The news is by your side.

پاک افغان تعلقات اوربھارتی دخل درمخولات

پاک افغان تعلقات گزشتہ دو دہائیوں سے کشیدہ ہیں۔ اور اِن کشیدہ تعلقات کے پسِ پردہ ڈیورنڈ لائن، 1978 کی اور موجودہ افغان جنگ، افغان مہاجرین کا مسئلہ، طالبان شورش، باڈر پر ہونے والی جھڑپیں اور پانی سے متعلقہ مسائل کے علاوہ افغانستان اور بھارت کے مابین بڑھتی قربتوں جیسے عوامل مضمر ہیں۔مگر پھر بھی دونوں ممالک (پاکستان اور افغانستان) دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے کی غرض سےکوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جن میں دفاعی تعاون اور خفیہ اطلاعات و معلومات کا تبادلہ شامل ہے۔

بلا شبہ پاک افغان تعلقات میں بتدریج خرابی بھارت کی کارستانیوں کی وجہ سے آرہی ہے، جو کہ افغانستان کو بھی اپنی ڈگر پر چلانا چاہتا ہے۔  مگر یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ بھارت بالکل بھی افغانستان کے ساتھ مخلص نہیں۔ بلکہ وہ افغانستان کو پاکستان مخالف شہہ اپنے ملک کے قومی مفاد میں دےرہا ہے۔ فی الحال بھارت کی یہ سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ پاکستان کی مشرقی  سرحد کی طرح مغربی سرحد پر بھی ایک مستقل خطرہ پیدا کردے، جس میں کسی حد تک وہ کامیاب ہوتا بھی دکھائی دے رہا ہے۔ کیونکہ ہمارا برادر ملک افغانستان جس کا ہر مشکل گھڑی میں پاکستان نے ساتھ دیا اورجس کی تمام ترتجارت تک پاکستان کے راستے ہوتی ہے۔ وہ بھارت کی چالاکیوں کو سمجھنے سے نہ صرف قاصر معلوم ہوتا ہے بلکہ سونے پر سہاگہ یہ کہ اَب وہ بھارت کی بھاشا بھی بولنے لگا ہے۔  یاد رہے کہ سنہ 2011 میں افغانستان اور بھارت کے درمیان ’اسٹریٹیجک پارٹنر شپ‘ کا معاہدہ باقاعدہ طور پرطے پایا۔ اور ایسے میں دونوں مالک کے مابین پیار کی پینگیں پروان چڑھنے لگیں۔ پاکستان کو اِن کی بڑھتی قربتوں سے کوئی مسئلہ نہیں بشرطیکہ دونوں ممالک پاکستان میں بدامنی پھیلانے والوں کو اِسپانسر کرنا چھوڑ دیں۔

تاہم افغان مسئلے کو سمجھنے کے لئے تھوڑی سی سمجھ اس جغرافیائی حقیقت کی بھی ہونی چاہیے جو کہ دونوں ممالک کے مابین ایک سماجی مشکل” کے طور پرحائل ہے۔ جس کی وجہ سے  پاکافغان باڈر مستقل طور پر بند کرنا پاکستان کے لئے ہرگزممکن نہیں اورجو تلخ حقیقت ماضی میں بھی “پختونستان”  کے نعرے کی بنیاد بنتی رہی ہے۔  اوروہ ہے جنوبی اور مشرقی افغانستان میں پٹھان قومیت کی اکثریت جو کہ نسلی افغانی ہیں اور پاکستان کے اِس سے ملحقہ علاقے جہاں پٹھانوں کی اکثریت ہے اُن میں خیبر پختونخواہ، فاٹا اور شمالی بلوچستان مشمول ہیں۔

اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ممالک کے (اِس پٹھان  قومیت سے تعلق رکھنے والے) افرادکے بیچ اہم اور گہرے جذباتی اور خونی رشتے  صدیوں سے استوار ہیں۔اور ہمارا شاطردشمن بھارت اور اُس کی پلید ارادے رکھنے والی ایجنسی راء یہی “پختون کارڈ” کھیلتی ہوئی،گزشتہ دنوں ہمیں ہماری سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر نظر آئی۔ جس کے  تحت وہ “اینٹی پختون کمپین” چلا کر (ایک مخصوص قومیت کی بنیاد پر) پاکستان کو ایک نئی اندرونی  جنگ میں اُلجھانا  چاہتی تھی۔ مگر اُس کی اِس چال کو بَروقت کاروائی کر کے پاکستان نے ناکام بنا دیا۔

ایک سوچ کے مطابق پاکستان کے اندر بَد امنی کے بیج  افغان مہاجرین کے ذریعے بھی بوئے جاتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان نے روز اول سے ہی اپنے ملک کے اندر اِن کی نقل و حرکت پر کبھی کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ جس کی وجہ سے وہ مکمل آزادی سے پُورے ملک میں گھوم پھر سکتے تھے۔ حتٰی کہ وہ یہاں جائیدادیں بناتے رہے، پُورے کے پُورے بازار اُنہوں نے خرید لیے، شادیاں کیں، مگر پاکستان  کے اعلٰی حکومتی ایوانوں میں کسی کی بھی آنکھ نہیں کُھلی۔ ایسی ہی ایک مثال  ضلع چکوال کی ایک تحصیل چوآہ سیدن شاہ کی بھی ہے، جہاں مقامی آبادی کم اور افغانی مہاجرین زیادہ نظر آتے ہیں۔ ایسی گھمبیر صورتحال کے پیشِ نظر، اَب پاکستان کا اِن مہاجرین کی پُر امن واپسی کے متعلق سوچنا بالکل غلط نہیں ہوگا۔

یو این ایچ سی آر کی 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک اعشاریہ تین ملین رجسٹرڈ افغان مہاجرین پاکستان میں بستے ہیں۔ جس کے مطابق کے پی کے میں(81 فیصد)، پنجاب میں( 10 فیصد)، بلوچستان میں(7 فیصد) اور سندھ میں (1 فیصد) افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔بلاشبہ اِتنی بڑی تعدادمیں مہاجرین کی افغانستان واپسی کے لئے ’’پُرامن منتقلی‘‘ پاکستان کے لئے بھی کسی بڑےچیلنج سے کم نہیں  ہو گی ۔

علاوہ ازیں، پاکستان میں پانی کا مسئلہ بھی آیندہ آنے والے چند دنوں میں مزید سر اُٹھاتا دیکھائی دے رہا ہے۔ تربیلا اور منگلا ڈیمز حالیہ خبروں کے مطابق ’’ڈید لیول‘‘ پر پہنچ چکے ہیں۔ جس کی یقینی وجہ ایک تو  بھارت کی سندھ طاس کے عالمی معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں ہیں اور پھر پاکستان کا اِس پر مسلسل چپ کا روزہ رکھے رہنا ہے اور دوسری وجہ آبی ذخائر بنانےمیں پاکستان کی عدم دلچسپی ہے۔  مگر یہ بات بالکل عیاں ہے کہ مستقبلِ قریب میں پاکستان کو اِس ضمن میں بھی کافی کٹھن مراحل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔  کیونکہ افغانستان بھی بھارت کے ساتھ ملکر تقریباً بارہ چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس سے افغانستان سے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں میں بھی پانی کا بہاؤ کافی کم ہو جائے گا ۔ دریائے کابُل اس سلسلے میں خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

نجانے کیوں؟پاکستان میں جتنے بھی بم دھماکے ہوتے ہیں اُسکے تانے بانے افغانستان سے جا کر ہی ملتے ہیں۔ پاکستان نے حالیہ ٹیرر ویو یعنی دہشت گردی کی لہر کے تناظر میں بھی تقریباً 76 دہشت گردوں پر مبنی ایک لسٹ افغان سفارتخانے کے حُکام کے ہاتھوں میں پھر سے تھمائی ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ اَب اُس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ “جماعت الحرار” جو پاکستان میں متعددبم اور خود کُش دھماکوں میں ملوث پائی جاتی رہی ہے۔ اور تاحال وہ افغانستان سے پاکستان کے خلاف سَر گرمِ عمل ہے۔ اُس کے خلاف بھی افغانستان نے کوئی قابلِ ذکر یا خاطر خواہ کاروائی ابھی تک پاکستان کے بارہا اصرار کے باوجود نہیں کی۔

علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی ہمارے حکمرانوں کا منہ چڑا رہی ہے کہ اے پی ایس سکول پشاور میں ڈیرھ سو سے زائد معصوم بچوں کو خون میں نہلانے والا درندہ صفت انسان “مُلا فضل اللہ” افغانستان میں دنداناتا پھرتا ہے۔ مگر عجیب سی بات تو یہ ہے کہ اُسے اور اُس کے مبینہ ٹھکانوں کو کوئی بھی امریکی ڈرون نشانہ نہیں بناتا معلوم نہیں کیوں؟

بلاشبہ جب تک افغانستان اِن شرپسندانہ سرگرمیوں کے لئے استعمال ہونے والی ’’فنڈنگ کے ذرائع‘‘ پر مکمل  طور پرقابو نہیں پا لیتا تب تک وہ دہشت گردی کی آماجگاہ بنا رہے گا۔ اِس ضمن میں افغانستان میں دو  قابلِ ذکر ذرائع جو کہ بروئے کار لائے جارہے ہیں اُن میں ایک تو بھارتی راء کی فنڈنگ ہے اور دوسرا بڑا ذریعہ ’’ڈرگ منی‘‘ ہے ۔

حالیہ افغان شورش کے لئے فنڈنگ ’’افیون کی پیداوار‘‘ سے ہی کی جارہی ہے۔ جو کہ اسلحے کی خریداری سے لے کر دہشت گردوں کی تربیت سازی اور اِن کے لئےزمینی حمایت خریدنے تک ،تمام غیر قانونی کاموں میں استعمال ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2001 میں افغانستان دنیا میں افیون کی کُل پیداواری صلاحیت کا 11 فیصد مہیا کرتا تھا۔ اور اب یہ بڑھ کرگلوبل کراپ کا 93 فیصد ہو گیا ہے۔ جو کہ افغانستان کی مجموعی ملکی پیداوار کا نصف بنتا ہے۔ اِس سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہےکہ افغانستان میں ڈرگ منی کتنی وافر مقدار میں موجود ہے جس سے پاکستان میں یکے بعد دیگرے دھماکے کروائے جاتے ہیں۔

المختصر، پاکستان کبھی بھی اپنی مغربی سرحد پر بھی ’’مستقل خطرات‘‘ مول لینے کا حامل نہیں ہو سکتا۔لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ اپنی حکمت عملی بھارت کی طرز پر بدلے۔ بھارتی پروگرامز اگر فارسی زبان میں ڈب ہو کر افغانستان میں چل سکتے ہیں تو پاکستانی پروگرامز کیوں نہیں؟؟ یہ پروپیگنڈا کا دور ہے اور فاتح وہی قرار پاتا ہے جو زیادہ زور سے شور مچاتا ہے کہ میں جیت گیا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں