نامور دانشور، پاک بھارت ،امریکہ تعلقات کے ماہر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر ، کئی کتابوں کے مصنف حسین حقانی اپنی کتابMAGNIFICENT DELUSIONSمیں لکھتے ہیں ۔ کہ 1947ء کے بٹورہ ہندوستان سے قبل ٹائم میگزین کے نامہ نگار بوریک وائیٹ کو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے انٹرویو دیاجس میں ’’نئے مملکت کے وجود میں آنے کے بعد امریکہ سے ان کے تعلقات کی بابت بوریک وائیٹ کے سوال کے جواب میں جناح کا کہناتھا’ جتنی ضرورت امریکہ کو پاکستان کی ہے اتنی پاکستان کو امریکہ کی ضرورت نہیں ‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان اپنی جغرافیہ کی وجہ سے دنیا کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے،پاکستان کی سرحدین اس کی حیثیت کو اور بھی اہمیت کے حامل بناتی ہے ۔ سویت یونین بہت زیادہ دور نہیں ۔ انہوں نے یونان او رترکی میں امریکی مفادات کا حوالہ دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ’’امریکہ پاکستان کوعسکری اور اقتصادی مدد ضرور دے گا‘‘۔
اس جواب پر بوریک وائیٹ لکھتے ہیں کہ ’’جناح کے ذہن میں اس بہادر قوم کے پاس امریکہ سے دوستی کا کوئی جواز نہیں البتہ اونچے پہاڑیوں کے اس پار سرزمین بالشویک موجود ہے اسی خوف سے قائد اعظم نے نئی مملکت کو بڑے طاقتوں کے درمیان بکتر بند بفر ذون بنایا‘‘۔
اسی ہی کتا ب میں آگے جاکر بوریک وائیٹ کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’بوریک وائیٹ لکھتی ہے کہ ’’اکثر پاکستانی حکام نے ان کو بتایا کہ ’’امریکہ ہماری فوج کی تعمیر ضرورکرے گا اور یقیناًامریکہ روس کے خلاف ہمیں قرضے فراہم کرے گی‘‘ ان کے پاس روس سے متعلق کوئی وزنی دلیل نہیں تھی البتہ ان کا یہ کہنا تھا کہ ’’نہیں ، روس کا پاکستان کے ساتھ کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی ‘‘۔
بوریک وائیٹ کو انٹرویو دینے سے کئی ماہ قبل جناح نے امریکی سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ روس کے خلاف پاکستان کے مسلمان عوام کو متحرک کرنے کے لئے امریکہ پاکستان کی معیشت اور فوج کو سہارا دے گا ‘‘۔
ہندوستان کی تقسیم سے قبل مئی 1947ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے مشرقی وسطیٰ اور انڈین افئیرز سے متعلق اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ڈویژن کے ریمونڈ ہیر اورنئی دہلی کے سفارت خانے میں سکنڈ سیکٹری سے ڈھائی گھنٹے میٹنگ کی تھی ’’دونوں سفارت کاروں کے مطابق اس اجلاس میں انہیں بتایاگیا کہ پاکستان کے قیام کا مقصد ’’ہندو سامراجیت کے پھیلاؤ کو روکاجائے ‘‘ ،جو کہ مشرقی وسطیٰ میں پھیل رہاہے ۔ان ( قائد اعظم ) کے وژن کے مطابق مسلم ممالک کو ’’ممکنہ روسی جارحیت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے جس کے لئے امریکہ سے امداد کے منتظر ہے ‘‘( MAGNIFICENT DELUSIONS by Hussain Haqqani. p.g 14)۔ایک اور مقام پر حسین حقانی یوں رقم طراز ہے ’’1947ء کے برطانوی ہند کے خون ریز تقسیم کے بہت جلد بعد پاکستانی قیادت کو اپنے نئے ملک کے مستقبل سے متعلق غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوناپڑا ۔
پاکستان اور امریکی قیادت کے درمیان تواقعات کی خلا گزشتہ 65برسوں سے موجود ہے جبکہ شروع ہی سے پاکستان کے بابائے قوم اور پہلا گورنر جنرل محمد علی جناح نے ستمبر 1947ء میں امریکہ سے دو بلین ڈالر امداد کی اپیل کی لیکن امریکہ نے پاکستان کو اس پہلے برس صرف دس ملین ڈالر امدا د دی ‘‘۔(صفحہ نمبر 10)۔
نامور ترقی پسند مصنف استاد سبط حسن لکھتے ہیں ’’ قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے انہوں ( میاں افتخارالدین) نے کہاتھا کہ ہم نے اپنی معاشی پالیسی کو انگلو امریکی بلاک کے سامراجی مفاد کے تابع کرکے ملک کی اقتصادی اور صنعتی ترقی کو روک دیا ہے ہمیں چاہئے کہ اپنا خام مال سوشلسٹ ملکوں کے ہاتھ بھی فروخت کریں اور ان سے تجارتی تعلق بڑھائیں تاکہ ان کی مدد سے ملک میں کلیدی صنعتیں اور کارخانے قائم کئے جاسکیں مگر قومی اسمبلی کے نقار خانے میں میاں صاحب کی اکیلی آواز کون سنتا۔ لطف یہ ہے کہ چھ سات سال کے بعد جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو وہی حضرات جو میاں صاحب کو ماسکو کا ایجنٹ کہتے تھے سوشلسٹ ملکوں سے تجارتی تعلقات بڑھانے پر مجبور ہوگئے ۔
یہی صورتحال خارجہ پالیسی کے سلسلے میں بھی پیش آئی جس زمانے میں ہماری سرکار اونٹوں کے گلے میں تھینک یو امریکہ کی تختیاں لٹکا کر اپنی کاسہ لیسی پر بغلیں بجارہی تھی تو قومی اسمبلی میں میاں صاحب کی واحد ذات تھی جس نے اس قومی ذلت پر احتجاج کیاتھا انہوں نے امریکی امدا د کی اصل نوعیت کی وضاحت کی اور کہا کہ جس چیز کو ہم امداد سمجھ رہے ہیں وہ امداد نہیں بلکہ ایک طلسمی جال ہے اس امداد سے امریکہ کے سرمایہ دار طبقے کا فائدہ ہوتاہے اور ہمیں نقصان پہنچتاہے۔ واقعات نے میاں صاحب کے اس دعوے کی بھی تصدیق کردی اور خود ہماری سرکاری ماہرین اقتصادیات کو اعتراف کرنا پڑ اکہ امریکی امدا دسے ملک کی صنعت وحرفت پر کاری ضرب لگی ہے میاں صاحب نے امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدوں پر بھی کڑی نکتہ چینی کی انہوں نے کہا کہ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وقت پڑنے پر امریکہ سات سمندر پار سے آکر ہماری فوجی مدد کرے گا تو ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں واقعات نے بہت جلد میاں صاحب کی ان باتوں کی صداقت بھی ثابت کردی میاں صاحب کا اصرار تھا کہ ہمیں کسی بلا ک میں شامل نہیں ہونا چاہئے اور نہ کسی بڑی طاقت کی حاشیہ برداری قبول کرنی چاہئے بلکہ آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنی چاہئے اسی بنا پر وہ بغداد پیکٹ اور سینٹو کے بھی سخت مخالف تھے اور آج ہر شخص ان اداروں کی اصل حقیقت سے واقف ہے ‘‘۔( افکار تازہ ، مقالات سبط حسن ، مرتب سید جعفر احمد ، ص 197-98)۔
مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں پڑھ کے آئے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے پہلا خط سویت یونین کی جانب سے پاکستان کو لکھا گیا لیکن وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اسے مسترد کرتے ہوئے امریکہ کا دورہ کرکے ان کے ساتھ تعلقات قائم کئے ۔ اس کے بعد سینٹو اور سیٹو کے بھی رکن بنے ، جو آج کے نیٹو تک جاری ہے ۔اس کے برعکس بھارت نے غیرجانب دار ممالک کے تنظیم میں شمولیت اختیار کی اسی سفارت کاری کی بدولت بھارت بیک وقت سویت یونین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بناتے ہوئے خارجہ محاذ پر نمایاں کامیابی سمیٹ لی۔اس سارے معروضات کو پیش کرنے کا مقصد کیاہے ؟۔
درحقیقت چند ماہ قبل روسی فوج کا ایک دستہ پاکستان آیا مقصد پاکستان سے مل کرفوجی مشقوں میں حصہ لینا تھا۔ چالیس برس بعد یہ کسی روسی فوجی دستے کی پاکستان آمد ہے ۔ دائین بازو کے کارپوریٹ میڈیا او ر دانشوروں کی جانب سے اس اقدام کو پاک روس نام نہاد دوستی کے حوالے سے ایک سنگ میل سے تعبیر کررہے ہیں ۔ آفسوس کا مقام یہ ہے کہ جو طبقے سن پچاس ، ساٹھ ، ستر اور اسی کی دھائی میں سویت یونین کو لادین قراردے کر ’اہل ایمان ‘‘یعنی امریکہ کے گود میں بیٹھنے کو ترجیح دے رہے تھے آج روس کی دوستی کا راگ آلاپ رہے ہیں ۔
مورخین اور اہل دانش کے ہاں ایک نظریہ یہ پایاہے کہ 1947ء کا خونریز بٹورہ روسی سوشلزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے شروع کردہ منصوبہ تھا جس میں شمالی ہندوستان کے مسلمان اکثریتی علاقوں کو مذہب کی بنیاد پر ایک وحدت میں جمع کیاجائے۔او روہاں کے باسیوں کے ذہنوں میں پروپیگنڈہ کے ذریعے یہ بات بٹھائی جائے ،کہ سوشلزم اسلام کے لئے سب سے بڑا خطر ہ ہے یوں شمالی ہندوستان میں ایک بفرذون قائم کیاگیا جس کی مدد سے سویت یونین کوگرم پانیوں تک رسائی سے محروم رکھنے کا بندوبست ہوا اس کے علاوہ اسی بفرذون( پاکستان ) کے عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے انہیں ہمیشہ سے سوشلزم کے خلاف سرمایہ داری کے حق میں میدان میں اتاراگیا ۔ اس سلسلے کا سب سے خطرناک کھیل اسی کی دھائی میں کھیلاگیا جب افعانستان کے انقلابی حکومت نے رد انقلاب کے خوف سے سویت یونین کی مدد حاصل کی تو گویا ایک نیا خونی دور کاآغاز ہوا روس کاراستہ روکنے کے لئے سرمایہ دارانہ دنیا جس کی قیادت امریکہ بہادر کررہے تھے نے پاکستانی عسکری اداروں کے تعاون سے افعانستان ہی میں روس کو پسپا کرنے کا فیصلہ کیا اس خون آشام ڈرامے کا کلیدی کردار امریکہ، برطانیہ ویورپ ، سعودی عرب اورپاکستان تھے ۔سرمایہ دار ممالک نے پٹروڈالر (پٹرول اور ڈالر) اور کلاشنکوف کا تحفہ عنایت کیا تو پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی اور فوج نے مل کر افراد ی قوت فراہم کی اس ڈرامے کی شروعات سے قبل 1977ء کے موسم گرما میں پاکستان میں ضروری سیاسی تبدیلیاں لائی گئی جبکہ 5جولائی 1977ء کو منتخب جمہوری وزیر اعظم کا تختہ الٹ کر ملک پرمارشل لاء مسلط کیاگیا سامراج کواس بات کا ادراک تھا اگر پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت رہتی ہے تو اسے اپنی مفادات کے لئے استعمال کرنا ممکن نہیں رہے گا۔اسی خوف کی بنا پر بھٹو حکومت کے خاتمے کے لئے پہلے حزب اختلاف کی نو سیاسی جماعتوں کو ڈالروں کی مدد سے خریداگیا پھرجب فضاء سازگارہوگئی ،توڈائریکٹر کی جانب سے اسکرین پر ایکٹر کو اپنا کرتب دکھانے کا اشارہ کیاتوضیاء صاحب میدان میں کود کر اپنے فن کا ایسا مظاہرہ کیا کہ روس افغانستان میں پھنس کر رہ گئی افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوگیا پاکستان میں عسکریت پسندی او ر شدت پسندی کو فروع ملا جس کا نتیجہ گزشتہ کئی برسوں سے ان دونوں ممالک میں کھیلی جانے والی آگ وخون کی وہ لڑائی ہے جس نے ابھی تک لاکھوں افغانیوں کو ابدی نیند سلادیا لاکھوں دربدر کی ٹھوکرین کھانے پر مجبور ہے او رستر ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانی اس ناسور کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن گیا۔اسی کی دھائی میں جب سویت یونین افغانستان میں برسر پیکار تھا تو امریکہ کی ایماء پر پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے یہ نعرہ مستانہ بلندی ہوا۔کہ ’’لادین روس کے خلاف اہل ایمان امریکہ کا ساتھ دینا مسلمانوں پر فرض ہے‘‘۔یہ پروپیگنڈہ بھی کیاگیا کہ اگر روس افعانستان میں کامیاب ہوگئی تو پاکستان کو روندتے ہوئے گرم پانیوں تک پہنچ سکتاہے یوں ’اسلام کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان ‘ پر کفر یعنی سوشلزم کاغلبہ ہوگا اسی دور میں سوشلزم کو ایسے بھیانک انداز سے پیش کیاگیا جیسا یہ کوئی طاغون کی بیماری ہو ۔تجزیہ نگار ومصنف جمعہ خان صوفی اپنی کتاب ’’فریب ناتمام‘‘ میں روس کی افغانستان آمد کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’یہ کہنا کہ سویت یونین گرم پانیوں تک آنا چاہتاتھا ، یا اس نے جان بوجھ کر افغانستان میں کمیونسٹ پارٹی میں نفاق کے بیج بوئے تھے اور سب فسادات اور قتل مقاتلے اس کی پشت پناہی کے باعث تھے سب بے کار کی باتین ہیں اصل میں پارٹی اس میں کانام ہوگئی تھی کہ اپنی وحدت کو قائم رکھ سکے پارٹی عوام سے درست برتاؤ کرتی اور اپنے ملک اور علاقے کی مفادات کا خیال رکھتی ۔‘‘ (صفحہ 358)،’’اگر روسیوں کی پارٹی وحدت اوریکجہتی کی کوششیں کامیاب ہوتیں تو شائد پھر ان کی فوجی مداخلت کی ضرورت پیش نہ آتی‘‘(صفحہ 578)۔سویت یونین کی گرما پانیوں تک رسائی کا پروپیگنڈہ مذہبی جماعتیں اور دائین بازو کے دانشورکررہے تھے ۔اور آج جب دوسو کے قریب فوجی پاکستان آکر پاک فوج سے مل کر مشقوں میں حصہ لیاتو وہی عسکری ادارے ، مذہبی طبقات اور دائین بازو کے دانشور پاک روس دوستی کا ایسا بلند وبانگ نعرہ لگارہے ہیں کہ اس شووغوغا میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے افسوس جنہیں چند برس قبل لادین کہہ کر ان کا نام لینا بھی قابل گردن زنی خیال تھا آج وہ صاحب ایمان ہوئے۔