گزشتہ تقریبادودھائیوں سے ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیاں واقع دورافتادہ اورپسماندہ ضلع چترال یکے بعد دیگرے موسمی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کی زد میں ہے ۔جس کا آغاز سن 2000ء میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب چترال کے انتہائی دور افتادہ شمالی علاقہ یارخون لشٹ میں گلیشیئر کے ٹوٹنے سے دودرجن سے زائد گھرانے اس کی زد میں آئے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ چترال پر موسمی تغیرات کے اثرات رونما ہونا شروع ہوئے ۔ اس کے چند برس بعد ایک اورشمالی گاؤں بریپ پھر سے گلیشیئر ٹوٹنے سے تباہ ہوگیااور اس میں دو سو سے زائد گھرانوں کو اپنے گھر بار سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ موسمی تبدیلیوں کا اگلا ہدف چترال کا ایک اور رومانوی گاؤں سنوغر بنا جب سال 2007ء کے موسم گرما میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے سنوغر کے پہاڑیوں میں موجود گلیشیئر ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے دو سو سے زائد گھرانوں کو اپنے گھر بار اورجائیدادوں سے محروم ہونا پڑا ۔ سال 2010ء میں بونی گول میں موجود گلیشیئر لیک آؤ ٹ برسٹ فلڈ کی وجہ سے درجنوں افراد متاثر ہوگئے ۔ سال 2015تو گویا پورے چترال کے لئے آفت بن کے نمودار ہوا جب موسم گرما میں غیر متوقع بارشوں سے تقریبا سارا چترال سیلابوں کی زد میں آیا۔گاؤں کے گاؤں سیلابوں کی وجہ سے ملیامیٹ ہوگئے انفراسٹریکچر تباہ ہوگیا بجلی کا نظام ایسا درہم برہم ہوا کہ آج دوسال گزرنے کے بعد بھی بحال نہ ہوسکی۔ چترال کا بیشترحصہ دوسال گزرنے کے باوجود بھی تاریکی میں ڈوباہوا ہے۔گو کہ سال دوہزارسولہ میں بھی اس قسم کی تباہ کن بارشوں کی پیش گوئی کی گئی تھی لیکن غیرمتوقع طورپرگزرا ہوا سال نسبتاً بہتر رہا ۔البتہ مارچ 2016ء میں برف باری کی وجہ سے تحصیل لوٹکوہ کے یوسی کریم آباد میں سکول سے گھرجاتے ہوئے دس طلباء اور راہگیر ایک خطرنا ک برفانی تودے کی زد میں آکر لقمہ اجل بن گئے۔ جو کہ چترال کے تباہ کن حادثات میں سے ایک تھا اس کے بعد جولائی 2016ء میں ارسون نامی گاؤں میں صرف پانچ منٹ کی زوردار بارش سے سیلابی ریلہ آیااورچالیس کے قریب افراد اس کی لپیٹ میں آئے جن میں سے اکثریت فوجی جوانوں کی تھی ۔
سال 2017کی شروعات بھی انتہائی ناخوشگواری کے عالم میں ہوئی جبکہ گزشتہ دنوں غیر متوقع برف باری کی وجہ سے کریم آباد میں شیر شال نامی گاؤں میں برفانی تودہ گرنے سے نو افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ارندو میں بھی برفانی تودے کی زد میں آکر ایک فوجی کی ہلاکت ہوئی ہے۔گرچہ حادثات، سانحات اور بے وقت موت انسانی زندگی میں عموماً وقوع پزیر ہوتے رہتے ہیں ہمارے معاشرے میں نوشتہ تقدیر یا نصیب کا امتحان کہہ کر ان کے عوامل پر پردہ ڈالنے اوردل کو تسلی دینے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے احتیاطی تدابیر اور ایسے حادثات کی روک تھام کے لئے ہمارے ہاں کوئی مربوط حکمت علمی نظر نہیں آتی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سائنسی دنیا سے پاکستان کوہم آہنگ کرتے ہوئے ان عوامل کی وجوہات کو جانچے تاکہ اس کی روک تھا م کا بندوبست کیاجاسکے ۔ کیونکہ بے قابو دریائی موجوں میں بے خطر کودنا یا پہاڑی چوٹی سے چھلانک لگا کر اسے قسمت کا لکھا ہوا نوشتہ کہنا شائد مناسب نہیں۔ موسمی تغیرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جانی ومالی نقصانات پر خداوند کریم کو قصوروار ٹہرا نا سراسر ناانصافی ہے ۔ آج تک حادثات وسانحات کی وجہ سے جتنی جانی ومالی نقصانات کا ہمیں سامنا کرنا پڑرہا ہے احتیاطی تدابیر اپنا کر ان کی شدت کو کم سے کم کیاجاسکتاہے لیکن ہم اپنی ہی کوتاہیوں کی وجہ سے انسانی المیوں سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔اسی ہی کوتاہی کا مظاہرہ حالیہ کریم آباد شیر شال کے حادثے میں بھی برتی گئی جس کی وجہ سے نو افراد وقت بے وقت موت کی آغوش میں چلے گئے۔
پاکستان میں کلائمٹ چینج – ہم کہاں کھڑے ہیں؟
باخبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ اس گاؤں کے مکینوں کو پہلے ہی وارننگ دی گئی تھی کہ وہ علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب انخلا کرے کیونکہ شدید برف باری کی صورت میں کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ رونما ہوسکتاہے ۔ اس سلسلے میں آغاخان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی ادارہ فوکس ہیومینٹیرئینز ایسسڈنس کی جانب سے چترال کے کونے کونے میں جتنے بھی خطرناک علاقے ہے وہاں کے لوگوں کو کئی بار اس ادارے کی جانب سے ٹرئینگ اور آگاہی کابندوبست کیاگیاتھا ہر گاؤں میں ایک ذمہ دار فرد مقرر کیاتھا جنہیں برف باری یاکسی بھی آفا ت کی وجوہات، علامات اور احتیاطی تدابیر پر ٹرئینگ دی گئی تھی ۔ اسی گاؤں کے ایسے ہی ذمہ دار افراد کے مطابق وہ باقاعدہ خطرے کی زد میں رہنے والے لوگوں کو علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقاما ت میں منتقل ہونے کی ہدایت دی تھی لیکن علاقے کے مکین ان ہدایات کامذاق اڑاتے رہے ۔اورجس کا نتیجہ نو افراد کی ہلاکت کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔
دنیا کے سب سے گرم ترین صحرا میں 37 سال بعد برف باری
برفانی تودوں کے گرنے کی وجوہات:
برف کی بھاری مقدار جو کہ ایک پہاڑی یا ڈھلوان سطح سے سرک کر نیچے کی جانب آئے تو اسے برفانی تود ہ کہاجاتاہے جو کہ حجم کے لحاظ سے چھوٹا، بڑا ، گہرا یا ہلکا، گیلا یا خشک ہوتاہے ـ۔
برفانی تودے عموما دو قسم کے ہوتے ہیں ۔
1: ڈھیلا برفانی تودہ
ڈھیلا برفانی تودہ عموما جنوب کی سمت رخ والی ڈھلوانوں سے نیچے آتاہے موسم بہار کے آغاز میں جب برف کی سطح پگھلنا شروع ہوجائے تو برف گیلا پڑجاتاہے اور اکثر چھوٹے چھوٹے تودوں کی صورت میں نیچے آنا شروع ہوجاتی ہے ۔ڈھیلے برفانی تودے عام طورپر چھوٹے مقامات سے آتے ہیں اور نیچے آتے آتے مزید برف اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں اور اپنی رفتار بھی بڑھاتے ہیں۔ ڈھیلابرفانی تودہ عام طورپر سطحی برف پر مشتمل ہوتاہے اور اکثر برفانی طوفان کے بعد پیداہوتاہے ۔ زیادہ ڈھلوانی علاقوں میں تیز رفتار پکڑتا ہے اور کافی دور تک حرکت کرتا ہے ۔اسے کہوار زبان میں ڈونگو ریشٹو کہاجاتاہے۔
2: بڑا برفانی تودہ :
بڑابرف برفانی تودہ انتہائی تباہ کن اور ہلاکت خیز ہوتاہے۔جس میں برف کی کئی کلومیٹر پر محیط تہہ ایک ساتھ ایک ٹکڑے کی صورت میں ٹوٹتا ہے جس میں ٹوٹنے ( شکستگی ) کے واضح آثار ہوتے ہیں ۔ مختلف مواقع پر پڑی ہوئی برف کی الگ الگ تہیں بن جاتی ہے ان میں سے بعض تہہ کمزور ہوتے ہیں اور اپنے اوپر زیادہ برف کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتیں اور وہ برفانی تودے کی شکل اختیار کرجاتی ہے ۔ان برفانی تودوں کی ہیت اور رفتار انتہائی زیادہ ہوتی ہے ۔
برفانی تودوں کے گرنے کی وجوہ:
برفانی تودوں کے گرنے کی چار بڑی وجوہات ہوتی ہے جو کہ درج ذیل ہیں
درجہ حرارت کا نقطہ انجماد سے بڑھ جانا
شدید برف باری
بہت تیز آندھی
برف کے اوپر بارش
عوامل:
*اگر ڈھلوان سطح کازاویہ 30سے 45ڈگری کے دمیان ہوتو برفانی تودوں کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
*جڑی بوٹیوں اور درختوں کا نہ ہونا۔ یعنی اگر زمین جڑی بوٹیوں ، درختوں وغیرہ سے خالی ہو اور برف کے سامنے کسی قسم کی مزاحمت نہ ہو زمین بالکل ڈھلوان ہو تو برفانی تودوں کا موجب بن سکتے ہیں۔
*تاریخی عوامل :یہ ضروری نہیں کہ جس جگہ برفانی تودہ آتا ہے وہاں ہر دفعہ تودہ گر رہاہو بلکہ حقیقت یوں ہے کہ بہت سارے ایسے جگہے بھی ہوتے ہیں جہاں صدیوں قبل برفانی تودہ آیا ہو پھر موسمی حالات کی وجہ سے اس علاقے میں دھائیوں بلکہ برسوں تک برفانی تودہ نہیں آتا یوں لوگ اس جگہ کو محفوظ سمجھ کر وہاں مکانات تعمیر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اگر حد سے زیادہ بارشیں ہوتی ہے تو برفانی تودے دیہات کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں۔اس کے علاوہ برف باری کے بعد جب تیر ہوائیں چلتی ہے تو وہ برف کو پہاڑی چوٹی میں جمع کردیتے ہیں جو کسی بھی وقت پہاڑی کی دوسرے سمت کو سرک جاتی ہے ۔ ڈھلوان سطح اگر مشرق اور جنوب کی سمت واقع ہو تو موسم بہار میں سورج پڑنے کی وجہ سے وہ برف گیلے ہوکر برفانی تودوں کا باعث بن جاتے ہیں۔
برفانی تودے کا باعث بننے والے حالات:
اگر مختصر وقت میں بہت زیادہ برف باری ہوجائے یا برف باری کے بعد بارش ہوجائے تو اس صورت میں برفانی تودہ بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں برف باری کے بعد تیز ہوائیں چلنے کی صورت میں یا درجہ حرارت کے نقطہ انجماد سے بڑھ جانے کے باعث برفانی تودہ بن سکتاہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ برف باری کے تقریبا چوبیس گھنٹوں کے اندراندر برفانی تودوں کے امکانا ت زیادہ ہوتے ہیں البتہ چوبیس گھنٹے بعد برف مستحکم ہوجاتی ہے۔انتہائی تیز رفتاری سے ہواؤں کے چلنے کی وجہ سے ہوا برف کو پہاڑ کے ایک طرف سے دوسری طرف جمع کرتا ہے اور یہ جمع شدہ برف تودے کا باعث بنتے ہیں ماہرین کے مطابق ہوا برف کو برف باری سے دس گنا تیز رفتاری سے حرکت دیتاہے ۔برفانی تودے کی ایک اور وجہ برف کی کمزورتہوں کا ٹوٹنا ہے اگر شدید برف باری ہوجائے تو کمزوربرفانی تہوں کے ٹوٹنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ایک تصور یہ بھی ہے اگر مسلسل تین راتوں تک برف باری ہوجائے تو برفانی تودے بننے کے امکانا ت زیادہ ہوتے ہیں۔
علامات:
برف باری کے چوبیس گھنٹے میں تیس سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ برف باری ہوجائے ، اور چھ گھنٹے سے زیادہ عرصے تک پانچ سینٹی میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے برف باری جاری رہے تو خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ برف باری کے چوبیس گھنٹوں کے اندر درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بڑھ جانے کی صورت میں بھی برفانی تودے بن سکتے ہیں۔
احتیاطی تدابیر :
اگر کسی ڈھلوانی علاقے میں برف باری کا سلسلہ شروع ہوجائے تو سب سے پہلے جانی نقصان سے بچنے کے لئے چند ایک اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے
*یہ کہ رہائشیوں کو برفانی تودے کے خطرات سے آگاہ کیاجائے۔
*فوکس ہومینیٹئرئین ایسسٹنس نے ہر گاؤں کی سطح پر ویلج ڈیزاسٹر مینجمنٹ پروگرام(VDMP) کا نظام تشکیل دیا ہے ۔ ان کے اراکین کو حالات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جس میں موسمیاتی کلینڈر اور خطرناک مقامات سے انخلا کا منصوبہ شامل ہے ۔
*جہاں برفانی تودہ گرنے کا خدشہ یا خطرہ ہو وہاں مکانات تعمیر کرنے کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے ۔
*اگر کسی بھی ادارے کی جانب سے خطرات کی نشاندھی کی جائے تو عوام کو اس پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کرنا چاہئے تاکہ جانی نقصان سے بچا جاسکے ۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں فوکس ہیومینیٹیرئن اسسڈنٹ کے پریذنٹیشن اور جیالوجسٹ سید دیدار علی شاہ کے تجربات سے استفادہ کیاگیا ہے ۔