The news is by your side.

ہندوتوا‘ سیفرون ٹیررازم اوراکھنڈ بھارت کا ٹوٹتا خواب

آئے دن ہمیں بھارت سے ایسی خبریں موصول ہوتی ہیں جن سے پاکستان دشمنی، فرقہ ورارنہ انتہاپسندی اور مذہبی منافرت کی بُو آتی ہے۔ کبھی پاکستان دشمنی سے سرشار بھارتیا جنتا پارٹی کے انتہا پسند رکنِ اسمبلی منگل پربھات لودھا ممبئی میں واقع ’’جناح ہاؤس مسمار کرنے کا منصوبہ‘‘ پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تو کبھی بھارت میں ٹرک ڈرائیور کو گائے ٹرانسپورٹ کرنے کے جُرم میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی صرف گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں کسی مسلمان کو بہیمانہ تشدد کر کے قتل کردیا جاتا ہے۔ کبھی گوشت کی دُکانوں کو بھارت میں نذرِآتش کر نے کی خبریں آتی ہیں تو کبھی بھارت کے راجیہ سبھا (یعنی ایوانِ بالا) میں “تحفظِ گائے کا بل” پیش ہوتا ہے۔ اِس سب سے تو یہی لگتا ہے کہ بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ “گائے کا تحفظ” ہے یا پھر پاکستان دشمنی۔ اور اِس کی قومی ترجیحات میں اقلیتوں اور اُن کے حقوق کے لئے قطعاً کوئی جگہ نہیں۔ اوراِسکی وجہ کہیں نہ کہیں  یقینی طور پر “ہندوتوا کا شدت پسند نظریہ” ہے۔ جو اَب بھارت میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

علاوہ ازیں! بھارت کے اہم ترین قلم دان بھی مسلمان دشمنی کے لئے مشہور، ہندوتوا کے کٹر حامیوں کے پاس ہیں جن میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی، بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت کُمار دیول، بھارت کے ایڈیشنل پرنسپل سیکرٹری پی کے میشرااور پرنسپل سیکرٹری ناریپندرامسرا کے علاوہ بھارتی ریاست اُتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدیتیہ ناتھ  سمیت سب  “انتہا پسند ہندوتوا” کی تھالی کے چٹے پٹے ہیں۔ اِن کے علاوہ بھارتی افواج اور بیوروکریسی میں بھی”ہندوتوا فلسفے” کے پیروکارخاصی تعداد میں موجود ہیں۔

درحقیقت “ہندوتوا” ہے کیا؟ مفکرین کے مطابق نہ تو یہ نظریہ ہے نہ فلسفہ۔ اورنہ یہ کوئی نظامِ زندگی ہے اورنہ ہی کوئی دستور العمل؟ بلکہ یہ صرف ایک ”نعرہ“ ہے ایک ایسا نعرہ جو بھارتی ’’سیکولرازم کے نعرے‘‘ کو سَراسر رد کرتا ہے۔

مگر تحقیق کے میدان میں اِس پر مختلف زاویوں سے پیش رفت ہو رہی ہےاور نیپال سے بھی اِس سوچ کے تانے بانے ملتے معلوم ہوتے ہیں۔اور یہی سوچ سیفرون ٹیررازم کی بھی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔”سیفرون ٹیررازم”(زعفرانی دہشت گردی) کی اصطلاح گزشتہ چند سالوں سے یکے بعد دیگرے پرنٹ اورالیکڑانک میڈیا کی مسلسل زینت بنتی رہی ہے۔ اور یہ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ جیسے نازک نظریے میں بھی کار فرما سمجھی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ اصطلاح ایسےتشدد پسندانہ خیالات و واقعات کے لئے استعمال ہوتی ہے جو’’ہندوتوا‘‘ کے نظریے سے متاثر شدہ ہو۔ ہندوتوا ایک ایسے بھیانک نظریے کا نام ہے جو کہ بھارتی ثقافت کو ہندو مذہب کے آئینے میں متعارف کراتا ہے۔ اورجس سے یقیناً سیکولر بھارت کے نام نہاد نعرے اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔

اِس انتہا پسند نظریے کے تحت ہندو برصغیر پاک وہند ( افغانستان سے انڈونیشیا تک تمام ممالک) کو ہندوؤں کا مادری وطن تصور کرتے ہیں۔ اور بعد ازاں، اِن علاقوں پر مشتمل ہندو ریاست (ہندو رشٹرا) کے قیام کو یقینی بنانے کے علاوہ، سنسکرت زبان کو لازمی مضمون کی حیثیت دلوانے اور گائے کے ذبیحہ پر مکمل پابندی لگانے جیسے دیگر شدت پسند اقدامات اِسی  نظریے میں شامل  سمجھے جاتے ہیں۔اِس نظریےکی بانی تنظیم “راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ” یعنی آر ایس ایس ہے۔ اور یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ برطانوی حکومت کے دور میں اِس پرایک بار اور بعد از آزادی اِس پر تین بار پابندی لگ چکی ہے۔

“سنگھ پریوار” کے بینر تلے ہندوتوا تنظیمیں اور اِنکے نیٹ ورکس اِس ہولناک نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے  مسلسل سرگرمِ عمل ہیں اور اسی لئے سنگھ پریوار میں لگ بھگ باون(52)دہشت گرد تنظیمیں شامل ہیں۔ جن میں آر ایس ایس، بھارتیا جنتا پارٹی، ویشوا ہندو پریشد ، شیو سینا اور بجرنگ ڈل نمایاں ہیں۔ اور اِن سب کی مشترکہ حکمتِ عملی ہے نفرت کا ماحول تیار کرنا۔ لوگوں کو جذبات میں لا کر اشتعال دلانا تاکہ اُن سے سیاسی اور سماجی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ (1969) احمدآباد فسادات، (1979) جمشید پور فسادات، بابری مسجد کے انہدام  کے علاوہ حیدرآباد مکہ مسجد، اجمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکے اِنہی تنظیموں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی کڑی ہیں۔

بلاشبہ،مودی سرکار میں انتہا پسندوں ہندوؤں کی آج اکثریت ہے۔ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کی زندگی یقینی طور پرمُحال کر رکھی ہے۔ ماضی میں بھی اِسکی مثالیں موجود ہیں جب مسلمانوں کو بے رحمی سے کُچلا گیا اور اقوامِ عالم خاموش تماشائی بنی رہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں ہونے والے فسادات(2002ء) مسلمانوں کی کُھلم کُھلا نسل کُشی تھے جس میں تقریباً 2500 سے زائد مسلمان قتل کیے گئے اور سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ مگر مجال ہے کہ کسی ہندو کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی کی گئی ہو۔ حتٰکہ یورپی یونین سمیت تمام عالمی  تنظیموں نے بھی مسلمانوں کی اِس بے رحم نسل کشی پر کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا اور نہ ہی بھارت سے کسی قسم کی کوئی بازپُرس کی۔اور کچھ ایسا ہی طرزِ عمل امریکہ کا بھی تھا۔

اور یہی منفی سوچ اور غیر مساوی رویہ آج نام نہاد سیکولرازم کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھارت میں انتہاپسندی اورلاقانونیت کے راج کی بنیاد  بنتا دیکھائی دے رہا ہے جہاں مسلمانوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے۔ اور مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنے پر مجبور ہیں۔ مگرافسوس کی بات تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی بھارتی ظلم وستم پر چپ سادھے بیٹھی رہتی ہیں۔

بہرحال،متعدد مفکرین اور محقیقین کی رائےیہ بھی ہے کہ جلد ہی یہ ہولناک فلسفہ بھارت کو اپنی آگ کی لپیٹ میں لے کر خاکستر کر دے گا۔اور جو کسی حد تک حقیقت بھی معلوم ہوتا ہے کیونکہ بھارت کی سرزمین تقریباً تیس(30 )سے زائد علحیدگی پسند تحریکوں(مسلح شورشوں) کی لپیٹ میں ہے۔ خالصتان،آسام اورکشمیر کی تحریکیں اپنے سیاسی حقوق کے حصول کے لئے جبکہ ماؤسٹ اور شمال مشرقی ریاستوں (ناگالینڈ،مانیپور،تریپورااور میزورام) کی تحریکیں اپنے سماجی و معاشی حقوق کے حصول کے لئے سرگرمِ عمل ہیں تو لداخ کی تحریک مذہبی بنیاد پر رواں دواں ہے۔ جو مودی سرکار کے حسین خوابوں( یعنی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے حصول )کو چکنا چور کرنے اور بھارت کے وسیع و عریض حجم کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے کافی ہیں۔

+ posts

ایمان ملک نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی میں ’دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے قومی بیانیے‘ پرتحقیق کررہی ہیں‘ بلاگنگ کرتی ہیں اور شعر کہنے کا شغف رکھتی ہیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں