The news is by your side.

ہائے! کتنا بے شرم ہے

نہ زمین پھٹی نہ  آسمان  گرا ۔۔۔لیکن ایسا  ہوتا بھی کیوں ۔۔۔۔۔مانا کہ  اس نے جو کہا  ٹھیک  کہا لیکن  سب کے سامنے ۔۔۔چہ چہ چہ۔۔۔ کچھ شرم ہوتی ہے  کچھ حیا ہوتی ہے ۔۔۔ تو کیا اس میں شرم اور حیا نہیں ہے ۔۔۔ میرا نہیں  خیال ۔۔۔ وہ تو  ملک کی نوجوان لاٹ  میں سب سے زیادہ  شرمیلا  ہے  اتنا شرمیلا کہ فخر پاکستان نےان کو خاص  نام  دےرکھا ہے وہی نام جس پرمرد حر  کی حریت اور مردانگی دونوں جاگی اور انہوں نے  ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ کوئی اس کے اکلوتے لخت جگر کو اس نام سے پکارے جسے  سن کر سب کے چہروں پر ویسی ہی  مسکراہٹ آ جاتی ہے جیسے کسی  خواجہ سرا کو دیکھ کر  بچوں اور بچیوں  کے  چہرے  کھل اٹھتے  ہیں ۔۔ تو جناب  بات ہورہی تھی اس شرمیلے  نوجوان کی کہ جب  اوباڑو میں ایک صحافی نے اس سے شادی کا پوچھ ہی لیا  تو پھر اس کے  چہرے کے رنگ  دیکھنے والے  تھے والدہ کے  نقش تو  آوازسمیت  اس پر  غالب تھے ہی لیکن شرمیلے   سوال نے تو  جیسے  اسے کسی  شرم کے پاتال   میں  اتار دیا ہو  کبھی بھنویں تو کبھی کان کی لو کو چھوتے  اس نے  گلناری  چہرے اور دبی دبی مسکراہٹ سے اپنی  گلابی اردو میں اتنا ہی کہا کہ  شادی کی  آفرز تو بہت ہیں لیکن شادی  اس  عورت ( واضح رہے کہ انہوں نے  عورت کا ہی لفظ استعمال کیا تھا) سے کروں  گا جو میری  بہنوں  کو منائے گی ( جو  مشکل کام  ہے)  ساتھ میں  موصوف نے مستقبل کی  دلہنیا کو یہ  کہہ کر بھی ڈرا دیا کہ میری  شریک حیات  بننا آسان نہیں ہے ۔۔۔۔ اس سب  کا  اگر عوامی انداز میں خلاصہ پیش کیا  جائے  تو وہ  یہ بنتا ہے کہ یہ تو شادی نہ کرنے  والی  باتیں ہوئیں۔۔۔ اس موقع پر   دلی یا دکن کی  کوئی  بی اماں ہوتی  تو  سفید  غرارے میں ملبوس  آنکھوں میں کاجل  ،بالوں میں تیل  لگائے اور منہ میں پان دبائے یہ کہتی  پھرتی ۔۔۔ ہائے  کتنا بے شرم  ہے یہ لونڈا ۔۔ دن دہاڑے  ٹی وی والوں کی سامنے  اپنی شادی کی بات  کر رہا ہے ۔۔ اجی  یہ  تو  سٹیا  گیا ہے  یہ    دختر مشرق کا  کیسا  فرزند  ہے جسے مشرقی  آداب  اور تہذیب کا پتہ ہی نہیں  اور  چلا ہے  شادی کرنے ۔۔۔ارے ہٹ ۔۔ بے شرم  کہیں کا !۔

اللہ والو۔۔۔۔۔۔ نہ تویہ ولی محمد ولی، خواجہ میر درد  اور   میر  تقی میر  کا دور  ہے نہ ہی  نظیر  اکبر  آباد ی ،غالب ،سرسید اور  ڈپٹی نذیر  احمد کا۔۔۔ یہ   تو  دور عمرانیہ  ہے جس میں  جو  دل  میں آتا ہے کہنا پڑتا ہے ۔۔دیر کی  تو ہاتھ  کے ساتھ منہ بھی ملنا پڑتا ہے  ایسے میں  سیاسی چچا  کے بھتیجے بلاول  نے اپنی شادی کی  جو برملا  بات کہہ ہی دی   تو اس میں اچھنبے کی  بھلا کیا  بات ہے  چچا نے  بھی تو دھرنا  پارٹ ون میں شادی کی  خواہش  کی تھی  اور  پھر اسے خوابوں کی شہزادی  مل  گئی یہ الگ بات ہے  شادی اکتوبر میں ہوئی اور فوٹو سیشن جنوری 2015 میں کرکے  یہ  تاثر دینے کی  کوشش کی کہ جیسے  تازہ تازہ نکاح ہوا ہے  اور وہ  تو  دوسری  طلاق کے  بعد  دھرنا  پارٹ ٹو کا موقع نہیں ملا ورنہ کپتان کی شیروانی  پھر سے کام آ جاتی  اور کوئی  حسین ۔۔۔۔ حسینہ  بنگلا  بنی گالہ کی زینت بن جاتی  ۔۔۔  لیکن  کیا  کریں  منحوس مارے سماج  کے جو  حائل  ہو   گیا  اور اچھا  بھلا  منصوبہ   خاک میں مل گیا ۔۔۔ پاناما پر کمیشن بن  گیا گویا نہ ہو  گا بانس  نہ  بجے گی  بانسری ۔۔۔شاید  یہی وجہ تھی کہ کسی  سیاسی  خانوادے میں  مستقبل قریب میں شہنائی  بجنے کے  آثار  نظر  نہ آئے تو  بلاول   نے  عبداللہ  بن کر کسی اور کی شادی میں ناچنے کے بجائے اپنی شادی   کا ہی ڈھول  پیٹ ڈالا۔۔

شادی کا عندیہ  تو بلاول  نے اپنا دیا تھا لیکن شادی  مرگ کی کیفیت  دوسرے  سیاست  دانوں پر طاری ہو گئی  اور وہ  بھی  بزرگ  سیاست دانوں کی ۔۔۔ کسی  نے اسے  اچھا  تو کسی  نے  بہت  اچھا  کہا  کسی نے  چچا عمران  کے نقش قدم پر نہ  چلنے  کا مشورہ  دیا تو کسی نے  محبت کی شادی کرنے کا مشورہ دے ڈالا  اور یہ مشورہ  بھی ایم کیو ایم کے  کنوارے رؤف صدیقی نے دیا جو  شاید اس  انتظار میں   بوڑھے  ہو ئے جا رہے ہیں  کہ کوئی محبت والی مل  جائے تو وہ  بھی  ان  سے محبت  کرلیں ۔۔لیکن  حضور  آپ کو کیا  پتہ  ۔۔۔۔۔محبت  کا ۔۔۔بقول شاعر

کی محبت تو سیاست کا چلن  چھوڑ دیا
ہم اگر پیار نہ کرتے  تو حکومت کرتے

اب زرداری  صاحب کو ہی دیکھ لیں انہیں 1987 میں  جب  پنکی سے پیار ہوا تھا تو انہوں نے اپنی سوتیلی  والدہ  ٹمی  کو  نصرت  بھٹو کے ہاں   بھیج دیا  اور پھر انہیں  بے نظیر کی صورت میں نصرت مل  گئی  دونوں کی منگنی  لندن میں ،شادی  کلفٹن  میں  اور ولیمہ لیاری میں ہوا ۔۔۔۔  جب  تک زرداری  اپنی زوجہ  محترمہ  سے  پیار کرتے  رہے انہوں  نے  اپنی  بیوی کے دل کے علاوہ  کہیں  حکومت نہیں کی( البتہ مخالفین  ان  پر  محترم دس فیصدی  کا الزام  لگاتے رہے) اور  جب  پیار  ہی نہ رہا  تو وہ  صدر پاکستان  بن  گئے  ایسے میں  اگر  بلاول  بیوی کے چکر میں پھنس  گئے تو چاروں صوبوں کی  زنجیر کو  تو زنگ  لگنا شروع ہو  جائے  گا   اور اس کا  نتیجہ یہ  نکلے گا کہ آئندہ  انتخابات میں  چچا عمران اور  انکل  نواز(چچا اور انکل کا مطلب  ویسے ایک ہی  ہوتا ہے )میں سے کوئی ایک اقتدار میں  آ جائیں گے اور  آپ  کا  شہر  اقتدار پر  حکمرانی کا  خواب   خواب ہی رہ جائے گا   اس لئے آپ کو  اپنی  پیار کی  پون چکی  کو ذرا تاخیرپر رکھنا ہو گا تاکہ بجلی کم  پیداہو ۔۔۔ شادی  بلکہ مزید  شادیوں کے لئے  ابھی  تاج  حیدر  اور قائم علی شاہ   فٹ  بلکہ  سپر  فٹ ہیں پنجاب کے  خادم  بھی  یہ   فریضہ  وقتا ً فوقتاً انجام دیتے  رہتے ہیں  لہذا بڑوں  کے ہوتے ہوئے  چھوٹوں کو  بڑا  نہیں  بننا چا یئے ۔۔۔دلہن  دیسی  ہو  یا ولایتی ۔۔سیاسی  ہو  یا  غیر سیاسی ۔۔  زرداری  قبیلے  کی  ہو  یا  بھٹو  خاندان کی ۔۔۔ یہ  باتیں  ابھی دور کی  ہیں  انہیں پپا اور پھوپھو پر  رہنے دیں  اور ویسے بھی  بختاور اور  آصفہ  کون سی  تائی ماسی  بن چکی  ہیں جو   اپنے شہزادہ  گلفام  بھیا کے لئے  حور پھری ڈھونڈتی  پھریں ان کی عمر  گڈے  گڑیا  کی شادی کرانے   کی ہے بڑی  شادی کرانا بچوں کا کھیل نہیں ۔۔  لیکن  بلاول کی  نکی جی ہاں   سے  جہاں  کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہاں ان  تک یہ  پیغام  بھی پہنچ گیا کہ  بچہ ،،بڑا اور  بالغ ہو  گیا ہے ۔۔۔۔ باقی   دنیا اسے امیچور    کہتی پھرے ۔۔۔۔۔ ہمیں اس سے کیا!۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں