نذرانہ دیتے جاؤ بادشاہو‘ مرادیں حاصل کرتے جاؤ‘ نذرانہ نہ دیا تو دعائیں معلق رہیں گی‘ ڈبے میں نہ ڈالیں ، نذرانہ مجھے دے دیں‘ ٹھک، اس طرف نذرانہ دیتے جائیں‘ جوتے ہمارے پاس اُتاریں‘ یہ چادر ضرور لے کر جائیں‘ یہ سرسوں کا تیل بالوں میں لگوائیں‘ آپ پہ اللہ کی خصوصی رحمت ہو جائے گی۔ جوتوں کے بیس روپے ہو گئے۔۔۔ جی تین جوڑے؟ پھر ساٹھ روپے دے دیجیے۔ تاجدارِ کرم ۔۔۔ واہ بھئی کیا سُر تال ہے۔ ۔۔ صرف تعریف نہیں لنگر نیاز بھی دے جائیں۔ اچھا تو آپ نذرانہ نہیں دے رہے‘ خبردار جو یہاں کوئی تصویر بنائی، چلے جاؤ اُس طرف خبردار جو یہاں کھڑے ہوئے۔
یہ وہ باہمی گفت و شنید ہے جو پچھلے چند دنوں میں پاکستان کے چند بڑئے شہروں میں موجود اولیائے کرامؒ کے مزارات پہ حاضری کے دوران راقم الحروف اورکچھ عناصر کے دوران وقوع پذیر ہوئی۔ عناصر اس لیے کہ مجاور ، متولی، ناظم، خلیفہ اپنا آپ اپنے رویے سے ثابت کرتے ہیں۔ اور مخلوقِ خدا اُن کی روحانیت کی وجہ سے ان کی طرف رجوع کرتی ہے۔ جن اولیاء کے مزارات پہ یہ عناصر اپنی دوکان چمکائے بیٹھے ہیں۔ ان کا کردار تو یہ تھا کہ لوگ جوق در جوق ان کی جانب دوڑے چلے آتے تھے۔ آج حال یہ ہے کہ ان کے مزارات کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا رجحان تقویت پا رہاہے۔
راقم کا پہلا پڑاؤ اپنے وقت کے جلیل القدر ولی، حضرت شاہ شمس تبریز (ؒ ملتان) کا مزار تھا۔ اتنے ؑ ظیم صوفی کے مزار پہ داخل ہوتے ہی سب سے پہلا واسطہ آپ کا جوتوں کے ٹھیکیدار سے پڑتا ہے ، اور اگر آپ اپنی ذمہ داری پہ اپنے جوتے ساتھ رکھنا چاہیں تو آپ کو کھا جانے والی نظروں سے گھوراجاتا ہے کہ ان کے بیس روپے آپ نے مار لیے۔ جیسے ہی مزار کے احاطے میں داخل ہوں ایک صاحب دائیں طرف کھڑے نظر آتے ہیں جن کے ہاتھ میں بہت سے نوٹ ہیں۔ نوٹ یعنی روپے۔ اُس کے ساتھ ہی محکمہ اوقاف کا چندہ باکس نصب ہے۔ کھڑے صاحب حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ آپ نیاز باکس میں نہ ڈالیں بلکہ ان کو ہاتھ میں تھمائیں۔ اور اگر آپ پھر بھی بات نہ مانیں اور چندہ باکس میں ہی نقدی ڈال دیں تو کسی مقامی لہجے میں چند غصیلے الفاظ سننے کو ضرور ملیں گے۔ مزار کے مرکزی دروازے کے بالکل باہر دائیں بائیں دو صاحبان بیٹھے ہیں، ایک تیل کی بوتلیں اور ایک غالباً میٹھی ٹافیاں لیے، دونوں کو نظر انداز کر کے گزریں تو پیچھے سے مرادیں پوری نہ ہونے کی دہائی سنائی دیتی ہے۔
سفر کے اگلے پڑاؤ میں عظیم صوفی و ولی حضرت بہا الدین زکریاؒ (ملتان)پہ راقم پہنچا۔ عظیم الشان مقبرہ ، وسیع صحن مگر تنگ دل مجاورین ، یاد رہے ملتان کے مزارات کے گدی نشینوں میں ملک کے اہم سیاسی راہنماؤں کے نام آتے ہیں۔ شعبہ ٔ اوقاف کے بجائے کوشش تھی کہ نذرانہ ان کو براہ راست پکڑایا جائے۔ ایسا محسوس ہوا کہ مختلف سمتوں میں بھانت بھانت کے لوگ الگ الگ برکات بانٹ رہے ہیں۔ اگلی منزل ایک اور درویش صفت ولی اللہ حضرت شاہ رکن عالم ؒ (ملتان )کی تربت مبارک تھی ۔ یہاں بھی حال پہلے سے مختلف نہ تھا اور ان اولیاء کی تعلیمات کے برعکس زائرین کو اینٹھنے کے حربے آزمائے جا رہے تھے۔راقم نے پرانی روش کے تحت ہدیہ کھڑے صاحب کے ہاتھ میں دینے کے بجائے اوقاف کے نصب باکس میں ڈالا تو اُن صاحب نے نہایت درشت لہجے میں راقم کو منظر کشی سے ایسے روکا جیسے ان کی دم پہ پاؤں رکھ دیا ہو۔
مزار کے احاطے میں ہی قبروں کے جھرمٹ میں ایک اور بابا جی ایک باکس کے ساتھ بیٹھے ہیں جس پہ وہ زور زور سے لاٹھی برسا کر آواز پیدا کر کے متوجہ کرتے ہیں کہ کسی اور باکس نہیں اس باکس میں ہی نذرانہ ڈالیے۔ زبردستی چادریں دینے والے بابا جی بھی ساتھ ہی تشریف فرما ہیں۔
سفر کے اگلے حصے میں مزار بی بی پاکدانؓ(لاہور) پہ بھی مناظر ایسے تھے کہ الامان جو ہستیاں اپنا آپ اللہ کی خوشنودی کے لیے وقف کر گئیں۔ اُن کے مزارات پہ کاروبار چمکے ہوئے۔ یہاں دو الگ الگ ٹھیکیدار جوتے سنبھال رہے ہیں۔ عرض کی بیس روپے زیادہ نہیں؟ جواب ملا حضور لاکھوں روپے ٹھیکے کے دیے ہیں۔ پورے تو کرنے ہیں نا۔ بد نظمی ، خواتین و حضرات کا ایک جگہ مڈھ بھیڑ کرنا، کسی قسم کی صفائی کے انتظامات نہ ہونے کے برابر، بی بی پاکدامنؓ کے مزار پہ واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔
حضرت داتا گنج بخشؒ (لاہور) اور حضرت بری امام سرکارؒ (اسلام آباد) پہ راقم کو حالات کسی قدر بہتر نظر آئے۔ داتاؒ صاحب پہ نہ صرف صفائی کا مناسب انتظام بلکہ اوقاف کی مکمل عملداری بھی نظر آئی، جوتے کے ٹھیکیدار بھی با اخلاق ، ازرائے مذاق پیسوں کی زیادتی کا کہنے پہ پیسے واپس کرنے پہ بھی تیار، جو کہ حیران کن تھا۔ ایسا ہی صفائی اور بہتر انتظامات کا منظر اسلام آباد بری سرکارؒ کے مزار پہ بھی دیکھنے کو ملا۔
سادہ لفظوں میں پیشگی معافی و معذرت کے ساتھ کہا جائے تو یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ اولیاء کرام کے مزارات پہ ان کی تعلیمات کی روشنی میں مخلوق سے حسن اخلاق کے بجائے اکثریت پہ عقائد کی تجارت جاری ہے۔ اور ان مزارات کو روحانیت کے مراکز بنانے کے بجائے کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ تصوف، روحانیت، قرب الہٰی جو تمام اولیاء اللہ کی تعلیمات کا خاصہ ہے اس کو یکسر نظر اندار کر کے ان پاک ہستیوں کے مزارات کو آمدن کا ذریعہ تصور کر لیا گیا ہے۔ جو نہ صرف زائرین کے لیے پریشانی ہے بلکہ ان اولیاء کرام کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے ۔