قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخواہ میں ضم کرنے کے حوالے سے بحث ومباحثوں کا بازار گرم ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس نے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخواہ میں ضم کرنے کی تجویزدی ہے۔ جس پر تقریبا ساری بڑی سیاسی جماعتیں متفق ہیں ان میں جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف شامل ہے۔البتہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اورپختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اس فیصلے کی مسلسل خلاف ورزی کررہے ہیں ان کا موقف ہے کہ قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخواہ میں ضم کرنے کی صورت میں قبائلیوں کی شناخت مسخ ہوجائے گی۔ لہذا قبائلوں کویا تو اپنے حال پرچھوڑدیا جائے یا پھر الگ صوبے کی حیثیت دی جائے‘ جبکہ یہ مطالبہ بھی ہورہاہے کہ قبائل کے عوام سے ریفرنڈم کروایاجائے۔
اس دوران قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے منتخب عوامی نمائندے جلد ازجلد ان علاقوں کو پختونخواہ میں ضم کرکے وہاں سے ایف سی آر جیسے کالے قانون کے خاتمے کے لئے بھی جدوجہد کررہے ہیں، تاکہ فاٹا کے لوگوں کو بھی قومی دھارے میں لانے اور وہاں انسانی حقوق کی جو سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہے ان کا خاتمہ کیاجائے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے فاٹا کو پختونخواہ میں ضم کرنے کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے البتہ ایک تاثر یہ ہےکہ قبائلی عوام گوکہ سخت مزاج ہے۔ لیکن سیاسی لحاظ سے سیکولر خصوصیات کے مالک ہے شائد مولانا صاحب کا خیال یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں وہ مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کرتے ہوئے صوباَئی حکومت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوں گے لیکن فاٹا کے خیبرپختونخواہ میں انضمام کی صورت میں سیاسی مظہر کے تبدیل ہونے کے امکانات ہے کیونکہ اس خطے میں قوم پرستوں کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کا مضبوط ووٹ بینک موجود ہے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف بھی وہاں اپنی پوزیشن مستحکم بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ اسی خوف کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کی مخالفت کررہے ہیں۔
ایک اور تاثر یہ ہے کہ شائد وفاقی حکومت فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے میں مخلص نہیں کیونکہ اس صورت میں صوبے کا رقبہ نہ صرف بڑھ جائے گابلکہ آبادی میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوگا جو اگر پنجا ب کی برابری نہ بھی کریں تب بھی پنجاب پر اثر انداز ہوسکتاہے یوں مسلم لیگ (ن) اور میاں برادران کو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ سے وفاقی حکومت اپنے دو اتحادیوں یعنی جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونوں کے حقوق کے خود ساختہ علم بردار محمود خان اچکزئی کو بھاری رقم دے کر میدان میں اتارا ہے تاکہ غیر مرئی انداز سے پختونوں کے ذریعے ہی پختونوں کے پاؤں میں کلہاڑا مارا کر ہمیشہ کے لئے لنگڑا کیاجائے، یہی وجہ ہے کہ دونوں سیاست دان مختلف حیلے بہانوں سے قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخواہ میں انضمام کی راہ میں روڑے اٹکارہےہیں۔
ایف سی آر کیا ہے ؟
جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو مختلف علاقوں کے لوگوں کی مزاج کو بھانپتے ہوئے ان کو اپنے زیر کنٹرول رکھنے کے لئے مختلف قوانین کا اجرا کیا ان میں سے ایک ایف سی آر نامی قانون کا نفاذ بھی تھا جو کہ اس دور کے شمال مغربی سرحدی صوبہ (خیبرپختونخواہ)، قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان پرنافذ العمل تھا۔ ایف سی آر یعنی فرنٹیر کرائم ریگولیشن کا نفاذ انگریزوں نے انیس سو ایک عیسوی میں کیا جو کہ بنیادی طورپر بلوچستان، موجودہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات (فاٹا) پر مسلط تھا۔ فاٹا یعنی وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے سات ایجنسیوں یعنی اضلاع پر مشتمل ہیں جن میں سے باجوڑ، مہمند، اورکزئی ایجنسی، خیبر، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان شامل ہے۔ فاٹا کے جنوب مشرق میں خیبرپختونخواہ کاعلاقہ اور شمال مغرب میں افغانستان واقع ہے۔
ایف سی آر کے بنیادی نکات:
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات انتظامی وسیاسی لحاظ سے خیبرپختونخواہ کے گورنر کے زیر کنٹرول ہیں‘ پورے فاٹا پر ایف سی آر نامی قانون لاگو ہے۔ ایف سی آر کی موجودگی میں فاٹا کے عوام مندرجہ ذیل بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے۔
۱: اپیل، وکیل اور دلیل:
فاٹا کی ہر ایجنسی میں اختیارات کااصل منبع پولیٹیکل اور اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ ہوتا ہے جن کے پاس عدلیہ اور انتظامیہ کے لامحدود اختیارات ہوتے ہیں۔اگر فاٹا کے کسی فرد پر پولیٹیکل ایجنٹ کوئی فرد جرم عائد کریں تو اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق نہیں ہوتا نہ ہی ملزم پر الزام ثابت ہونے سے قبل وکیل کرنے اور مکمل ٹرائیل کے بعد فیصلے کا موقع دیا جاتاہے۔ یعنی فاٹا کے رہائشی اپیل ، وکیل اور دلیل کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہوتے ہیں۔
۲: ایف سی آر کلازنمبر ۲۱، مشترکہ سزاکاتصور:
اگر کسی گاؤں، محلہ ، مخصوص علاقہ یا قومیت سے تعلق رکھنے والا فرد کوئی جرم کریں تو اس جرم کی پاداش میں سارے گاؤں، محلہ، یا قومیت کو اجتمامی سزا دی جاتی ہے۔ سزاؤں میں جائیداد سے بے دخلی، املاک کو ضبط کرنا اورگھر بارجلانا شامل ہے۔
۳: ایف سی آر کی رو سے پولیٹیکل ایجنٹ اوراسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ لامحدود انتظامی اورعدالتی اختیارات کے مالک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے قانون کی نفاذ میں شفافیت کا عنصر عموما مشتبہ ہوتاہے کیونکہ سارے انتظامی وعدالتی اختیارات ایک بیوروکریٹ کے سپرد کرتے ہوئے اختیارات کے ناجائز استعمال کوروکنا ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ فاٹا میں بنیادی انسانی حقوق کی ورزیاں روز مرہ کا معمول ہیں۔ پولیٹیکل اور اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ بے انتہا کرپشن اور خرد برد میں ملو ث پائے گئے ہیں۔
۴: ایف سی آر کے مطابق کسی بھی ملزم کے خلاف قبائلی جرگے کے ذریعے فیصلہ سنایا جاتاہے۔جرگہ /کونسل متعلقہ شخص کے خلاف فیصلہ پولیٹیکل ایجنٹ کے سپرد کرتے ہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ اس فیصلہ پر عمل درآمد کا پابند نہیں ہوتااور پولیٹیکل ایجنٹ کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیاجاسکتا۔