The news is by your side.

پنجاب میں مادری زبان کی بقا کی جدوجہد

     بین الاقوامی زبان، قومی زبان، مادری زبان کی اپنے اپنے دائرہ کارمیں اہمیت کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ صرف پنجاب کی ماں بولی زبان پنجابی کی بات کی جائے تویہ ایک سو تیس ملین لوگوں کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی دس مقبول ترین بولی جانے والیں زبانوں میں نمایاں ہے۔ تقریبا۳۹ فیصد کا تعلق پاکستان اور انڈیا سے ہے جو کہ تقریبا ۶۷ ملین ہیں۔اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے جو آبادی کا ۴۴ فیصد ہیں۔پنجابی زبان یوکے اور کینیڈا سمیت کئی ممالک میں اقلیتوں کی زبان بھی تصور کی جاتی ہے۔علاقائی اعتبار سے یہ کئی لہجوں میں موجود ہے ،جیسے مجھی، پوٹھوہاری، ہندکو اور ملتانی،پہاڑی، دھانی، شاہ پوری، جھنگ گوچی، ریاستی، سرائیکی، ڈوگری، چھاچی، رچناوی وغیرہ، مگر ایک دوسرے سے مناسبت رکھنے کے باعث سب ایک دوسروں کو با آسانی سمجھ لیتے ہیں.

اگر اِس کے فروغ کے حوالے سے بات ہو تو سرحد کے اْس پار توپنجاب میں بسنے والوں نے پنجابی زبان کو دنیا میں ایک مقام دلوایا اوراِسی کے بل بوتے نمایاں شناخت بھی حاصل کی۔مگر سرحد کے اِس پار بابا فرید گنج شکر، حضرت سلطان باہو،بابا بلھے شاہ اور میاں محمد بخش،وارث شاہ کی بولی کے فروغ کے لئے جس دلجمعی ،پیمانے ،انداز اور رفتار سے کام ہونا چاہیے تھا نہ ہو پایا، اس کی ذمہ دار حکومت ہی نہیں ہم بھی ہیں جو ہر مقام ہر سطح پر اُردو زبان کو پنجابی پر ترجیح دیتے ہیں؟مگر اب سوچ میں بڑی برق رفتاری سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور یہ احساس جاگ رہا ہے کہ ہمیں اردو کی طرح پنجابی زبان کے فروغ کے لئے بھی اپنے اپنے حلقے میں اپنے حصے کی کاوشیں ضرور کرنی چاہیے۔ پنجابی اخبارات، رسالے میگزین،ٹی وی چینلز، ریڈیو چینلز ، منعقد ہونے والے پنجابی ادب کی محافل اور پنجابی شعرو ادب سے نوجوانوں کا بڑھتا ہوا رحجان اور لگن گرم و خشک موسم میں کسی خوشگوارخوشبودار ہوا کے ٹھنڈے جھونکے سے کم نہیں۔

ایسے ہی ماں بولی کو حوالے سے گزشتہ دنوں پاکستان پنجابی ادب اور پنجابی پرچار کے تعاون سے پلاک کے زیراہتمام ’’عالمی مادری زبان‘‘ ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا، نامور سکالر اور ایچ ای سی پنجاب کے چیئرمین ڈاکٹر نظام الدین کے زیرصدارت اِس تقریب کی نظامت کی فرائض پلاک کے روح رواں ڈاکٹر صغرا ٰصدف ڈائریکٹر جنرل پلاک نے  بخوبی سرانجام دیئے، اِس شاندار اور یادگارد تقریب میں ادب وثقافت کی معروف شخصیات نے شرکت کرکے مادری زبان سے اپنی محبت کا والہانہ اظہار کیا۔ مقررین میں مشتاق صوفی، مدثر اقبال بٹ، رائے محمد خان ناصر، توحید چٹھہ، اقبال قیصر، ڈاکٹر فاخرہ اعجاز، عامر بٹ، انور چانڈیو، دوست حفیظ چنا، چوہدری عبدالطیف سہواور طارق جٹالہ شامل تھے، بابا نجمی اور حکیم عبدالمجیدنظامی نے ماں بولی کے حوالے سے نظمیں پیش کر خوب دادو تحسین کے حقدار بنے، تیمور افغانی اور فراز نے عارفانہ کلام پیش سماعتوں میں خوب رس گھولا۔

پروین ملک نے اپنے اظہار خیال میں چند سفارشات بھی پیش کیں کہ پنجابی کو لازمی مضمون کے طور پر نصاب کا حصہ بنایا جائے، اور پنجاب کے اخبارات ایک صفحہ پنجابی زبان کے لئے مخصوص کریں ۔دیگر مقررین نے بھی حکومت پنجاب سے مطالبہ کی کہ پنجابی زبان کو پرائمری سطح سے لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے جیسا کہ دوسرے صوبوں میں ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بچوں کو اُن کی مادری زبان میں تعلیم دینا اُن کا بنیادی حق ہے۔جو بہرصورت اُن کو ملنا چاہیے۔ آج کا دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ جو زبانیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں اُن کو بچایا جا سکے کیونکہ ہرزبان حکمت سے لبریز ہوتی ہے اوراُس سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھانا چاہیے، پنجابی زبان کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ اعلیٰ زبانوں کے ادب کا پنجابی میں ترجمہ کیا جائے۔ جب ہم اپنے بچوں کو اُن کی مادری زبان میں تعلیم دیں گے تو معاشرے میں امن محبت اور برداشت کی فضا قائم ہو گئی۔جس کا پرچار ہمارے صوفیاء نے اپنے کلام میں جا بجا کیا ہے ۔ڈائریکٹر جنرل پلاک نے کہا کہ حکومت پنجابی زبان کے فروغ کے لئے مخلص ہے، مختلف سکیموں میں فنڈز فراہم کیے ہیں جس کی وجہ سے ہم ایوراڈز سے ،ڈکشنری پروجیکٹ اور ایف ایم ۹۵ کی نشریات کو ۲۴ گھنٹے کرنے میں کامیاب ہوئے، اُنہوں نے کہا کہ ماں بولی کو لازمی مضمون قرار دینے کے حوالے سے مثبت پیش رفت جاری ہے۔ مقررین نے پنجابی زبان کے حوالے سے پلاک کی کاوشوں کی بھرپور تائید اور تعریف کی ￿۔

اِس موقع پر محکمہ اطلاعات و ثقافت حکومت پنجاب کی جانب سے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر کے زیراہتمام مادری زبان کے فروغ میں کوشاں افراد کی حوصلہ افزائی کیلئے 2,400,000روپے مالیت کے پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ کا اعلان کو بھی کیا گیا۔

پنجابی ادب و ثقافت سے وابستہ شخصیات کی خدمات کو تسلیم کروانے میں صغریٰ صدف کی ذاتی کوششوں سے اِس ایوارڈز اور نقد انعامات کا عملی اقدام بلاشبہ قابل تحسین ہے ۔ خصوصاً سٹوڈنٹس کو اِس دائرہ کار میں لانے سے پنجابی ادب کے فروغ کیلئے نسل نو میں ایک مثبت رحجان پیداہو گا، جس کے دورس نتائج کی توقع ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مادری زبان ثقافت، کلچر، زندگی کے جینے کا ڈھنگ، نسلوں کی وراثت کی امین ہوتی ہے۔ اپنی زبان نہ رہے تو نسلوں کی نسلیں بدل جاتی ہیں،اگر گالی اور خواب ہمیشہ ماں بولی ہی میں دے اور دیکھ سکتے ہیں تو عام زندگی میں کیوں نہیں بول سکتے؟۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تواسے اپنی وال پرشیئر کریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں