The news is by your side.

نئے الیکشن میں پرانا مال پھر بکے گا

میلوں ٹھیلوں میں اکثر دوکاندار پرانے مال کو نیا روغن کر کے گاہکوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں، راقم جیسے بیوقوف لوگ اس پرانے مال کو نیا سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ بھولے سے کوئی اندھوں میں کانا راجا اگر پرانے مال پہ سے روغن ہٹا کر پرانا مال دیکھ کر کچھ کہنے کی بھی کوشش کرئے تو اس کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ پرانے مال کو نیا بنا کر بیچنا اب میلوں ٹھیلوں سے ہماری عام زندگی میں شامل ہو گیا ہے ، اور وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان کی سیاست میں یہ رجحان تقویت پانا شروع ہو گیا۔ اور آج حال یہ ہے کہ پرانے گھاگ کھلاڑی پاکستانی عوام کی امنگوں سے کھیلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

دو ہزار تیرہ میں عام انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز لیگ نے وفاق میں حکومت بنائی، پنجاب میں اپنا اقتدار مضبوط کیا، بلوچستان میں قوم پرستوں کے ساتھ مل کر کرسی ء اقتدار پہ قبضہ جمایا۔ گلگت بلتستان میں بھی نواز لیگ کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ صرف صوبہ خیبر پختونخواہ اور سندھ میں اپوزیشن جماعتیں اقتدار کی کرسی حاصل کر پائیں۔ سندھ میں ہمیشہ کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی اور خیبرپختونخواہ میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے والی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے حکومت قائم کی ۔

عام انتخابات کے بعد سے چار سال تمام پارٹیاں اسی طرح آپس میں باہم دست و گریباں سی محسوس ہوئیں جیسے وہ ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ مگر حقیقت میں ان کی لڑائی ویسی ہی رہی کہ ، اب کے مار کے دکھائیو۔ ایوان سے باہر توپوں کے دہانے ایک دوسرے کی طرف کھول دیے جاتے اور ایوان کے اندر ایسے چپ سادھ لی جاتی رہی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ پی ٹی سی ایل پنشنرز کے مسائل، سٹیل مل ملازمین کو تنخواہوں کی عدم فراہمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، غیر معیاری منصوبہ جات، بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی، تعلیم کے مسائل، صحت کی دگرگوں صورتحال، صاف پانی کی فراہمی، نکاسیٔ آب اور اسی طرح کے دیگر بہت سے مسائل کے بجائے اپوزیشن کا سارا دھیان جمہوریت کی مضبوطی پر رہا اور چار سال بعد عقدہ کھلا کہ جمہوریت تو ابھی بھی بہت کچی ہے۔

اپوزیشن کا درجہ پارلیمان میں وفاق کی سطح پر پیپلز پارٹی کو ملا مگر پاکستان تحریک انصاف حقیقی اپوزیشن بن کر ابھری اور پانامہ ایشو سپریم کورٹ تک لے جانا غیر جانبدار تجزیہ کار بھی ان کی کارکردگی گردانتے ہیں۔چار سال تک پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کچی مچی کاکردار ادار کرتے رہے۔ ایوان سے باہر ایسا لگا جیسے آج سب گریباں چاک ہوئے کے ہوئے، اور پارلیمان میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند۔ میثاق لندن کی رو سے اختیارات بانٹنا، باریاں لینا طے غیر اعلانیہ طور پر ہو چکا تھا جس کو تقویت مری معائدے نے دے دی ۔ مگر اس کے باوجود بھولی عوام سمجھتی رہی کہ شاید دونوں پارٹیاں خود کو لگنے والے جھٹکوں سے عقل کے ناخن لے چکی ہیں۔

پہلے پانچ سال پیپلز پارٹی اپنی ہی راہنما کے قاتل پکڑنے میں ناکام رہی تو دوسری جانب نواز لیگ اقتدار کے پہلے چار سال ستو پی کر سوتی رہی ۔ اب جیسے ہی الیکشن کی نوید سننے کو ملی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے سندھ میں محاذ قائم کر لیا ہے۔ دوبارہ سے وہی نعرے سننے کو مل رہے ہیں۔ چار سال سڑکوں پہ گھسیٹنے کے لیے شاید کم تھے اسی لیے اب عوام سے مزید وقت مانگا جا رہا ہے۔

چار سال شاید لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے کم پڑ گئے کہ اب مزید اگلی مدت کی خیرات مانگی جارہی ہے۔ دوسری جانب چار سال میں بھلا کیسے شہر قائد کا کچرا صاف ہو سکتا تھا اسی لیے تو دوبارہ سے کرسی ء اقتدار کی طرف دیکھا جا رہا ہے۔ اب بھلا ایک پنج سالہ وفاق اور مستقل سلسلہ سندھ میں ہوتے ہوئے کہاں ممکن تھا کہ شہید رانی کے قاتلوں کو پکڑا جا سکتا ۔ یہ تو دوبارہ اقتدار ملے تب ہی ممکن ہو پائے گا۔ اور تو اور بھئی اس دفعہ عوام کے سامنے آکسفورڈ اردو بھی ہے تو یقیناًکچھ ہمدردی تو بنتی ہے۔

جو کرپشن چار سال میں نظر نہیں آئی وہ زرداری صاحب کو میاں صاحبان کی نظر آنا شروع ہو گئی ہے اور جو کمیشن چار سال میں چادر اوڑھ کے سو رہا تھا وہ بھی میاں صاحب کو زرداری صاحب کے حوالے سے جاگا ہوا محسوس ہونے لگا ہے۔ پھر مائیک گرائے جائیں گے ۔ پھر تاج پہلے سے ہی پہنائے جا رہے ہیں۔ آپ جناب سے بات دوبارہ سے تو تو میں میں پہ پہنچ چکی ہے۔ مردے جو گاڑھ دیے گئے تھے الیکشن سال میں دوبارہ سے اکھاڑ لیے گئے ہیں۔ ایان بھی یاد آ رہی ہے، ڈاکٹر صاحب بھی ، میمن صاحب بھی نظر آ رہے ہیں اور کچرا بھی ۔ دوسری جانب میٹرو کی کرپشن دوبارہ سے یاد آ رہی ہے اور اپنوں کو نوازنا بھی ، سرکاری عہدوں کی بندر بانٹ بھی دکھ رہی ہے اور وفاق کی زیادتیاں بھی۔

پاکستان کے عوام کو چونا لگانے کی مکمل تیاری کر لی گئی ہے۔ آزمودہ نعرے دوبارہ سے مارکیٹ میں نیا روغن کر کے پھینک دیے گئے ہیں۔ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی وہ زندہ ہی ہے۔ شیر کچھار میں چار سال ویسے ہی گیا تو دوبارہ سے واپس آ گیا ہے۔ مگر حیرت ہے عوام پہ کہ وہ کیسے ایک ہی بل سے باہر باہر ڈسے جاتے ہیں اس کے باوجود سبق حاصل نہیں کرتے۔ تف ہے عوام کی ہمت پہ کہ وہ پرانے نعروں پہ دوبارہ سے بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ بھئی چار سال میں تھکے بھی نہیں عوام داد تو دینی بنتی ہے۔ اور یقیناًدو ہزار اٹھارہ کے انتخابات تک یہ کھینچاتانی بھی جاری رہے گی اور پگڑیاں بھی اچھالی جاتی رہیں گی اس کے بعد فورا سب طوفان تھم جائے گااور رسوا کیے گئے محترم ٹھہریں گے کیوں کہ پاکستان میں ایسا ہوتا آیا ہے اور تبدیلی کے کوئی آثار بھی نہیں ہیں

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں