولقمان حکیم کوبھی پیچھے چھوڑنے کے دعوے دار ہیں۔

سوشل میڈیا بھی اب ایک ایسی دکان ہےکہ جہاں آپ کو سب ملےگا اوروہ بھی مفت،من گھڑت کہانیاں ہوں یا کسی کی بغیرثبوت کےپگڑی اچھالنا سب کچھ ملےگا ایسے ایسے دانشمند یہاں مغز ماری کرتے دکھائی دیں گے کہ اگر ملکی حالات انکے ہاتھ میں ہوں تو نا جانے یہ خودساختہ دانشمند اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیں۔

دراصل ہماری جنگ ایسی ہی بنجر دانش کدہ میں بسنے والوں سے ہے جو معاشرے میں مثبت تبدیلی کو نا تو خوش آمدید کہتے ہیں اورنا ہی اس میں بہتری لانے کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کی ہمت کرتے ہیں۔ دراصل یہ سوچ معاشرے میں بگاڑ کے سوا کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی اوراپنی دلفریب تحریروں سے ایسے تخیلات مرتب کرتے ہیں جوخوش نما توہوتے ہیں مگر انکی حقیقت سراب سی ہوتی ہے۔

ملک میں سیاسی صورتحال ہو یا امن وامان کے حوالے سے گرما گرم صورت جوعکاسی ہمیں سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتی ہے اسکی مثال شاہد ہی کسی اورجگہ میں نظرآئے۔سول ملٹری تعلقات پرتوایسےایسے دانشمند اپنےتبصرے کررہے ہوتےہیں کہ اللہ کی پنا ہ اورکبھی تو ایسا گمان ہوتا ہے کہ جیسے ابھی ابھی کاکول سے تربیت مکمل کرکے صاحب آئے ہیں اوراب ملٹری  تعلقات پر پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے لیے ہاورڈ یونیوسٹی داخلہ لینے جا رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں ایک صاحب نے مجھے فیس بک پر کچھ ایسی ہی کہانی وزیراعظم نوازشریف اورجنرل راحیل شریف ملاقات کے حوالےسے بجھوائی اوردعویٰ کیا کہ ناصرف انکی معلومات حرف بہ حرف سچ ہیں بلکہ آنے والے دنوں میں کچھ ایسے ہونے جا رہا ہے کہ تمام پاکستانی دیکھتے رہ جائیں گے۔

ان دانشمند صاحب نے تو اندر نہ ہوتے ہوئے بھی ایسے انداز سےمنظرکشی کی جیسے وہ ملاقات میں کسی میز کے نیچے بیٹھے تمام پوائنٹس لے رہے ہیں
ناجانے کب ہم سنجیدہ بلکہ بڑے ہوں گے؟ناجانے کب ہم ذہنی پختگی کامظاہرہ کریں گے  اور حساس نوعیت کے معاملات کو سنجیدگی سے لیں گے۔یہاں تحریر میں اس موضوع پر بات کرنے کی اس لیے بھی ٹھانی کیونکہ جس طرح سوشل میڈیا پر آجکل بچوں کے حوالے سے پروپگنڈہ کیا جا رہا اور والدین کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے اب اس روش کو ختم ہو جانا چاہیے۔

حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اوروالدین کےدلوں میں خوف ڈال کرناجانےکس کےایجنڈے کی تعمیل کی جا رہی ہے جبکہ اسی پروپیگنڈے نےلوگوں کوگلی محلے میں عدالتیں لگانے پرمجبور کر دیا ہے اور اسی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت ختم ہوتا جا رہا ہے‘جس کی واضح مثال کسی بھی مشکوک نظر آنے والے شخص کی چند افراد کے ہاتھوں دھلائی ہے جو پنجاب سے بڑھتی بڑھتی سندھ پہنچ گئی ہے  اور خاکم بدہن اگر اس رجحان پر قابو نہ پایا گیا تو سیالکوٹ کے دو بھائیوں کےسفاکانہ قتل جیسی بربریت دوبارہ دیکھنے میں آ سکتی ہے۔

سوشل میڈیا کی اچھائی اپنی جگہ مگر جس طرح بعض عناصر بغیر تصدیق کے دھوکہ دہی سے اسکو استعمال کر رہے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ اس کو روکا جائے۔ ایک صحافی خبرکو تصدیق کے بغیر فائل نہیں کرسکتا اوراس میں بھی دونوں جانب کا موقف دینا انتہائی ضروری ہے۔مگریہاں یہ عالم ہےکہ بغیرکسی منطق اور دلیل کے خواہشات کوخوبصورت میک اپ کرکے خبر بنا کراس انداز سے گلوبل ورلڈ میں بھیجا جاتا ہے کہ پھر یہ ایسے پروپگنڈے سے سامنے آتی ہے کہ جس کو قابو کرنا پھر کسی کے بس میں نہیں رہتا۔

ناجانے کب ہم اس ہیجانی کیفیت سے چھٹکارا پائیں گے ناجانے کب ایسے دانش مندوں سے جان چھڑوائیں گےجو اپنی دکان داری کے لیے ایسے ٹولز کو استعمال کر کےعوام میں عدم برداشت کو مزید فروغ دے رہےہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ یہ دانش کدے بنجر ہیں دانشمندی سےاوراس نرسری کو اب نہ روکا گیا تونا جانےکتنی ایسی مزید نرسریاں کھل جائیں گئی جن کو پھرکنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں