جی ایچ کیو میں ہونیوالی یوم دفاع کی مرکزی تقریب سے جنرل راحیل شریف نے جوخطاب کیا وہ اپنے بیانئے کے کئی پہلوؤں اور باتوں کے باعث بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس خطاب میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سے اشارے بھی دئے گئے ہیں اورآئندہ کی پا لیسی بھی دی گئی ہے ۔ آئیے اس خطاب اور اسکے ممکنہ اثرات کا جائزہ مل کر لیتے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے کھل کر دشمن کے مقاصد اور سازشوں کا ذکر کیا۔ آپ نے سی ۔ پیک کو لاحق خطرات اور اس منصوبے کی تکمیل کیلئے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کیا۔ کشمیر میں جاری بھارتی بدترین ریاستی دہشت گردی اور کشمیریوں کے حق خودارادیت پر آرمی چیف نے واضح موقف اپناتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور بھارتی دردندگی کی مذمت کی- کشمیریوں کی اخلاقی حمایت کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں پاکستان کی سفارتی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔
آپریشن ضربِ عضب کی کامیابیوں کی بات کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے ملک کی حفاظت اور امن کیلئے ہر حد تک جانے کا عندیہ دیا اور ضرب عضب کے فوجی مقاصد کے حصول کی نوید بھی سنائی۔ آرمی چیف نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے کرپشن، جرائم اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کا خاتمہ ضروری قرار دیا ۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور فوج پر کی جانیوالی تنقید کا بھی ذکر کیا گیا۔ ساتھ ہی آرمی چیف نے افغانستان میں امن کا بھی ذکر کیا۔
جنرل راحیل شریف نے جسطرح دشمن کی چالوں اور پاکستان کیلئے اندرونی اور بیرونی خطرات کا ذکر کیا وہ کئی حلقوں کو برا لگا ہوگا۔ کشیریوں کی حمایت، نیشنل ایکشن پلان، اور کرپشن پر فوج کے سپہ سالار کا موقف کافی لوگوں کیلئے ناگوار رہا ہوگا کہ کیوں اپنئے دائرہ کار سے باہر نکلتے ہوئے آرمی چیف ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں مداخلت کرگئے؟ کیوں فوج نے سویلین اداروں کے اقدامات کا انتظار کئے بغیر نیشنل ایکشن پلان کے تناظر میں ضرب عضب کی کامیابیوں کے ناکامی میں ڈھل جانے کے خدشات کا اظہار کیا۔
ہم دیکھیں گےکہ آنے والے دنوں میں اشاروں کنائیوں میں فوج کی کلاس لی جائے گی۔ قوم کو ’سمجھایا‘ جائے گا کہ سفارت کاری پر بیان بازی کرنا فوج کا کام نہیں بلکہ فوج صرف سرحدوں کی حفاظت کیلئے ہوتی ہے، نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہورہا ہے لہذٰا اس کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔ کچھ لوگ مخصوص ٹولے کے ساتھ ایکٹیو ہوجائنگے اور ’اداروں کی حدود اور ان سے تجاوز‘ کا ڈھول پیٹا جائیگا کیونکہ کرپشن کا ذکرفوج کی طرٖف سے بار بار ہونا اورنیشنل سیکورٹی کیلئے ہر حد تک جانے کا عزم کچھ لوگوں کی دکان ہمیشہ کےلئے بند کرسکتا ہے اسلئے جمہوریت کی حفاظت پھر سے لازم ہوجائیگی۔
حالات کا جائزہ لیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ نعروں کے برخلاف ہماری سیاسی جماعتیں ملک کو درپیش چیلنجز کا ادراک کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ حکومت نیشنل ایکشن پلان کی بہت سی شقوں کو سرد خانے میں اسلئے ڈال چکی ہے کہ انکی زد میں سیاسی مفادات آجاتے ہیں۔ پنجاب میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن کئے بغیر ملک میں مکمل امن ہونا مشکل ہے لیکن حکومت اس معاملے کو لٹکائے جارہی ہے ۔ بھارت سے بڑھتی حکومتی مرعوبیت عوام کو تشویش میں مبتلا کررہی ہے کیونکہ ہمارے اندرونی معاملات اور سی پیک پر بھارتی واویلا حد سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن حکمران کسی اور ہی دنیا میں بیٹھےہیں۔
دہشت گردوں سے خالی کرائے گئے علاقوں میں سول اداروں کی کارردگی نہ ہونے کے برابرہے۔ نقل مکانی کرنے والوں کی بحالی کیلئے حکومتی سرپرستی تقریباً صفر ہے۔ کرپشن اور محکمہ جاتی لوٹ مار پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے لیکن چونکہ اسکے تانے بانے کسی نہ کسی طرح سیاسی اشرافیہ تک پہنچ جاتے ہیں اسلئے احتساب فائلوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ ذاتی مفادات کاجو کھیل ہمارے یہاں جمہوریت کے نام پر کھیلا جارہا ہے وہ ملک کو بند گلی کی طرف لے جارہا ہے۔ ناعاقبت اندیشی اور سیاسی مصلحت قومی بھلائی کے ہر کام کے آڑے آجاتی ہے اسلئے دورے اورسڑکیں بنانے میں ہی عافیت ڈھونڈھ لی جاتی ہے۔ اب تو ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ بھی ہاتھ آگیا ہے، جس کے پاس کوئی قابل ذکر کام نہیں ہے وہ عوامی خدمت میں یہ نعرہ پیش کرکے خبروں میں اپنی جگہ بنالیتا ہے۔
ان تمام چیزوں نے ملک کو چلانے کے عمل میں خلا پیدا کردیا ہے۔ جب ملک کے پاس مستقل وزیر خارجہ ہی نہ ہو تو پھر افغانستان کے ساتھ بارڈر منجمنٹ اور کشمیر کے مسئلہ پر آرمی چیف کو ہی مجبوراً بولنا پڑیگا۔ جب بھارت کی ہرزہ سرائی پر وزیراعظم اور پریس کانفرنس ماسٹروزراء لب سی لیں تو جی ایچ کیو میں کھڑے ہوکر سپہ سالار کا عوامی جذبات کو زبان دینا باعث حیرت تو نہیں ہونا چاہئیے۔
کئی ہزار جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجود پاک فوج کی کامیابیوں کو متنازعہ بنایا جائے، خفیہ ایجنسیوں پر کیچڑاچھالا جائے اور وزیراعظم کچھ نہ بولیں تو پھر فوج کے سربراہ کو تو اپنے ادارے کا دفاع کرنا ہی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں پاکستان مخالف نعرے لگ جائیں، سیکورٹی فورسز کو دھمکایا جائے لیکن وزیراعظم روایتی بیان دی دیں تو آرمی چیف کو براہ راست مداخلت کرنی ہی پڑیگی۔
حالات اور واقعات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں تو سیاست دانوں کی غلطیاں اور جان بوجھ کرکی جا نیوالی غفلت اور کوتاہیاں از خودجمہوریت کیلئے خطرہ ہیں ورنہ فوج کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے خطاب کا متن وزیراعظم کی کسی تقریر کا بھی تو ہوسکتا تھا لیکن کیا کریں کہ سیاسی مخالفین مودی سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، کاروبار اور مفاد ملکی وقار کے آڑے آجاتا ہے۔ اگر حکومت وقت توازن قائم کرکے ہر قومی مسئلے پر واضح اور شفاف پالیسی اپنائے اورصحیح وقت پرصحیح فیصلے کرلے تو پھر کسی اور جگہ سے پالیسی اسٹیٹمنٹ آنے کی گنجائش نہ رہے۔