The news is by your side.

گوادر‘ سی پیک ‘ کیا بلوچستان تیار ہے ؟؟؟

چند ہفتے قبل گوادر کے حوالے سے ایک تحریر لکھی ‘ وفاقی دارالحکومت میں موجود ایک دوست نے فون کرکے وہ بے نقط سنائی کے ہم لاجواب ٹھہرے اور انہی دنوں میں کچھ ایسی مزید پیش رفت ہوئی جس نے مجبور کیا کہ ایک بار پھر گوادر اور سی پیک پر کچھ لکھا جائے ابتدائی سطور پڑھ کر نہ سوچیں کہ بلوچستان کا یہ لکھا ری ایک بار پھر وفاق کیخلاف ہی قلم اٹھائے گا پھر محرومیوں کی دھائی دے گا۔ وفاق کی زیادتیاں اور بلوچستان کی محرومیوں پر بہت کچھ لکھنا ہے جلد ایک سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کرچکاہوں پر آج باری خود احتسابی کی ہے جی ہاں آج تمام سوالات گوادر‘ مکران اور بلوچستان کے جنوبی حصے  کا مینڈیٹ رکھنے والی قوم پرست جماعتوں سمیت صوبے کا مینڈیٹ رکھنے والے وفاق پرست جماعتوں سے بھی ہے۔

بلوچستان میں ان دنوں جب کبھی اخبارات اٹھائیں بلوچ قوم پرست جماعتوں نے گوادر اور سی پیک اور اس کے مستقبل پرسوالات اٹھائے ہوئے ہیں۔ سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی مینگل جنہوں نے گوادر میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کررکھی ہے ۔ ان کے تحفظات شدید ہیں‘  میر اسرار اللہ زہری اور سید احسان شاہ کی بی این پی عوامی کا مؤقف بھی بی این پی مینگل سے ملتا جلتاہے تاہم وہ خاموش بیٹھی ہے لیکن حیران کن طور پر نیشنل پارٹی کا مؤقف ان دونوں قوم پرست جماعتوں سے مختلف ہے جی ہاں نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو اور ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ ان دنوں گوادر ‘ اس کی ترقی‘  سی پیک اور مستقبل کے بلوچستان کو فوکس کرتے ہوئے اس ترقی سے حاصل ہونے والے فوائد پر تبلیغ کرتے نظر آرہے ہیں تاہم کچھ معاملات جیساکے ڈیموگرافک تبدیلی کے معاملے پر تمام قوم پرست جماعتوں کا مؤقف ایک جیسا ہے نہ صرف قوم پرست جماعتیں بلکہ بلوچ آبادی والے علاقوں سے تعلق رکھنے والے وفاق پرست جماعتوں کے نمائندے بھی گوادر کے مقامی افراد کی شناخت اور اس شہر میں ہونے والی مستقبل کی ڈیموگرافک تبدیلیوں کے حوالے سے قوم پرستوں کے مؤقف کے حمایتی ہیں۔  یہ تو رہی سیاسی صورتحال لیکن چند روز قبل گوادر کی ایک بیٹی نے تخت ِلاہور کے بادشاہوں کو لاہور میں بیٹھ کر جھنجھوڑا۔  ہر طرف میری سرزمین کی اس بیٹی کی تعریف کی گئی اس بچی کے اعتماد اور گوادر کے پینے کے پانی کے مسئلے پر بات کرنے سے خوشی مجھے بھی ہوئی لیکن گوادر میں پانی یا بجلی کی فراہمی پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف کی ذمے داری نہیں ہے۔  اس سوال کا جواب بلوچستان کے وزیر اعلٰی نواب ثناء اللہ خان زہری‘  پی ایچ ای کے وزیر نواب ایاز جوگیزئی اور گوادر میں پانی صاف کرنے کا پلانٹ بنانے والے محکمے بی ڈی اے کے وزیر موصوف حامد خان اچکزئی سے پوچھا جائے  کہ ان کے محکمے نے  ایک ارب روپے کی لاگت سے جو پہلا پانی صاف کرنے والا پلانٹ لگایا وہ آج تک گوادر کو ایک گلاس پانی فراہم نہ کرسکا ۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ پلانٹ میں سیکنڈ ہینڈ مشینری لگا ئی گئی جو کہ دبئی سے خریدی گئی تھی اور آج یہ پلانٹ ناکارہ ہے تو اگر میری گوادر کی بیٹی یہ سوال بلوچستان کے ذمے داروں سے پوچھے توبھی جواب ویسا ہی ہوگا جیساشہباز شریف صاحب کا تھا معاملہ یہیں نہیں رکتا فرق ترجیحات کا ہے۔ ہماری بلوچستان حکومت کی ترجیحات پر اگلی تحریر میں بہت کچھ لکھنا ہے لیکن آج بات گوادر اور سی پیک کی ہے ۔پنجاب کی حکومت نے نوجوانوں کو چائینیز زبان سکھانے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ عمل درآمد بھی شروع کردیا ہے اور تو اور پنجاب کے محکمہ محنت اور افرادی قوت نے بھی تیاریاں شروع کردی ہیں تو سوال یہ ہے کہ بلوچستان کی حکومت کب خواب غفلت سے بیدار ہوگی اگر حکومت سوتی رہے اور آئندہ دس سالوں میں آنے والی تبدیلی کے بعد ہم پنجاب کو مورد الزام ٹھرائینگے پھر یہ زیادتی ہوگی اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کی جماعتیں میڈیا میں زندہ رہنے کیلئے بیان بازی کا سلسلہ روک کر گوادر اور سی پیک کے حوالے سے قانون سازی کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں اور ہر جماعت قانون سازی کیلئے ورکنگ پیپر تیار کرکے اسے پہلے عوام تک پہنچائے اور پھر اس قانون سازی کو بلوچستان اسمبلی سے منظور کرواکے ایک کمیٹی قائم کرکے وفاق سے مذاکرات کرے ۔اس قانون سازی میں گوادر میں مستقبل میں ہونے والی ڈیمو گرافک تبدیلی کی روک تھام کیلئے لائحہ عمل طے کیا جائے۔ گوادر کے مقامی افراد پانی کی فراہمی سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے تجاویز مرتب کی جائیں کہ گوادر اور سی پیک کی ترقی سے ضلع گوادر اور بلوچستان کی عوام کو کس طرح مستفید کروایا جاسکتا ہے ۔

اگر ایسا نہ کیا گیا تو دس سال بعد بلوچستان کے ساتھ ہونے والے نقصانات کی ذمے داری پھر وفاق پر نہیں بلوچستان کے مینڈیٹ کی دعویدار جماعتیں ہونگی کیونکہ سیاسی بیانات سے اب بلوچستان کے مسائل حال نہیں ہوں گے اب سردار اختر مینگل میر حاصل خان بزنجو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ میر اسرار اللہ زہری نواب ثناء اللہ زہری محمود خان اچکزئی مولانا غفور حیدری سردار یار محمد رند سردار فتح محمد محمد حسنی جام کمال خان کو اپنا کردار اادا کرتے ہوئے گوادر کے حوالے سے قانون سازی پر زور دینا ہوگا بصورت دیگر دس سال بعد جواب دہی وفاق کے ساتھ ساتھ ان افراد کے بھی ہونی چاہیئے جو بلوچستان کی نمائندگی کا دعویٰ تو کرتے ہیں حق نمائندگی کیلئے اب اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ اب گوادر کی ترقی اور سی پیک ایک خواب نہیں حقیقت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں