محراب اور گنبد نما عمارتوں کو تقریباً سارے مسلمان عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے معاشروں میں عبادت گاہوں کی عمارتیں محرابی اور گنبد نما طرز پر تعمیر کی جاتی ہے عمومی خیال یہ ہے کہ یہ طرز مسلم فن تعمیر کا نمونہ ہے اور ایسی عمارتوں سے متعلق مذہبی عقیدت واحترام کے جذبات پائے جاتے ہیں البتہ اسلامی تہذیب کی عظمت پر گلہ پھاڑ پھاڑ کر تقریرکرنے والے واعظین ہو یا نام نہاد مشرقی تہذیب کی عظمت کے گن گانے والے دانشور کسی کو بھی اپنے معاشروں میں پروان چڑھنے والی ماقبل ازوحدانی تاریخ کا مطالعہ کرنے اور ان قدیم ترین تہذیبوں پر غور کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔
اگر چہ تاریخ عالم کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم آج یونانی تہذیب کی عظمت کے قصیدے بہت پڑھتے ہیں لیکن یونانی تہذیب سے بھی ہزاروں برس قبل وادی دجلہ و فرات، سندھ، بلوچستان، فارس، مصر، ہند، گنگاوجمنا وغیرہ کی وادیوں میں ایسی تہذیبوں کا ظہور ہوا جنہوں نے صدیوں قبل منوں مٹی تلے دبنے کے باوجود اپنے پیچھے لافانی نقوش چھوڑے ہیں۔
ان تہذیبوں نے نہ صرف سب سے پہلے فن خطاطی وفن تحریر ایجاد کرتے ہوئے علم کو محفوظ رکھنے کا بندوبست کیا بلکہ اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں آرام وراحت کے حصول کے لئے مکانات کی نئی طرز تعمیر کی بنیاد رکھی۔ سبط حسن نامور ترقی پسند ادیب ،دانشور اور محقق تھے جنہوں نے تاریخ وسماج پر کئی بیش بہا کتابیں تحریر کی۔ اپنی کتاب ’’ماضی کے مزار‘‘ میں اس حوالے سے یوں روشنی ڈالتے ہیں۔ ’’ وادیٔ دجلہ وفرات کے لوگوں نے کانسہ، سونا ، چاندی اور ادنیٰ درجے کے مصنوعات کے علاوہ فن تعمیر میں بھی بڑی ایجادیں کیں، حالانکہ ان کو نہ پتھر میسر تھا اور نہ ان کے ملک میں عمدہ لکڑی ہوتی تھی ۔ ابتداء میں ان کے جھونپڑے نرسل کی چٹائیوں ہی سے بنتے تھے بلکہ جنوبی عراق میں دیہاتیوں کے گھر اب تک چٹائیوں ہی کے ہوتے ہیں۔ دراصل کھجور اور نرسل کو ان کے گھریلو زندگی میں وہی حیثیت حاصل ہے جو بانس اور ناریل کو مشرقی پاکستان ( بنگلہ دیش) میں حاصل ہے ۔ جنوبی عراقیوں کا طریقہ خانہ سازی یہ ہے کہ وہ پہلے نرسل کی بہت سی شاخوں کو جوڑ کر ان کے گٹھے بناتے تھے یہ گٹھے مخروطی ہوتے تھے ۔پھر گٹھوں کو آمنے سامنے زمین میں گاڑھ کر ان کے مخروطی سروں کو آپس میں باندھ دیاجاتاہے اس کی وجہ سے کمان کی شکل محرابی ہوجاتی ہے ۔جتنی لمبی جھونپڑی بنانی ہو اس لحاظ سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کئی محرابی گٹھے گاڑ دئیے جاتے ہیں۔ پھر نرسل کے پتلے پتلے گٹھوں سے افقاً باندھ دیاجاتاہے اس طرح ایک سرنگ نما ڈھانچہ تیارہوجاتاہے تب اس ڈھانچے کو نرسل کی چٹائیوں سے منڈھ دیتے ہیں۔
لندن کے برٹش میوزیم میں ہم نے ایک سل پر ایسے ہی ایک مکان کا نقش کندہ دیکھا ہے یہ نقش تقریباً چھ ہزار برس پرانا ہے ۔ اس میں کئی جانور مکان کے دونوں سمت کھڑے ہیں‘‘۔( ماضی کے مزار، سبط حسن، ص 32)۔
محرابی عمارتوں کی تاریخ
ہمارے معاشرے میں محرابی چھتوں پر مشتمل عمارتیں بھی زیادہ نامانوس نہیں البتہ پاکستان کے بعض شمالی پہاڑی علاقوں جیسا چترال اورگلگت بلتستان وغیرہ میں ٹن کے پرتوں سے قدیم محرابی چھتوں کی طرز پر جدید عمارت سازی کا رجحان کافی مقبول ہے محرابی عمارتوں کے تعمیر کی وجہ یہ تھی کہ بارشوں کا پانی چھت پرجمع نہ رہے۔ استاد سبط حسن محرابی عمارتوں کی تاریخ کویوں بیان کرتے ہیں’’ اہل عراق نے فن تعمیر میں جوکمال حاصل کیااس کی نظیر مشکل سے ملے گی ۔ مثلاً محراب، گنبد اور ستون جن کے سہارے متمدن دنیا نے اپنے قصد وایوان تعمیر کئے قدیم عراقیوں ہی کی ایجاد ہیں ۔ اورلطف یہ ہے کہ ان سب کی بنیاد وہ نرسل کا جھونپڑا ہے جسے فن تعمیر کے اصول سے ناواقف خانہ بدوشوں نے ہزاروں سال پیشتر اپنا سر چھپانے کے لئے بنایاتھا۔
بات دراصل یہ ہے کہ نرسل کے گٹھوں ، گچھوں اور چٹائیوں کی قدرتی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس سے محراب، گنبد اور ستون خودبخود بن جاتے ہیں ۔ نرسل کی کمانیوں کو جھکاؤتو محراب بن جاتی ہے اورجھونپڑی محراب دار سرنگ کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔محرابی ہونے کی وجہ سے چھت پر پانی بھی نہیں ٹہر سکتا۔ اس طرح ابتداء میں محراب کی ایجادہوئی چنانچہ سب سے قدیم محرابیں عراق کے پرانے کھنڈروں ہی میں ملی ہیں۔ مثلاً شہر نیفر کی زمین دوزنالی کی محراب جو کچی اینٹوں سے بنی ہے۔ شہر اُر کے ایک شاہی مقبرے کا دروازہ بھی محرابی ہے اس محراب کی جڑائی پکی اینٹوں سے ہوئی ہے شہر لارسا کے ایک مکان میں بھی ایک محرابی دروازہ ملا ہے جو پکی اینٹوں سے بنا ہے اور اُر میں کسدی دور کے ایک معبد میں پندرھویں صدی قبل مسیح کی ایک پکی محراب موجود ہے اس محراب کی جڑائی رال سے ہوئی ہے ‘‘۔(ماضی کے مزار، سبط حسن ،ص33)۔
گنبدنما عمارتیں‘ فن تعمیر کا شاہکار
مسلمان اکثریتی معاشروں میں گنبد نما عمارتوں کا رواج بھی عام ہے بالخصوص پرانی عمارتیں تو ساری اسی طرز پر تعمیرشدہ ہیں گنبد نماعمارتوں کو ان کی ساخت اور مضبوطی کے اعتبار سے فن تعمیر کا شاہکار نمونہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا ہماری ثقافت میں عموماً گنبد نما عمارتیں سرخ مائل رنگت کے ہوتے ہیں جیسا کہ بادشاہی مسجد لاہور، اسلامیہ کالج پشاور وغیرہ ۔ لیکن اس کے علاوہ سفید رنگت کے گنبد نما عمارتوں کی شان کچھ اور ہی نرالی ہے جیسا کہ آگرہ کاتاج محل ۔ان عمارتوں کی ساخت اور طرز تعمیر اپنے اندر انسانی مہارت اور کاریگری کا شاندار نمونہ سموئے ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ قدیم انجینئرنگ کے عظمت کی بھی نشانیاں ہیں، جبکہ جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات سے نامانوس اس زمانے کے کاریگر وں نے تخلیقی صلاحیتوں کے ایسے جوہر دیکھائے ہیں کہ بندہ انہیں دیکھ اور سوچ کر دنگ رہ جاتاہے۔
گنبد نما عمارتوں کی بنیاد بھی سب سے پہلے سرزمین عراق میں رکھی گئی ۔ اس سرزمین نے زمانہ قدیم سے اپنے سینے میں دنیا کے عظیم تہذیبوں کو پروان چڑھایا ہے گنبد نما عمارتوں کی تاریخ سے متعلق استاد سبط حسن یوں رقم طراز ہے ’’گنبد کی ا یجاد بھی عراق کے قدرتی حالات تھے مکان بنانے کے لئے جس قسم کی لکڑی درکارہوتی ہے دجلہ وفرات کی وادی اس سے خالی ہے لامحالہ گنبد چونکہ اندر سے کھوکھلا اور اونچا ہوتاہے اس لئے گنبد نما عمارت گرمیوں میں ٹھنڈی رہتی ہے اوردیکھنے میں بھی اچھی معلوم ہوتی ہے۔ اُر کی کھدائی میں 27سو قبل مسیح کا ایک مقبرہ ملا ہے جس میں ایک گنبد اب تک صیحح سلامت ہے۔ غالباً یہ دنیا کا سب سے پرانا گنبد ہے اس گنبد کو پتھر کے ٹکڑوں اور مٹی کے گارے سے بھرا گیا ہے اسی طرح اُر کے زیگورات کی چھت پر ایک گنبد دارخوص ملا ہے یہ گنبد سلطان اُرنمو (1250ق۔م) نے بنوایا تھا اس گنبد کی جڑائی اینٹوں سے ہوئی ہے ‘‘( ماضی کے مزار، ص33)۔
عمارت سازی میں ستونوں کے استعمال کی تاریخ
کئی برسوں تک ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیمیں عراق میں کھدائی کرتے ہوئے محرابی اور گنبد نما عمارتیں دریافت کرتے رہے ان دریافتوں سے یہ بات ثابت ہوتی رہی کہ چونکہ سرزمین عراق میں لکڑی کی عدم فراہمی کی بنا پر یہاں عمارت سازی میں ستونوں کا استعمال سرے سے ہواہی نہیں ۔ ان ماہرین کا خیال تھا کہ ستون بنانے کے لئے لکڑی نہ ملنے کی وجہ سے یہاں کے باشندوں نے عمارت سازی میں دوسرے حربوں کو بروئے کار لائے۔یہ تصور اتنا راسخ ہوچکا تھا کہ جب کسی ماہر آثارقدیمہ کی جانب سے عراق میں ستونوں پر مشتمل عمارت دریافت کرنے کا دعویٰ سامنے آیا تو ان کا خوب مذاق اڑایاگیا حالانکہ اسی سرزمین میں کھجور کے لمبی لمبی درخت موجود تھی جن کے انسانی نفسیات اور فن پر اثرات یقینی تھے۔
استاد سبط حسن اس امر کو یوں بیان کرتے ہیں ’’ کچھ عرصہ پہلے تک ماہرین آثار کا خیال تھا کہ وادی دجلہ وفرات کے قدیم باشندے ستون بنانا نہیں جانتے تھے یہ خیال اتنا پختہ ہوگیا تھا کہ جب کسی ماہر آثار نے نیفر کے مقام پر پندرھویں صدی قبل مسیح کی ایک ایسی عمارت دریافت کی جس کے بڑے کمرے میں ستونوں کی دورویہ قطار کھڑی تھی تو علماء آثار نے اس دعوے کی تردید کردی ۔ اور اس کا خوب خوب مذاق اڑایا ۔ ان کی کتابوں میں یہی لکھا تھا کہ اس خطے میں ستونوں کا رواج تیسری صدی قبل مسیح میں یونانی فتوحات کے بعد شروع ہوا ۔ حالانکہ جس ملک میں قدرت خود کھجور کے سڈل ستون فراہم کرتی ہو وہاں ستونوں کا استعمال حیرت انگیز بات نہیں۔ پھر ایسا ہوا کہ اس قسم کے ستون مختلف مقامات پر برآمد ہونے لگے ۔ مثلاً اِرک میں تین ہزار قبل مسیح کے کئی بڑے بڑے ستوں دریافت ہوئے ان ستونوں کی موٹائی سا ت آٹھ فیٹ تھی ۔ یہ ستون کچی اینٹوں کے تھے ۔ اور ان پر کاشی کے نہایت خوبصورت نقش ونگار بنے تھے ۔ ایسے ہی کئی ستون کیش میں برآمد ہوئے اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ العبید کے چھوٹے چھوٹے معبد میں کھجور کے تنوں کے قدرتی ستون پائے گئے ۔ ان ستونوں پر تانبے کی چادر چڑھی ہوئی تھی ان ستونوں کو بادشاہ ’آنی یاددا‘‘ نے 27سو قبل مسیح میں بنوایا تھا تب دنیا کو معلوم ہوا کہ ستون دراصل کھجور کے تنوں کی نقل ہیں اور ستون کا استعمال سب سے پہلے عراق ہی میں ہواتھا نہ کہ یونان میں ‘‘۔( ماضی کے مزار ، سبط حسن ،ص 33-34)۔
وسط ایشیائی طرز تعمیر
وسطی ایشیا کے لوگوں نے خطے کی مخصوص صورتحال کے مطابق فن تعمیر کو فروع دیا ۔ یہاں کے قدیم عمارتیں نہ صرف فن تعمیر کا شاہکار ہیں بلکہ ان میں تخلیق کاری بھی کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہے ۔ خاص کر وسطی ایشیائی طرز تعمیر کا گھر جو باہر سے گنبد نما اور محرابی اصولوں کی نقل معلوم ہوتی ہے ۔ اس طرز تعمیر میں گھروں کی چھت سات ستونوں اوردو شہتیروں پر مشتمل ہوتی ہےجبکہ چھت میں لکڑیوں کو مخصوص طرز پر ایسے انداز سے پیوست کرکے ایک دوسرے کے اوپر اسٹپ بائی اسٹپ چھت بنایا جاتا ہے۔ یہ گھر نہ صرف فن تعمیر کا شاہکار ہے بلکہ ماہرین کے مطابق یہ گھر زلزلہ پروف بھی ہے۔ ہنزہ میں التت اور بلتت نام کے دوقلعے موجود ہے ، قلعہ التت کی عمر تقریباً گیارہ سو برس جبکہ بلتت کی عمر سات سو سال ہے ۔ دونوں قلعے اونچی چوٹی پر واقع ہیں اور عموماً تین منزلوں پرمحیط ہے۔ اکثر کمرے وسطی ایشیائی طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہیں۔
اس دور کے کاریگروں کو داد دئیے بغیر رہانہیں جاسکتا کیونکہ انتہائی نامساعد حالات اور آلات واوزار کی غیر موجودگی کے باؤجود انہوں نے ایسی عظیم عمارتیں تعمیر کی جو سینکڑوں برسوں تک نہ صرف اپناوجود برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ اگلے کئی سو برسوں تک مزید اپنی موجودگی برقرار رکھ سکتے ہیں ۔ یہی حال قلعہ بلتت کابھی ہے جس کی عمر سات سو برس ہے تین منزلوں پر مشتمل یہ قلعہ مٹی کے گارلے اور لکڑیوں سے بنائے گئے ہیں۔
اس خطے نے انتہائی نامساعد حالات، ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی اور علوم سے ناواقف ہونے کے باؤجود فن تعمیر میں جو کارنامے سرانجام دئیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ جدید دور میں ہرقسم کی سہولیات سے لیس ہمارے انجینئر وں کی تعمیر کردہ عمارتین زلزلے کے معمولی جھٹکوں کی تاب نہیں لاتیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم کے ماہرین اپنے علاقے کی طبعی حالات سے باخبر تھے جس کی وجہ سے اس دور میں فن تعمیر کا بہترین نمونہ تخلیق کیاگیا اس کے برعکس دورِحاضر کے انجینئر جدید علوم اور سہولیات سے تو لیس ہیں لیکن ان کے پاس اپنے معاشروں کی صورتحال سے متعلق علم نہیں ۔ آج کاماہر تعمیرات کتابوں میں یورپ وامریکہ کے فنون پڑھتے ہیں جبکہ اپنے معاشروں کے گنبد نما، محرابی یا پھر دوسرے قدیم طرز تعمیر کا انہیں کچھ اندازہ نہیں اور یورپ کی طرز تعمیر یہاں کامیاب نہیں ہوتی جس کی بناپر جدید کنکریٹ کی عمارتیں چند سالوں میں بوسیدہ ہوجاتی ہیں البتہ قدیم عمارتیں کسی بھی موسمی وطبعی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوتیں۔