زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ جب کراچی کی سیاست میں صرف اور صرف ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا۔ ایم کیو ایم سے سیاسی یا جذباتی وابستگی کیلئے مہاجر ہونا ہی کافی تھا کیونکہ نوکریوں میں کوٹے سے لیکر ٹرانسپورٹ کے مسائل تک، شہر کے متوسط علاقوں سے لیکر انتہائی کم آمدنی والے تاریک گلی کوچوں تک ۔ ہرطبقے اورمسئلہ کا حل گویا ایم کیو ایم ہی فراہم کرتی تھی لہذٰا مہاجر اور ایم کیو ایم لازم اور ملزوم تصور کئے جانے لگے یہاں تک کہ ریاستی آپریشن اور حقیقی کا ظہور بھی مہاجروں کے دل سے الطاف حسین کی محبت ختم نہ کرسکا۔ مشرف دور میں بلدیاتی اداروں کا قیام عمل میں آیا تو کراچی کی نظامت ایک بار پھرایم کیو ایم کے ہاتھ آئی جس نے ایک کرشماتی میئر دیکر کراچی کی قسمت ہی بدلنا شروع کردی۔ یہ بلاشبہ متحدہ قومی موومنٹ کا عروج کا دور تھا۔
وقت آگے سرکا اور ۲۰۱۵ آگیا جس کا آغاز ہی متحدہ کیلئے اچھی خبریں لیکر نہ آیا۔ ۹۰ پر چھاپے، منی لانڈرنگ اور عمران فاروق قتل کیس نے اس جماعت کی سیاست اور تنظیمی ڈھانچے پر ضربیں لگانی شروع کردیں۔ رہی سہی کسر الطاف حسین کے خطاب پر لگنے والی پابندی نے پوری کردی۔ اب متحدہ کے ناقدین کو خوشیاں منانے کے مواقع میسر آنے لگے کیونکہ ہڑتالوں کی کالز بھی ناکام ہونے لگیں اور اکثر ٹارگٹ کلرز کا ناتا بھی آخر میں جاکر ۹۰ سے جڑنے لگا جو متحدہ کو سیاسی تنہائی کی طرف دھکیلنا شروع ہوگیا۔
ایسی گومگو صورتحال میں اچانک ہی کراچی کے ہر دلعزیز اور متحدہ کے گزرے وقتوں کے چہیتے سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کی جلالی انٹری ہوئی۔ اسکے بعد تو یوں لگا جیسے دبی دبی سرگوشیوں اور ذہنوں میں پیدا ہوتے ابہام کو زبان مل گئی۔ الفاظ کے چناؤ میں انتہائی جمع تفریق سے کام لیتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے متحدہ کے خلاف بنائی جانیوالی چارج شیٹ کی اپنے طور پر توثیق کردی جسکے بعد ایم کیو ایم کی صفوں سے لوگ نکل نکل کر کمالی قافلے میں شامل ہونے لگے۔
اپنے اوپر لگائے گئے ہر الزام کا جواب متحدہ کی طرف سے وہی آیا جو عقلی طور پر درست تھا کیونکہ اتنے سال ’ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تنظیم‘ کے ساتھ گزارنے کے بعد اچانک ضمیر کا جاگنا جتنا حیران کن ہے اتنا ہی اسپانسرڈ بھی لگا کہ کسی پروڈکشن ہاؤس نے مستقبل پرنظر رکھتے ہوئے ’لون رینجر‘ لانچ کردیا ہے جس کو بھرپور کوریج بھی ملی اور جس کا ماضی بھی عوامی خدمت کے باعث اجلا ہے ۔
کراچی کے شب و روز یوں ہی گزر رہے تھے کہ ۲۲ اگست کی سہ پہر نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اپنے خطاب میں متحدہ قائد نے ریڈلائن کراس کی اور کارکنان نے لا اینڈ آرڈر کو ہوا میں اڑادیا، نتیجہ منطق اور امیدوں کے عین مطابق نکلا۔ تب سے اب تک نہ معافی در معافی کارگر ہوئی ہے نہ اعلان لاتعلقی گرفتاریوں اور چھاپوں کو روک سکا یہاں تک کہ متحدہ کے متعدد دفاتر بشمول نائن زیرو یا تو سیل ہیں یا گرائے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اس کریک ڈاؤن کے دوران مزاحمت نہ کرنے کی درست پالیسی اپنا رکھی ہے ورنہ کیا کراچی نے یہ منظر کبھی دیکھا تھاکہ متحدہ کے آفس گرادیے جائیں اور لوگ ان کا سامان لے بھاگیں راتوں رات الطاف حسین کی تصاویراتر جا ئیں، مکا چوک کا نام تبدیل ہوجا ئے لیکن پھر بھی کہیں سے صدائے احتجاج بلند نہ ہو۔
متحدہ کے گڑھ سمجھے جانیوالے گلی کوچوں سےعوام نے جس طرح ان اقدامات کی ستائش کی اس سے لگتا ہے کہ لوگ مائنس الطاف قبول کرچکے ہیں یا پاکستان کی مخالفت اور تذلیل عوام کو شدید ناگوار گزری ہے۔ ان تمام چیزوں نے ایم کیو ایم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ فاروق ستار کی دونوں پریس کانفرنسوں اور اسکے بعد کے منظر نامے نے آنکھوں کے سامنے دھند کی چادر ٹانگ دی ہے جس کے دوسری طرف دیکھنے کی کوشش سب ہی کررہے ہیں تاہم ابھی تک مفروضوں سے بات آگے نہیں بڑھ پائی ہے کیونکہ کچھ ابہام وقت کیساتھ ہی دور ہوپاتے ہیں ۔ اگر آنیولاےدن ایم کیو ایم لندن کیلئے پابندی کا پروانہ ساتھ لیکر آئے تو ایم کیو ایم پاکستان ، متحدہ قیادت کے سیاسی تدبر کا نتیجہ کہلائے گی- ذی عقل جانتے ہیں کہ کسی قومیت کی نمائندگی کرتی سیاسی جماعت پر مکمل پابندی تباہ کن ہوسکتی ہےاس لئے گنجائش ضرور نکالی جاتی ہے اس میں ٹائمنگ اوردرست سیاسی پتے کھیلنا بہت اہمیت رکھتا ہے، جو ان دونوں چیزوں کا صحیح استعمال کرجائے وہی فتحیاب ہوتا ہے یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے ۔ اب یہ گنجائش سہ طرفہ ہے یا یکطرفہ اسکا پتہ چلنا ابھی مشکل ہے کیونکہ مقتدر حلقے کبھی نہں چاہیں گے کہ کمیونٹی بلڈوز کا ٹیگ کئے کرائے پر پانی پھیر دے اسلئے راستے تو نظر میں ہوں گے۔
ان چیزوں سے ہٹ کر بھی کچھ نقطےہیں انکا جائزہ لیں تو تصویر کچھ اور رخ اختیار کرسکتی ہے۔ پہلی بات تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستانی سیاست کے ڈائنمکس بدل رہےہیں اب یہاں قومیت، لسانیت اور مذہب کی سیاست نہیں بک پارہی۔ اسکی دو وجوہات ہیں ایک تو لوگوں میں شعور آرہا ہے کہ بنیادی مسائل سے پہلوتہی کرتے ہوئے صرف ان نعروں میں الجھ کر انکی جان و مال اور معیار زندگی کی بہتری تقریباً ناممکن ہے، یہ سوچ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں عام ہے اسلئے کہ وہ ہر چیز کو جزئیات سمیت عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اسکی واضح مثال پی ٹی آئی کی زبردست مقبولیت تھی، جب عمران خان نے ان تینوں چیزوں سے بالاتر ہوکر کرپشن اور عوامی فلاح کی بات کی تو نوجوان انکی طرف بڑھےلیکن متعدد یوٹرن تحریک انصاف کواس گرمجوشی سے محروم کرگئی۔ دوسرے نمبر پر میڈیا ہے جسکی ہر جگہ موجودگی اور فوراً ہر چیز کا دو طرفہ تجزیہ لوگوں کے سیاسی شعور کو پختہ کررہا ہے نیز عوامی رائے کسی ایک طرف ہموارکرنے میں بھی اسکا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
وجہ کوئی بھی ہو فی الحال لگتا یوںہی ہے کہ متحدہ کے ووٹر کی ذہنی، فکری اور قلبی تبدیلی کیلئے متبادل قیادت بظاہرسامنے آگئی ہے- ہم نے دیکھا ہے کہ جماعت اسلامی اب شہر قائد میں اپنی پہلے والی پوزیشن سے فارغ ہوچکی ہے۔ کپتان کی توجہ یہاں پر بہت ہی کم ہے اور پیپلز پارٹی کراچی کے مخصوص علاقوں تک محدود ہے۔ ایسے میں بلدیاتی عہدے متحدہ کیلئے لائف لائن ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ میئر کراچی وسیم اختر کے جیل میں ہونے کے باعث اس میں بہت سی مشکلات درپیش ہیں لیکن بقا کی جنگ لڑتی ایم کیو ایم کے پاس یہ شاید آخری موقع ہے کیونکہ کشتیاں جل چکی ہیں اب منجدھار میں پھنسی قیادت کو نیا تو پار لگانی ہی ہے۔