The news is by your side.

کون ڈاکٹرحسن ظفرعارف؟

بالوں سے محروم سر اور ایک فالج زدہ ہاتھ ۔ ڈاکٹر حسن ظفرعارف کی تصویر ایک طویل مدت کے بعد دیکھ کر ایک شدید صدمے سے دوچار ہوا۔ کہ یہی وہ شخص ہے جس کی انتہائی پرکشش، جاذبِ نظر شخصیت اور انقلابی خیالات نے کراچی یونیورسٹی کے طلبا اور طالبات کو اپنا دیوانہ بنایا ہوا تھا اور میں اس وقت کی کچھ نوجوان خواتین سے بھی واقف ہوں جو باقاعدہ اس سحر انگیز شخصیت کے عشق میں گرفتار تھیں۔

نگاہوں کے سامنے گویا بیتے دنوں کا سلا ئیڈ شو سا چلنے لگا۔

میری اور ڈاکٹر حسن ظفرعارف کی ملاقات فہیم زمان ( جو آجکل ایک نجی  ٹی وی پر تجزیہ نگار کی صورت میں کبھی کبھی نظر آتے ہیں ) کی وساطت سے1985 میں ہوئی جو بے نظیر کے پہلی بار اقتدار میں آنے کے عرصے تک محیط رہی۔ بے نظیر کے اقتدار میں آنے کے بعد میں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنے کیریر پر توجہ مبذول کی اور پھر حسن ظفر عارف اور بہت سے افراد جن کے ساتھ میں نے اس دور کی سیاسی جدوجہد میں شانہ بہ شانہ حصہ لیا تھا، میرے ماضی کا حصہ بن گئے اور بیش تر سے دوبارہ ملاقات تک نہیں ہوئی۔

نئی نسل کا تو ذکر ہی کیا، میری نسل کے لوگ بھی ان افراد سے واقف نہیں جو بے نظیر کی 1986 میں پاکستان واپسی کے بعد پسِ پردہ اس تحریک کی کامیابی اور اس سے کہیں پہلے استحصالی نظام کے خلاف نوجوان ذہنوں کی آبیاری کے لئے اپنے دن رات ایک کئے ہوئے کام کر رہے تھے، کیونکہ عوام کے سامنے تو صرف وہی چہرے آتے ہیں جو جلسے جلوس اور پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے اور پارٹی رہنما کے بغل بچے بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فیس بک کیونکہ طویل تحاریر کا متحمل نہیں ہو پاتا اس لئے کوشش کروں گا کہ اختصار سے اپنی بات پڑھنے والوں تک پہنچا سکوں۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات 1985 میں ہوئی، اس وقت تک وہ اپنے خیالات اور نظریات کی پاداش میں کراچی یونیورسٹی سے جس میں وہ فلسفے کے پروفیسر ہوا کرتے تھے، نکالے جاچکے تھے۔ اسی زمانے میں کراچی یونیورسٹی کے ایک اور پروفیسر مراد سے بھی ملاقاتیں رہیں جو اس دور کے روشن خیال طالب علموں کی نظریاتی تربیت کے لئے مشہورتھے۔

1986 میں بے نظیر کے فقید المثال استقبال کے بعد جمہوریت کی فاختائیں ( Doves of Democracy ) کے نام سے ایک تحریک کا آ غاز ہوا جس کے دوران ہی بے نظیر بھٹو کر حراست میں لے لیا گیا، ان ہی دنوں ڈاکٹر حسن ظفر عارف جو اس تحریک کے دماغ تھے ان کو بھی کچھ عرصے کے لیے سینٹرل جیل کراچی میں قید رکھا گیا۔ بے نظیر کی گرفتاری کے بعد کراچی اورپورے ملک میں احتجاجی تحاریک کا سلسہ شروع ہوگیا جس کا آغاز فیڈرل بی ایریا میں سہراب گوٹھ چورنگی اور واٹر پمپ چورنگی کے عین درمیان کچھ سرکاری گاڑیوں کو آگ لگانے سے ہوا، ان مظاہرین میں یہ فقیر، فہیم زمان، نجیب احمد شہید، غلام قادر( ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی، شہلا رضا کے شوہر، ان دنوں ان دونوں کی شادی نہیں ہوئی تھی) کے علاوہ چند اور نوجوان بھی شامل تھے۔

ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے سینٹرل جیل کراچی میں مقید رہنے کے دوران میں ان کے پیغام رساں کی خدمات انجام دیتا رہا اور رہائی کے بعد ان کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے انفارمیشن اینڈ پبلسٹی سیل میں مصروف عمل رہا۔ اس دور میں پیپلز پارٹی نے عوامی ذہن کو استحصالی نظام اور فوجی آمریت کے شکنجے سے آزاد کرنے کے لئے جو بھی اطلاعاتی یا ذہنی بیداری کی مہم چلائی، اس کے پسِ پشت ڈاکٹر صاحب کا ذہنِ رسا، اس فقیر کا قلم اور گرافک ڈیزائینگ کا ہنر ہوا کرتا تھا اس سلسلے میں کراچی کے دوسسرے صاحبانِ ہنر کی خدمات بھی حاصل کی جاتی تھیں جن میں کیلی گرافرز اور انعام راجہ جیسے مایہ ناز مصور بھی شامل تھے۔ ان پوسٹرز اور دیگر اشتہاری مواد کی تزئین و طباعت اور ایک حد تک تحریری مواد کی ایڈیٹنگ کا کام یہ فقیر انجام دیتا تھا لیکن ان سب کے پسِ پردہ قوتِ متحرکہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کا زرخیز دماغ ہی ہوا کرتا تھا۔

پیپلز پارٹی اپنے محسنوں کو فراموش کرنے کی قدیم روایت رکھتی ہے، یہی عمل ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے ساتھ بھی روا رکھا گیا، مجھے نہیں معلوم کہ پیپلز پارٹی کی سرگرمیوں سے لاتعلقی اختیار کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب اب تک کہاں رہے اور کیا کرتے رہے۔
مجھے شدید حیرانی ہوئی جب میں نے بابر غوری کی زبانی اب سے کوئی 6 یا 7 ماہ قبل یہ سنا کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گو زیادہ وقت تو نہیں گزارا لیکن ان کے سیاسی اور سماجی نظریات سے بخوبی آگاہ تھا، وہ استحصالی نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے لوگوں کو علاقائی اور لسانی خانوں میں تقسیم کرکے دیکھنے کے قائل ہرگز ہرگزنہیں تھے۔

اور یہی وہ ذہن کو چونکا دینے والا مقام ہے جہاں پہنچ کر یہ سوال دل و دماغ کو کچوکے لگاتا ہے کہ ایک روشن دماغ، وسعتِ قلب اور دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے شخص کو کراچی کے معاملات میں ایسا کیا نظر آیا کہ وہ اپنے تمام عمر کے فکری اثاثے کو قربان کرنے پر تیار ہوکر اپنے ہی ایک طالبِ علم کی قیادت میں سڑکوں پر نکل کھڑا ہوا، سوال تو بنتا ہے نا؟

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں