The news is by your side.

کراچی ایٹ فیسٹیول‘ بہتر سے بہترین کب ہوگا؟

کراچی کے شہریوں کیلئے تفریح کے مواقع اور مقامات بہت ہی کم ہیں اسلئے جب بھی  کوئی نمائش یا فیسٹیول اس شہر میں ہوتا ہے، اسے شہریوں کی طرف سے بھرپور پذیرائی ملتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ’کراچی ایٹ  فیسٹیول‘ کے ساتھ ہے جہاں لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ آتے ہیں اور نت نئے پکوانوں سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لذیذ کھانوں کے شوقین کراچی والوں کیلئے سجایا جانیوالا یہ فیسٹیول اب اپنے چوتھے سال میں داخل ہوچکا ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ اس کے منتظمین نے اتنے عرصے میں کچھ بھی نہیں سیکھا ہے  ہر سال کی جانیوالی بیشتر شکایات جوں کی توں ہیں جن کے تدارک کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔

فرئیر ہال  کے باغات کا انتخاب اتنی بڑی آبادی والے شہرمیں کسی نمائش کے انعقاد کیلئے اپنی محدود گنجائش کے باعث انتہائی  ناموزوں ہے۔ منتظمین کو کسی زیادہ بڑی اور کھلی جگہ کو منتخب کرنا چاہئیے کیونکہ بچوں کے پلے ایریا،اسٹالز، کھانے کی ٹیبلز اور لوگوں کے ہجوم کے باعث  فرئیر ہال چھوٹا پڑنے لگتا ہے۔  آپ آبادی کےتناسب  سے  اپنی منتخب کی ہوئی جگہ کا حساب  لگائیں پھر میلے میں لوگوں کی دلچسپی کو سامنے رکھیں تو عقل یہ ہی جواب دیتی ہے کہ فرئیر ہال اب نامناسب ہے۔ اسکے علاوہ اطراف کی سڑکیں ہمہ وقت ٹریفک کے شدید دباؤ کا شکار رہتی ہیں جس کے باعث یہاں آنا اور جانا کافی مشکل ہے  ۔  کیونکہ اہم عمارتیں اور فائیو اسٹار ہوٹل بھی قرب و جوار میں واقع ہیں اس لئے اس علاقے میں آمدو رفت کافی زیادہ رہتی ہے۔

دوسرا سب سے بڑا اور اہم ترین مسئلہ گاڑیوں کی پارکنگ ہے۔ بات پھر گنجائش کی ہے، اسٹالز لگانے والوں اور منتظمین کی اپنی گاڑیوں اور موٹرسائیکلز کی پارکنگ کے بعد احاطہ تفریح کیلئے آنیوالے لوگوں کی سواریوں کیلئے انتہائی کم ہے رہی سہی کسر ’وی آئی پی پارکنگ‘ کیلئے مختص جگہ پوری کردیتی ہےجہاں سے عام شہری تقریباً دھتکارے جارہے ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اکثریت کو دور دراز کی گلیوں اور سڑکوں پر پارکنگ تلاش کرنی پڑتی ہے جو بے حد مشکل کام ہے۔ اگرچہ اس دفعہ شٹل سروس کا شور سنا تھا لیکن ایسا کچھ  دکائی نہیں دیا ہاں! لوگوں کو  فرئیر ہال کی جانب اور وہاں سے واپس گاڑی تک پہنچنے کیلئے پیدل مارچ کرتے ضرور دیکھا۔ جلدی پہنچ جانے کے باوجود زیادہ تر گاڑیاں پارکنگ کی تلاش میں  فرئیر ہال کے داخلی اور خارجی گیٹ کے چکر کاٹتی نظر آئیں۔ ایسے میں لوگوں کی سہولت کیلئے موجود ویلے پارکنگ والےبھی صرف  جگہ نہ ہونے کا اشارہ کرتے رہے اور گاڑیاں باہر کھڑی کرنے کا مشورہ دیتے رہے  مزید تکلیف دہ حالات اس وقت پیدا ہوئے جب ہفتے کی شام شہر میں جگہ جگہ ٹریفک جام ہوا اور بکنگ کے باوجود ریڈیو کیب سروسز نے  نے فرئیر ہال آنے سے منع کردیا تب ریڈیو کیب استعمال کرنے والوں کی کوفت ان کے چہروں سے عیاں تھی۔

سردیوں میں منعقد ہونے والے کھانوں کے اس تہوار میں  شہریوں کیلئے چھت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ جب آپ کوئی پروگرام فیملیز کیلئے رکھ رہے ہیں تو اتنا ضرور ذہن میں رکھئے کہ وہاں بزرگ اور بچے بھی آئیں گے۔  اورکراچی میں سردی ہمیشہ جنوری میں زیادہ پڑتی ہے  جس میں ٹھنڈی ہوائیں بھی چلتی ہیں اور ایک آدھ بارش بھی ضرور ہوتی ہےتو پھر کیسے آپ سارا کا سارا فیسٹول ایریا بغیر چھت کے رکھ رہے ہیں۔  اس  بار بھی ایسا ہی انتظام کیا گیا  سو پچھلےجمعہ کو جب کراچی ایٹ  فیسٹیول کا پہلا دن تھا اور محکمہ موسمیات نے شہر میں بارش کی پیشن گوئی کردی تھی جو صبح سے ہی درست ثابت ہورہی تھی لیکن اسکے باوجود  ایٹ  فیسٹیول کی انتظامیہ نے کوئی انتظام نہ کیا۔ راقم نے لوگوں بزرگوں بچوں کو بھیگتے، ٹھٹرتے ہوئے سائبان کی تلاش میں بھاگتے دیکھا لیکن چونکہ بد انتظامی ہماری نس نس میں سرائیت کرچکی ہے اس لئے وہاں کوئی سائبان میسر نہ تھا۔ ہوناتو یہ چاہئے تھا بارش سے محفوظ رکھنے کیلئے پورا نہ سہی باغ کے کچھ پورشن  کو کور کردیا جاتا اور یہ کچھ ایسا مشکل کام بھی نہ تھا لیکن اتناسوچے کون اور کرے کون؟  زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اسٹالز تک بجلی پہنچانے والے تار گھاس پر ہی پڑے تھے جو کہ عام حالات میں بھی نقصان دہ ہیں اور بارش میں تو کسی بھی سنگین حادثے کا باعث بن سکتے ہیں  انہی وجوہات کے باعث پچھلے ہفتے اس فیسٹیول کومنسوخ کرنا پڑا تھا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے حالات سے بچاؤ کی کوئی تدبیر اب بھی نہیں  کی گئی ہے   ۔

داخلہ فیس اور اسٹالز پر کھانے کے نرخ  ضرورت سے زیادہ ہی ہیں، دونوں کو کم ہونا چاہئے۔ داخلے کیلئے فی کس ۲۵۰ روپے دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ جب آپ نے  شہر کے تمام طبقات کیلئے فیسٹیول رکھا ہے تو پھر داخلہ فیس نہ رکھیں یا کم از کم بچوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیں کیونکہ اوسط آمدنی والوں کیلئے فیملی کے ہر فرد پر ڈھائی سو روپے دیکر اندرجانا  مشکل ہے  اور اگر کوئی فیملی رکشہ یا ٹیکسی کا استعمال کررہی ہے تو پھر بجٹ  زیادہ گنجائش مانگتا ہے جو مہنگائی کے اس دور میں کافی مشکل ہے۔ اس کے بعد اکثر اسٹالز پر کھانے کے نرخ عام دنوں یا مارکیٹ کی قیمت سے زیادہ ہیں-  ریسٹورنٹ یا گھر سے کھانے کا بزس چلانے والی خواتین، سب ریگولر سرونگ ہی  پر بڑھا چڑھا کر چارج کررہے ہیں۔ یعنی منافع خوری یہاں ٹھیک ٹھاک ہورہی ہے، ایسے میں یہ صرف  ’امیروں کی تفریح‘ کا لقب پاتا جاتا رہا ہے جو فیسٹول کے مستقبل کیلئےزیادہ اچھی بات نہیں ہے۔ یہ شعبہ بھی انتظامیہ کی توجہ کا طالب ہے کہ داخلہ فیس پر نظر ثانی کی جائے اور قیمتوں پرچیک اینڈ بیلنس قائم کیا جائے ۔

امید ہے کہ کراچی ایٹ  فیسٹیول کی انتظامیہ ان  کوتاہیوں پرغور کرکے اگلے سال  بہتر انتظامات کریگی – کھانے کا شوق تو ہر ایک کو ہوتا ہے  اور ایک ہی جگہ انواع و اقسام کے کھانے مل جائیں تو کیا ہی بات ہے۔ یہ ایک بہترین آئیڈیا ہے اسے ضائع  ہونے سے بچائیں-  مہربانی کرکے انتظامات پر بھرپور توجہ دیکراس منفرد  فیسٹیول کو پورے سال کیلئے یادگار بنادیں کیونکہ بہتری کی گنجائش ہر جگہ ہوتی ہے اور اچھے نتائج ہمیشہ منظم کارکردگی سے ملتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں