The news is by your side.

سونے کی مرغی اوراس کے انڈے

سی پیک کیا ہے؟

سی پیک 51 بلین امریکی ڈالرز پرمبنی اس منصوبے کا نام ہے جس میں پاکستان کے انفرا سٹرکچر کی تیزی کے ساتھ بہتری اور پھیلاو کے واضح امکانات موجود ہیں۔ جس کا ایک اور فائدہ پاکستان اورعوامی جمہوریہ چین کے ساتھ مضبوط تجارتی روابط بھی ہیں۔ اس منصوبے میں نقل و حمل کے جدید ذرائع جس میں شاہراہیں، ریلوے ٹریکس کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس کی ترسیل کے لئے پائپ لائنز کی تعمیر شامل ہے۔ نقل و حمل کے ان ذرائع کی تعمیر بالآخر بلوچستان کے شہر گوادر کو چین کے شمال مغربی حصے شنکیانگ سے جوڑ دے گی۔

سی پیک کی اہمیت

اس منصوبے کی تکمیل کے نتیجے میں چین کی افریقی، مغربی اور جنوبی ایشیا کی مارکیٹوں تک رسائی میں حائل فاصلے میں تقریباََ چھ ہزار میل 6000 کی کمی ہو جائے گی، فی الوقت ایک اندازے کے مطابق چین کو بیرونی مارکیٹس تک پہنچنے میں 59 دن درکار ہوتے ہیں جبکہ اس منصوبے کی تکمیل کے نتیجے میں صرف 18 دن درکار ہوں گے۔میں نہیں سمجھتا کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کو حاصل ہونے والے معاشی فوائد کو سمجھنے کے لئے کسی بھی شخص کا معاشی امور میں ماہر ہونا ضروری ہے۔

51بلین امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں نہ صرف لاکھوں کی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ بڑی تعداد میں نئےکاروباری منصوبے بھی وجود میں آئیں گے۔ جس کا نتیجہ پاکستان کی فی کس امدنی میں خاطر خواہ اضافے کا موجب ہوگا۔سی پیک سے متعلق ان حقایق سے آگہی کے بعد ہمیں پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کی صورتِ حال کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی فضا پیدا کرنے میں اس منصوبے کا دور دور تک کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ اور اس فضا کے اسباب کی تفصیل فی الوقت میرا موضوع بھی نہیں۔

جس طرح دہشت گردی پاکستان کا کوئی نیا مسئلہ نہیں اسی طرح بلوچستان میں علیحدگی پسند فکر بھی کوئی آج یا دو چار سال کے دوران پیدا ہونے والا مسئلہ نہیں ہے، دہشت گردی اور خصوصاًبلوچستان میں تسلسل کے ساتھ دہشت گردی اور اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں جاری علیحدگی پسندی کی روش کو موجودہ صورتحال میں ایک الگ زاویے اور معروضی انداز سے دیکھنا ہوگا۔ کیونکہ میری دانست میں اب ان تمام کاروائیوں کے مقاصد میں کچھ اندرونی اور بیرونی قوتوں کے مفاد کے تحت تبدیلی آچکی ہے۔

سی پیک کے منصوبے سے بھارت کو بظاہر تو کوئی معاشی خطرہ نظر نہیں آتا، کیونکہ ایک نئی معاشی راہداری جو اس کے بہت نزدیک سے گزر رہی ہو، بھارت کی معیشت کے لئے بھی مفید تو سکتی ہے نقصان دہ نہیں۔ بھارت کی اصل تشویش اس معاشی راہداری کا آزاد کشمیر سے گزرنا ہے۔ کیونکہ کشمیر کے مسئلے پر پاک بھارت تنازع کی صورت میں چین کا غیر جانبدار رہنا ممکن نہیں رہ سکے گا۔ اسے اپنے 51 بلین امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری کو محفوظ رکھنے کے لئے بالآخر پاکستان کی فوجی قوت کو ہر صورت میں برقرار اور وقت پڑنے پر اس قوت میں اضافے کے لئے ہر ممکن اقدام کرنا ناگزیر ہو جائے گا۔ بھارت کی تشویش کا ایک سبب پاکستان کی معیشت کی ممکنہ بہتری بھی ہے، بھارت کے انتہا پسندوں کا خیال ہے کہ معاشی طور پر مضبوط پاکستان ان کے حق میں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

سی پیک کے ذریعے چین نہ صرف افریقی ، مغربی/ جنوبی ایشیائی مارکیٹوں تک رسائی آسانی کے ساتھ حاصل کر سکے گا بلکہ وسطی ایشیاکے رستے سے اس کا یورپی مارکیٹس تک پہنچنا بھی آج کی نسبت آسان ہو جائے گا۔ تو کیا کوئی سادہ لوح اس بات پر یقین کرنے پر تیار ہوگا کہ اپنے معاشی مفادات کی حفاظت کے لئے بھارت کے علاہ دیگر بین الاقوامی طاقتیں اس منصوبے کی ناکامی کے لئے سرتوڑ کوششیں نہیں کر رہی ہوں گی؟۔

بد قسمتی سے وطنِ عزیز میں دہشت گروہ ان طاقتوں کو اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے دستیاب بھی ہیں، لہٰذا میرا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اب ان دہشت گرد گروہوں کے مقاصد کلیتاََ وہ نہیں رہے جو ان کے آغاز میں تھے، اگرچہ اب بھی یہ گروہ اپنے غیر ملکی اور ملکی آقاؤں ہی کے اشاروں پر اپنی مذموم کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اگر مجھ پر غداری کا الزام نہ لگایا جائے تو ڈرتے ڈرتے آخر میں یہ بھی کہدوں کہ دراصل یہ وسائل پر قبضے کی جنگ ہے جس میں بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں حکمرانی کے عمل میں شامل قوتیں بھی برابر کی حصہ دار ہیں۔51بلین امریکی ڈالرز کی مرغی اور اس کے سونے کے انڈے آخر کس کو اچھے نہیں لگتے؟۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں