The news is by your side.

سیاسی کشمکش اور اندھیرے کے بڑھتے ہوئے سائے

کشمیر کی صورت حال ہویا پھر سابق سفارت کار کی کرامات اور ان پہ حکومتی ردعمل، انکل سام کا بدلا ہوا رویہ ہو یا عزیز از جان دوست چین کے ساتھ منصوبہ جات، ملک کے اندر پھیلی انارکی ہو یا سیاسی شعبدہ بازیاں، پاکستانی قوم اندھیرے میں قدم اُٹھا رہی ہے روشنی مکمل نہیں تو کافی حد تک معدوم ہو چکی ہے یا ہو رہی ہے کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ اندھیرے میں رکھا گیا اگلا قدم کس سمت جائے گا، کس کھائی میں گرائے گا، یا کس پتھر سے ہمارا سامنا کروائے گا ۔ عملاً مملکت خداداد اس وقت غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہو گا ، اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ ہم لاکھ انکار کریں مگرحقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ ہم حافظ سعید صاحب کو بناء کسی واضح ثبوت کے نظر بند کر چکے ہیں۔ کیوں کہ سات اسلامی ممالک پر پابندی سے ہم کچھ خوفزدہ ہو گئے کہ اگر اس لمحے ہم نے کوئی ظاہراً قدم نہ اٹھایا تو اگلا نمبر ہمارا بھی ہو سکتا ہے۔

بے شک اپنے تئیں ہم نے امریکی رویے کے حوالے سے سرکاری سطح پر بیانات بھی داغے ہیں مگر ہم جانتے ہیں کہ ہم صرف بیانات تک محدود رہ سکتے ہیں۔ علاقائی سطح پر ہمارے معاملات بھارت کے ساتھ ازل سے خراب ہیں اور خراب ہی رہیں گے کیوں کہ ہمارا ہمسایہ ان معاملات کو کسی بھی صورت ٹھیک نہیں کرنا چاہے گا کہ پھر وہاں الیکشن جیتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایران کے ساتھ ہمارے معاملات اکثر ڈانواڈول ہی رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے آخری دنوں میں پائپ لائن کے جس منصوبے کو مارکٹ کیا تھا وہ بھی مکمل ہونا عملاً ناممکن ہی نظر آ رہا ہے۔ ان تمام مسائل کے بعد کچھ امید تھی کہ ہم اندرونی طور پر شائد اپنا آپ مضبوط کر لیں۔ مگر ایسا نہ ہو پایا اور پانامہ لیکس گلے کی وہ ہڈی بنا ہوا ہے جو نہ نگلنے سے جاں خلاصی ہو رہی ہے نہ اگلنے سے جان چھوٹتی نظر آ رہی ہے۔ اور ملک سیاسی سطح پر بھی ایک اندھیرے کنویں میں تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے جہاں جا بجا کھائیاں بکھری ہوئی ہیں اور ہمیں بناء روشنی کے قدم رکھنا ہے پار ہوئے تو خوش قسمت ورنہ دھڑام کی آواز بھی نہیں آئے گی۔

بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے اور پوری دنیا میں چاہے وہ ٹریسا مے کی صورت میں ہو ، ٹرمپ کی صورت ، مودی کی صورت یا پھر فرانس و جرمنی میں بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال پوری دنیا میں شدت پسندانہ سوچ رکھنے والے عناصر حنان اقتدار سنبھالتے نظر آ رہے ہیں اور تمام عالمی طاقتیں اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں اس کا عندیہ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات اور ان کے دور صدارت کے پہلے ڈرون حملے سے ہو چکا ہے۔ ٹریسا مے کے اقدامات بھی اس کا پارٹ ٹو بن سکتے ہیں۔ مودی کی پالیسی پہلے ہی ایک واضح سمت میں ہے ۔

ان حالات میں ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ پانامہ لیکس نے جہاں ایک طرف انصاف کا بول بالا کیا ہے وہاں سیاسی طور پر پاکستان کو ایک شدید خطرے سے دوچار بھی کر دیا ہے۔ اس ہنگامہ خیزی کی وجہ سے ن لیگ نہ صرف عوامی اقدامات بروقت نہ کرنے سے خود کو بری الذمہ قرار دے رہی ہے بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی فلاحی اپوزیشن کا کردار یکسر نظر انداز کرچکی ہے۔ اور پاکستان تحریک انصاف جس سے توقع کی جارہی تھی کہ ایک صوبے کی حکومت کو بھی مثالی بنائے گی ۔ عملاً مکمل کامیابی حاصل کرتی نظر نہیں آ رہی۔بلاول طوفانی دوروں سے بھی نہ تو پنجاب کے عوام کو متوجہ کر پائے نہ ہی عمران خان سندھ میں اپنا سکہ جما پائے۔ بلوچستان میں ابھی تک حالات غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔ قوم پرست الگ خدشات کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ مذہبی جماعتی ایک واضح لکیر کھینچنا شروع ہو گئی ہیں۔عمران خان نے اکیلے اگر ن لیگ جیسی جماعت کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں تو اگر عمران کو موقع ملا تو کیا دونوں بڑی جماعتیں انہیں آسانی سے چلنے دے سکتی ہیں؟۔ اس ہنگامہ خیزی میں اگلے انتخابات تک ایک واضح سیاسی بحران سر اٹھاتا نظر آ رہا ہے۔ پارلیمان کے ممبران نے اعلیٰ عدالت تک کو تختۂ مشق بنا لیا ہے ریمارکس حق میں ہوں تو بھنگڑے خلاف ہوں تو غصے بھری پریس کانفرنس ہوتی ہے۔

نواز شریف موجودہ حالات میں پریشانی کا شکار ہیں کہ اقتدار پہ چھایا سیاہ بادل ہٹنے کے آثارنظر نہیں آ رہے لیکن بادی النظر میں ایک بات واضح ہے کہ اگر نواز شریف کو اقتدار سے ہاتھ دھونے بھی پڑھ گئے تو پاکستان میں سیاسی انارکی کم ہونے کے بجائے پھیلے گی کیوں کہ ن لیگ کسی بھی طرح سے ایسی جماعت نہیں ہے کہ خاموشی سے اگلے الیکشن کا انتظار کرے اور جس طرح خان صاحب نے اگلے الیکشن کا انتظار کرنے کے بجائے عدالتی جنگ کو ترجیح دی تو ن لیگ سڑکوں پہ آنے سے کیوں کر رک پائے گی ۔ سیاسی کھینچا تانی وطن عزیز کی ایک مستقل اندھیرے میں دھکیلتی جا رہی ہے۔ ہم بطور قوم اس اندھیرے میں اللہ کے آسرے پر ہی چلے جا رہے ہیں کیوں کہ چاہے حکمران ہوں، سیاستدان، یا عوام کسی کو کچھ پتا نہیں کہ اگلا قدم کس سمت جائے گا۔

عالمی دنیاہم سے یقیناًحافظ سعید کے بعد کچھ اور بھی توقعات رکھے ہوئے ہے مگر ہم سیاسی انارکی سے ہی جان چھڑا نہیں پا رہے اور سونے پہ سہاگہ کہ حکومت صرف چند شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے۔

موجودہ سیاسی صورت حال وطن عزیز کو بہتری کے بجائے اندھیرے کی طرف لے جا رہی ہے۔ بظاہر تو ہمیں نظر آ رہا ہے کہ حکومت وقت سے جواب طلبی ہو رہی ہے مگر حقیقت میں ایک ایسا گھپ اندھیرا چھاتا جا رہا ہے جس میں سے نکلنا مشکل ہوتا جائے گا۔ بات چیت سے پہلوتہی اور تہمت بازی ، گالم گلوچ کا کلچر پروان چڑھا کے ہم اور تو کچھ نہیں کر رہے سوائے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں