The news is by your side.

جنرل راحیل شریف کی مقبولیت‘ برینڈ مارکیٹنگ یا حقیقی عوامی پذیرائی

پاکستان میں سول ملٹری تقسیم کی تکرار تواتر سے سننے کو ملتی ہے۔ کوئی داخلی مسئلہ ہو یا خارجہ پالیسی زیر بحث ہو، آپ کو جمہوری حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے یا نہ ہونے کی بازگشت بار بار سنائی دے گی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا ہمارے عسکری اور جمہوری ادارے واقعی ایک دوسرے سے خائف ہیں یا باہمی اعتماد اور اعتبار کی کمی ہے یا بیچ میں موجود کچھ لوگ رائی کا پہاڑ بناکر بد اعتمادی کو ہوا دیتے رہتے ہیں تاکہ ریاستی ستون چپقلش میں مبتلا رہیں اور انہیں اپنا چورن بیچنے کا موقع ملتا رہے۔

ایسی ہی بد گمانی کی دھند پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کے معاملے میں ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ بلاشبہ راحیل شریف پاکستان کے مقبول ترین جنرل اور  سپہ سالار ہیں۔ آپ کے کریڈٹ پر جو کارنامے ہیں ان میں آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن  سر فہرست ہیں۔ گو کہ مذکورہ دونوں آپریشن ابھی مکمل نہیں ہوئے ہیں لیکن جن مشکل ترین حالات میں راحیل شریف کے دور میں ان کا فیصلہ کیا گیا اور جس طرح بہت کم وقت میں ان دونوں آپریشن نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔

جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کے اصولی موقف اور بروقت فیصلوں نے قوم کی نظروں میں ان کا قد بہت بلند کردیا۔ لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کونے کھدروں میں چھپے  چند لوگ سامنے آئے اور سول ملٹری تقسیم  کو مزید  چمکدار نئی پیکنگ میں عوام کو بیچنا شروع کردیا۔ کبھی کہیں سے راحیل شریف پر اراضی کا اسکینڈل بنا تو کبھی انہیں مسلکی بنیاد پر قائم ہونے والے فوجی اتحاد کا سربراہ بنا کر ان کی کردارکشی کی جاتی ہے۔

ہمارے کچھ  نامی گرامی صحافی، اینکر اور کالم نویس  تو  جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کے سب سے بڑے ناقد بن بیٹھے ہیں۔ ان لوگوں نے جنرل صاحب کے دور میں تو کبھی ان کی طرف کوئی انگلی نہیں اٹھائی لیکن  اب نت نئی کہانیاں اپنے ہی زاویے اور نکتہ نظر جس میں پراپیگنڈا اور ایک مخصوص تعصب کا عنصر نمایاں نظر آرہا ہے،  سے بیان کئے جارہے ہیں۔ ان کے بقول راحیل شریف اپنی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے جس کے لئے حکومت اور وزیراعظم تیار نہیں ہوئے لہذٰا طوعاً و کرہاً فوج کے نئے سپہ سالار کا تقرر ہوا جسے قبول کرنا پڑا۔

ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ جنرل صاحب کے  آپریشنز کا ملبہ وزیرستان سے کراچی تک بکھرا پڑا ہے یعنی چونکہ راحیل شریف کے ہوتے ہوئے  آپریشن مکمل نہیں ہوئے اس لئے ابھی بھی ملک میں بدامنی ہے۔ ان کا کمال دیکھئے کہ2014میں ہونیوالے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے بھی راحیل شریف کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے  جنرل صاحب کی عوامی سطح پر پذیرائی کو ادارتی برینڈنگ اور مارکیٹنگ کا  شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

اگر ہم پاکستانیوں کی یادداشت کمزور نہیں ہوئی ہے تویقینناً ہمیں یاد ہوگا کہ دو ڈھائی سال پہلے انتخابی دھاندلی پر ہونیوالا احتجاج ن لیگ کی حکومت کی ناقص حکمت عملی اور نااہلی کے باعث دھرنے میں تبدیل ہوا تھا جس کو قوت ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے کارکنوں پر پنجاب حکومت کی جانب سےکئے گئے طاقت کے غیر ضروری استعمال اور پاگل پن نے فراہم کی تھی۔

فوج اس معاملے میں نہ صرف غیر جانبدار تھی بلکہ  جنرل راحیل شریف نے تو دھرنے کے ڈیڈ لاک کو سلجھانے کی کوشش کی تھی ورنہ جس طرح اس وقت حکومت مفلوج ہوئی پڑی تھی،  مارشل لا لگنا یا فوج کے دباؤ پرطاقت کے ایوانوں میں تبدیلی ہونا ہرگز باعث حیرت نہ ہوتا۔ اور اگر ایسا ہوتا تو ہم سب جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس یا ٹی وی ٹاک شوز اسے ہرگزنہ روک پاتے- اس حقیقت کےباوجود سیاست دانوں کے فہم و ادراک کےدیوالیہ پن سے پیدا ہونے والے خالصتاً سیاسی بحران  کو جنرل صاحب پر زبردستی تھوپنا تاریخ مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

پاکستان پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی کا شکار ہے جس کے لئے وقتاً فوقتاً  فوجی آپریشنز کئے جاتے رہے ہیں۔ لیکن ضرب عضب  دہشت گردوں پرایسا کاری وار ثابت ہوا ہے جس  نے ملک میں ہونیوالی  دہشت گردی کوگویا بریک لگادیا۔ یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ شورش زدہ ممالک کئی عشرے لگا کراس مشکل سے نکل پاتے ہیں یا اس کی شدت کم کرپاتے ہیں، جیسے تامل ٹائیگرز کیخلاف سری لنکا کی کامیابی یا آئی آر اے  اور انگلینڈ یا پی کے کے اور ترکی  یا بھارت  میں جاری میزورام، نکسل سمیت  مختلف تحاریک۔ آپ ایسی مثالوں کو ذہن میں رکھیں پھر پاک فوج کے  آپریشنز خصوصاً ضرب عضب کا جائزہ لیں تو آپ اسے سراہے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔

ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ ایسی جنگیں طویل ہوتی ہیں جن میں کامیابی اور ناکامی کے ملے جلے پڑاؤ آتے رہتے ہیں۔ بم دھماکوں  کی حالیہ لہر بھی ایسا ہی ایک پڑاؤ تھی جس کے تحت  دہشت گرد اپنے اکھڑتے قدموں کو پھر سے جما ہوا دکھانے کا تاثر دے رہے تھے لیکن ’رد الفساد‘ نے اس کے آگے بند باندھنا شروع کردیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ضرب عضب ناکام ہوگیا البتہ اس کے ساتھ ہی جو نیشنل ایکشن پلان بنا تھا وہ ضرور حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث سرد خانے کی نظر ہورہا ہے۔

کمزور استغاثہ اور ججز اور گواہان کے عدم تحفظ کے باعث عدلیہ دہشت گردی کے مقدمات کے فیصلے کرنے سے قاصر تھی، فوجی عدالتوں نے اس مسئلہ کو ختم کیا۔ حکومت نے اس ضمن میں اقدامات کرنے تھے تاکہ فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد عدلیہ اپنا مؤثرکردار ادا کرسکے۔ لیکن  ایسا کچھ نہ ہوا الٹا  فوجی عدالتوں پر سیاست شروع کردی گئی ہے۔ یہ غلطی کس کی ہے؟ جواب پورا پاکستان جانتاہے۔

کراچی کے حالات کی سنگیںی کا اندازہ یا تو ملک کے مقتدر حلقوں کو ہوسکتا ہے یا کراچی کے شہریوں کو۔ خوف، عدم تحفظ اور سیاسی مصلحتوں کے شکار اس شہر کو رینجرز نے جس طرح امن دیا ہے، وہ لائق تحسین ہے۔ ہفتے کے چار دن ہڑتال اور بدامنی میں گزارنے والے اہلیان کراچی تین سال پہلے کے حالات یاد کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ آخر ہماری حکومتیں کرتی کیا رہتی ہیں؟ عوام کے جان و مال کا تحفظ ان کی ترجیح کیوں نہیں ہوتی؟

یہ کڑوا سچ ہے کہ پاکستان میں جمہوری ادوار ہمیشہ کمزور رہے ہیں۔ فیصلہ سازی کے فقدان کے باعث ہمیشہ خلا پیدا ہوتا رہا ہے جس کو پر کرنے کیلئے لامحالہ فوج کو کردار ادا کرنا پڑتا ہے اور یہ صرف پاکستان میں نہیں ہوتا ، دنیا کےکسی بھی ملک میں جب بھی کبھی ریاست یا ریاستی مرکز  کمزوری کی طرف بڑھتا ہے تو اسٹیبلشمنٹ آگے بڑھ کر اسے سنبھال لیتی ہے اس لئےاگر پاکستان کا مضبوط ترین ادارہ ہونے کے ناطے فوج کو یہ فرض پورا کرنا پڑتا ہے تو اسے حالات اور واقعات کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیئے۔-

ہمیں یہ بھی مدِ نظر رکھنا چاہیئے کہ پاک فوج ایک انتہائی پیشہ ورانہ  نظم ضبط رکھنے والی فوج ہے جس کا سپہ سالار انفرادی فیصلے نہیں کرتا ۔ جب ہم پاک فوج کے سابق چیف کو بے بنیاد مفروضوں یا الزامات عائد کرکے ہدف تنقید بنارہے ہیں تو گویا اس ادارے کی تمام کارردگی کو کٹہرے میں کھڑا کررہے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب ظاہری اور چھپے ہوئے دونوں طرح کے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی اسی فوج کے افسر اور سپاہی قوم کی خاطر اپنی جان قربان کررہے ہیں۔ ایسا کرکے ہم کہیں پورس کے ہاتھی تونہیں بن رہے۔

دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں یقینناً سول ملٹری بہترین تعلقات کی وجہ سے ملی ہیں۔ حکومت، عوام اور فوج نے مل کر وطن عزیز کو امن دیا ہے۔ ہمیں ایسی ہم آہنگی کو خواہمخواہ کے مرچ مصالحے کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیئے  کیونکہ ایسا کرنے کا نقصان صرف اور صرف ملک کو ہوگا۔

دس  سال سے زائد عرصے سے جنگ کے محاذ پر کھڑی فوج کے سابق سپہ سالار کو  محض سیاست دانوں کی نااہلی پر پردہ ڈالنے کیلئے تنگ نظری کا شکار بنانا ناجائز ہے۔  ہمیں ماننا چاہیئے کہ ہمارے ملک میں جگہ جگہ ناقص منصوبہ بندی اور نااہلیت کا تعفن زدہ ملبہ پڑا ہے- جو بھی اس ملبے میں سے عوام کی بہتری کے لئے ریاستی ذمہ داری کے پرزے کو جھاڑپونچھ کر باہر نکالتا ہے،  عوام اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ ہے پھر بھی اگر یہ مان لیا جائے کہ جنرل صاحب کی مقبولیت واقعی  ادارتی مارکیٹنگ کے باعث تھی تو آئے دن اخبارات میں چھپنے والے اشتہارات اور ٹی وی پر چلنے والی ’پیڈ ایڈورٹائزمنٹ‘ کے ذریعے کی گئی مارکیٹنگ سیاست دانوں کی گرتی ہوئی مقبولیت کو کیوں تقویت نہیں دے پارہی۔ آپ بھی سوچیں میں بھی سوچتی ہوں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں