The news is by your side.

شمالی علاقہ جات‘ پہاڑی ثقافت اور موسمی تبدیلیاں

پاکستان کا شمالی خطہ یعنی خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان نہ صر ف اونچے اونچے کوہساروں اور بلندوبالا پہاڑوں پر مشتمل ہے جو کہ زمانہ قدیم سے سالہاسال سفید برف کی چادر اوڑھے رہتے تھے جبکہ ان پہاڑوں میں قطبین سے باہر کی دنیا کا سب سے بڑا گلیشیئر کا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ یہ پہاڑی خطے اپنے دامن میں انتہائی قدیم اورمنفرد ثقافتوں کا مسکن رہےہیں۔ دنیا کی قدیم ترین ثقافت یعنی کیلاش، ان پہاڑی خطوں میں اپنا وجود برقراررکھے ہوئے ہیں۔جہاں ایک جانب اس خطے نے منفرد ثقافتوں کو فروغ دیا وہیں یہاں کے باسی انتہائی نامساعد حالات میں بھی پرعزم اور حوصلے سے سرشار رہے۔ یہاں کی پہاڑیاں جتنی اونچی ہیں علاقے کے باسیوں کا عزم وہمت بھی اتنا ہی پختہ اور اولولعزم ہیں۔البتہ دورجدید میں پاکستان سمیت پورا ارض شمال اوراس کی سفید پوش پہاڑیاں شدید موسمی تغیرات کی زد میں ہے۔ آئے روز موسلادھار بارشیں، وقت بے وقت کی برف باری اورشدید سردی وگرمی کی وجہ سے تباہی کے دھانے پرکھڑے ہیں۔

پاکستان کے شمالی علاقوں کے پہاڑی چوٹیوں میں دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی کے ٹو (8611میٹر، 28251فٹ)،نویں نمبر کی بلند چوٹی نانگاپربت( 26656فٹ)،گیارہویں بلند ترین چوٹی گسہر برم 1(26808فٹ)، بارہویں بلند ترین چوٹی بروت پیک( 26400فٹ) گشپر برم دوم اورچہارم جو بالترتیب تیرھویں اور سترھویں نمبر پرہے (26023 26361,فٹ)ہے۔ ماشربرمk1، بائیس ویں نمبر پر (25658فٹ)،ستائیس ویں بلند ترین چوٹی راکہ پوشی( 25550فٹ) ہے۔ اسی طرح قطبین سے باہر کی دنیا کے سب سے بڑے گلیشئرزبھی شمالی پاکستان میں موجود ہیں۔ ان میں خصوصیت سے قطبین سے باہر موجود دنیا کا سب سے بڑا گلیشئرسیاچن( 72کلومیٹر) ، ہسپار (61کلومیٹر( ، بائیفو(60کلومیٹر)، بلتورو(60کلومیٹر)، باٹورہ (64کلومیٹر )قابل ذکر ہیں۔

POST 1

پاکستان کے میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کا سب سے بڑاذریعہ ان شمالی پہاڑوں میں موجود برف سے بہنے والا پانی ہے اسی طرح ان شمالی علاقوں میں بڑی بڑی قدرتی جھلیں بھی موجود ہیں جن میں جھیل دشیوسار دیوسائی ، سکردو کی سد پارہ جھیل، سکردو ہی کی  شنگریلا ، بالائی ہنزہ کی بوریتھ، استور کے قریب رامہ جھیل، جھیل شندورچترال، چترال اور واخان کی سرحد پر واقع قرمبور جھیل نمایاں ہیں۔ اسی طرح چترال بھی ہندوکش کے بلندوبالا چوٹیوں کے درمیان واقع ہے ہندوکش کی سب سے بلند ترین چوٹی تریچمیر (25261فٹ) ضلع چترال کے بالکل وسط میں واقع ہے اور پوری چترال سے اس کا نظارہ کیاجاتاہے اپنی شایان شان وجاہت کے اعتبار سے اس چوٹی کا اثر چترال کی ثقافت پر انتہائی گہرا پڑا ہے چترال اور گلگت بلتستان کی لوک کہانیوں اور لوک روایات میں تریچمیر کو پریوں کا مسکن کہاجاتاہے۔

سابق وائسرائے ہند لارڈ کرزن 1894ء میں بروغیل کے راستے چترال میں داخل ہوئے تھے اپنے یادداشتوں میں تریچمیر سے متعلق یوں رقم طراز ہیں کہ یہ پہاڑوں کا شہنشاہ ہے جو تقریباً25,500فٹ اونچا ہے اور ہر سمت سے چترال کی سرزمین کے پس منظر کے طورپر نظروں کو فرحت بخشا ہے اس کی موجودگی کی دھاک نے مقامی باشندوں پر بہت اثر ڈالا ہے ۔(تاریخ چترال کے بکھرے اوراق،ص 171)۔

POST 3

ناروے کی ایک ٹیم نے پہلی مرتبہ 1953ء میں اس چوٹی کو سرکرنے کا کارنامہ سرانجام دیاتھا۔ اس کے ساتھ ہی چترال میں سیاحت اور کوہ پیمائی میں نمایاں ترقی دیکھنے کو ملی ۔البتہ 9/11کے بعد جہاں پاکستان میں سیاحت کا شعبہ روبہ زوال ہوا تو کوہ پیمائی پر بھی قدغن لگ گئی 9/11کے بعد سال 2016ء کے موسم گرما میں ایک مرتبہ پھر فرانسیسی ٹیم نے تریچمیر کوسرکرتے ہوئے سیاحت و کوہ پیمائی کے شعبے میں تبدیلی کی داغ بیل ڈال دی۔

چترال پر موسمی تغیرکے اثرات


تشویش ناک امر یہ ہے کہ اونچے اونچے پہاڑوں میں گھرے ہوئے شمالی خطے بالخصوص چترال تباہ کن موسمی تغیرات کی زد میں ہے چند برس قبل تک جو پہاڑ سالہا سال تک برف کی سفید چادر اوڑھے رہتے تھے اب گرمی اور وقت بے وقت کی بارشوں کے باعث ان پہاڑوں میں موجود برفانی تودے اور گلیشئر پگھل کرختم ہورہے ہیں اوراس کے تباہ کن اثرات وادیٔ چترال پر پڑرہے ہیں۔ آئے روز کے  سیلابوں سے کئی تاریخی علاقے برباد ہوچکے ہیں اس موسمی تبدیلی کا آغاز سن 2000ء کو اس وقت ہوا جب موسم گرما میں بروغل میں برفانی تودہ گرنے سے دریا کا راستہ بند ہوگیا جس کی وجہ سے بیس سے زائد گھرانے بری طرح متاثر ہوئے۔ اس کے بعد موسمی تغیرات کا اگلا ہدف بالائی مستوج کا ایک اورخوبصورت گائوں بریپ بنا۔ گلاف( گلیشئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ) یعنی گلیشئر میں موجود تالاب کے پھٹنے کی وجہ سے آنے والے سیلاب نے بریپ کے بڑے حصے کو نیست ونابود کردیا ابھی ان حادثات کی یاد تازہ ہی تھی کہ سن 2007ء کے موسم گرما میں ایک اور تاریخی اور رومانوی گائوں سنوغر سیلابی ریلے کی زد میں آیا اور کئی دنوں تک آنے والے متواتر سیلاب نے سنوغر کے دو سو سے زائد گھروں کوملیامیٹ کرکے رکھ دیا اس کے بعد 2009ء میں بونی سیلاب کی زد میں آیا۔ سال 2015ء تو پورے چترال کے لئے قیامت بن کے نمودار ہوا جب مون سون کی بارشوں نے چترال کو ہٹ کیا تو چترال کے مختلف علاقے فلش فلڈ (بارشوں کی وجہ سے آنے والا سیلاب) اورگلاف ( گلیشئر کی وجہ سے آنے والے سیلاب) دونوں کی زد میں آئے ان سیلابی ریلوں نے چترال کے اسی فیصد علاقے کو نقصان پہنچا۔

POST 2

گرچہ عالمی حدت میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے لیکن موسمی تغیرات کے اثرات کے لحاظ سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے۔ خصوصیت سے پاکستان کے شمالی پہاڑی خطوں پر ہردم خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہمارا معاشرہ متاثر ہورہاہے وہیں ہم خود بھی ان موسمی تغیرات اور ان کے تباہ کن اثرات کے ذمہ دار ہے سڑکوں پر چلنے والی بے لگام ٹریفک ہویا جنگلات کی بے دریغ کٹائی یا پھر بکریوں کے بڑے بڑے ریوڑ۔ یہ سب ایسے عوامل ہیں جنہوں  نے پہاڑوں ، گلیشئراورفضا کو متاثر کرنے میں کلیدی کردار اداکیا بے لگام ٹریفک نے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسرے مضر رسان گیسوں کو فضاء میں چھوڑا اس امر نے چترال کی تاریخی لحاظ سے خشک اورسرد آب وہوا کو گرم بنادیا جس کی وجہ سے مون سون کے بادلوں کو چترال کی فضاء میں داخل ہونے کے لئے راہداری ملی اس عمل کو ماہرین ماحولیات مون سون کی منتقلی (مون سون شفٹنگ) کا نام دیتے ہیں ۔چترال کے پہاڑ درختوں اورسبزے سے محروم ہیں یہی وجہ ہے کہ مون سون کی بارشوں کو برداشت نہیں کرسکتے جس کی بنا پر سال 2015کے مون سون کے موسم میں چترال بارشوں اور سیلابی ریلوں سے دوچار ہوا اسی طرح یہاں کے عوام نے جلانے‘ عمارتیں تعمیر کرنے اوربالخصوص بعض بااثر افراد نے جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کی، پہلے سے درختوں کی کمی کا شکارچترال کی پہاڑیاں ٹمبر مافیاز کی بے دردی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوگئے۔

سابق ایم این اے چترال محی الدین کے فرزند او رموجودہ ایم این اے افتخارالدین کے چھوٹے بھائی اور آل پاکستان مسلم لیگ چترال کے صدر خالد پرویز پر کروڑوں روپے کی عمارتی لکڑی بیرونی ملک سمگل کرنے کا الزام ہے جس کی پاداش میں خیبر پختونخواہ کے احتساب کمیشن نے انہیں قید کرکے سات ماہ تک پشاور جھیل میں رکھا تھاتاہم بعد میں انہیں باعزت طورپر رہاکردیا گیا سوال یہ ہے کہ اگر وہ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی میں ملوث نہیں تھے تو کیوں انہیں سات ماہ تک جیل میں رکھا گیا اگر وہ مجرم تھے تو پھرباعزت رہائی کا کیا مطلب ؟ کہیں خیبرپختونخواہ احتساب کمیشن نے بھی نیب کے نقش وقدم پر چل کر پلی بارگینگ تو نہیں کی؟

اس کے علاوہ بھی چترال کے طول وعرض میں قدرتی جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی اور جونیپر جیسی سست رفتار افزائش کرنے والے درختوں کی بیخ کنی ہورہی ہیں جس کی وجہ سے چترال کے پہاڑ اب تقریباً جنگلات سے مکمل طورپر محروم ہوچکے ہیں اس کا اثر آئے روز کی سیلابوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح چترال میں بکریوں کے بڑے بڑے ریوڑ پائے جاتے ہیں ماہرین کے مطابق بکری کے پاؤں سے متھین گیس خارج ہوتا ہے جبکہ  پیشاب میں یورک ایسڈ ہوتا ہے جو کہ زمین پر گرنے کے بعد مٹی کو جلا کر راکھ کردیتا ہے اوران کے پاؤں کے نیچے زمین گردوغبار میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔جونہی بارش ہوتی ہے پانی اس نرم مٹی کو کاٹ کر اپنے ساتھ بہالے جاتا ہے جو کہ تباہ کن سیلابوں کی وجہ بن رہاہے۔

POST 5

اس کے علاوہ اوپر اٹھنے والے گردوغبار اور مٹی کے ذرات گلیشئرز کو پگھلانے میں کلیدی کردار اداکررہے ہیں علاوہ ازیں گلیشئر اور پہاڑوں پر غیر متوازن انسانی حرکات بھی انہیں متاثر کرتی ہے جیسا کہ سیاچن میں موجود پاکستانی اوربھارتی فوجیوں کی حرکت اور ان کی موجودگی سے گلیشئر پگھل رہے ہیں ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پہاڑی خطوں میں بسنے والے لوگوں کو ان پہاڑوں سے متعلق آگاہی نہیں لہذا وہ احتیاطی تدابیر برتنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے پہاڑیاں اورسیاحتی مقامات بری طرح متاثر ہورہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والی نسلوں کو محفوظ خطہ زمین دینے کے لئے آج ہی سے احتیاطی تدابیر اپنائی جائے بصورت دیگر مکمل تباہی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں