The news is by your side.

اسلامی فوجی اتحاد کو درپیش چیلنجز اور پاکستان کا متوقع کردار

اسلامی فوجی اتحاد برائے انسدادِدہشت گردی مسلم دنیا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لئے مسلم حکومتوں کے مابین مذہب و مسلک سے قطع نظربظاہرایک فوجی تعاون اوراشتراک کا معاہدہ ہے۔ جس کے تحت اِن حکومتوں نے فکری، نظریاتی اورابلاغی سطح پردہشت گردی کے خلاف بھرپور کارروائی کا اعادہ کیا ہے۔ ہم سب شدت پسند دولتِ اسلامیہ(داعش) اور دیگر ہم پلہ شر پسند تنظیموں کے مسلم دنیا سے متعلق ناپاک عزائم سے تو واقف ہی ہیں جن سے فوری طور پر نمٹنے کے لئے یہ ملٹری اتحاد وجود میں آیا۔ دی گارڈین اخبار کے مطابق اِس کا مشترکہ آپریشن سنٹر ریاض( سعودی عرب) میں ہوگا۔ اور اِس کے ممبران میں عرب لیگ کے ممالک، براعظم افریقہ کے مسلم ممالک اور متعدد ایشیائی ممالک یعنی پاکستان، بنگلہ دیش اور ملائشیا  شامل ہیں۔ اِن ممالک میں قطر بھی شامل ہے جس کے تعلقات ماضی میں سعودی عرب سے کافی کشیدہ رہے ہیں۔ اَب اومان سمیت دیگر مسلم ممالک کی شمولیت سے مسلم اتحاد کی تعداد  تقریباًاُنتالیس  بتائی جا رہی ہے۔

خیال رہے کہ فوجی اتحاد کا بنیادی مقصد مسلم ممالک کے مابین سلامتی سے متعلقہ اُمور کے حوالےسے تعاون سمیت فوجیوں کی تربیت سازی اور انسداد دہشت گردی کا بیانیہ وضح کرنا ہے۔ اور اِس ضمن میں پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں جنہیں اِس اتحاد کا پہلا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ بلا شبہ جنرل راحیل شریف کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور قابلیت کی ساری دنیا معترف ہے اور دہشت گردی کے خلاف اِن کی کوششیں انتہائی کامیاب گردانی جاتیں ہیں۔ اور یہی بات بطور سربراہ اُن کے انتخاب کا سبب بھی بنی۔جو یقیناً پاکستان کے لئے باعثِ اعزاز ہے۔ جنرل راحیل شریف کو اَب باقاعدہ طور پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے این او سی بھی جاری کر دی گئی ہے اور وہ سعودی عرب روانہ بھی ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ تاحال اِس اسلامی عسکری اتحاد کے خدوخال کچھ واضح نہیں کیے گئے۔ مگر اَب لگتا یہی ہےجنرل راحیل شریف کے باقاعدہ طور پر اِس اتحاد کی کمان سنبھالنے کے بعد بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ اور پاکستانی حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ اس اسلامی فوجی اتحاد کے دائرہ کار اور مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستان کے کردار کا مکمل تعین کرے تاکہ عوام  اور میڈیا میں اِس سے متعلق پائے جانے والے تحفظات کا ازالہ عین وقت پر ممکن ہو سکے۔

مزید براں ،عالمی حمایت حاصل کرنے کیلئےاِس اتحاد کے ایجنڈے میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ یہ عسکری اتحاد اوآئی سی اور اقوام متحدہ کے دہشت گردی سے متعلقہ مندرجات کی روشنی میں کام کرے گا۔ اِس اتحاد کے مقاصد میں لیبیا، عراق، شام، مصر اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں سے متعلق بین الاقوامی اداروں اور طاقتوں میں باہمی تعاون کی فضاء اور اشتراک پیدا کرنا ہے۔ مگر یہاں ایک بات جو توجہ طلب ہے وہ یہ ہےکہ شام میں پاکستان کے متعدد قریبی اتحادی اور دوست ممالک ،سعودی عرب، ایران اور ترکی کے علاوہ امریکہ اور روس ایک دوسرے کے مخالف سرگرم ہیں اور اُس دلدل میں مزید دھنستے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں کیا پاکستان کا اِس اتحاد میں قائدانہ کردار کے ساتھ شامل ہونا درست فیصلہ ہوگا یا نہیں؟ اور کیا پاکستان ماضی کے برعکس اپنی خارجہ پالیسی میں توازن برقرار رکھ پائے گا یا نہیں؟یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب شائد وقت ہی دے پائے گا۔

تاہم، سعودی عرب انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے کافی سنجیدہ دکھائی دے رہاہے کیونکہ داعش نے متعدد بار اِس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے اور اُسےحملوں اور خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی دے چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اِس وقت عراق میں سرگرم داعش میں، سعودی عرب کے اپنے لگ بھگ تین ہزار شہری بھی شامل ہیں  اور یہ گھمبیر صورتحال سعودی عرب کے لئے واقعی کسی خطرے کی گھنٹی  سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں، سعودی عرب کو ایک بڑا خطرہ یمن میں سرگرم القاعدہ کے علاقائی گروپ سے  بھی ہے جو بظاہرتو یمنی ہے مگر اُس کے کمانڈرز میں بھی ایک بڑی تعداد سعودی شہریوں کی بتائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب اپنے چاروں اطراف سے خطرات محسوس کرتا ہے جن میں ایران، القاعدہ اورحوثی باغی، اورعراق میں موجود داعش شامل ہے۔

یاد رہے کہ یہ سب سعودی عرب میں نہ صرف عدم استحکام کے خواہشمند ہیں بلکہ یہ آلِ سعود کے طویل اقتدار کا بھی اَب خاتمہ چاہتے ہیں۔ اور شاید اِسی خطرناک صورتحال کے پیش نظر ہی گزشتہ چند سالوں میں سعودی عرب نے اپنی عسکری قوت میں بھی خاصہ اضافہ کیا ہے اور وہ اَب عرب اقوام میں دوسری بڑی فضائی قوت سمجھا جاتا ہے نیز اُس کے پاس دو لاکھ تربیت یافتہ فوجیوں کے علاوہ تقریباً سوا تین سو لڑاکا طیارے اور اپنا میزائل ڈیفنس سسٹم بھی ہے۔  اور یہ سب یقینی طور پرسعودی عرب کو درپیش خطرات کی غمازی کرتے ہیں جس کے باعث 15دسمبر سنہ 2015کو سعودی حکومت مسلم دنیا میں ایک اسلامی اتحاد کے خیال کے ساتھ سامنے آتی دکھائی دی۔


راحیل شریف سعودی عرب کب اورکیسے گئے


اِس اتحاد پر جو ایک الزام مسلسل دھرا جاتا رہا ہے وہ ہے “سنی مسلم اتحاد” کا۔  کیونکہ اِس میں کسی بھی شیعہ اکثریت والے ملک یعنی ایران ،عراق اور شام وغیرہ کو شامل نہیں  کیا گیا۔ جو اِس اتحاد کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہونے کے علاوہ وسیع پیمانے پر اِس اتحاد کی قبولیت میں رکاوٹ بھی سمجھا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات ضرور غور طلب ہے کہ کئی سنی ممالک بھی اس اتحاد کا حصہ بننے پر شش وپنج کا شکار ہیں جن میں الجزائر سر فہرست ہے جو بذات خود دہشت گردی کا نشانہ بھی ہے پھر بھی وہ اس اتحاد کا حصہ نہیں۔ تاہم واضح رہے کہ اگر اس اتحاد کا ایران حصہ نہیں ہے تب بھی اِس کے کئی قریبی دوست ممالک اِس اتحاد میں شامل ہیں جن میں اومان سر فہرست ہے جو  ایران کا قریبی اتحادی ہے اس کے علاوہ لبنان جسکی نصف آبادی شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور وہ ایران کا دوست ملک ہے اُس نے بھی اس اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دیگر ممالک جنہوں نے اس اتحاد کی تائید کی اور وہ ایران کے دوست ممالک میں سے ہیں اُن میں افغانستان ،بنگلہ دیش، کویت ،لیبیا، پاکستان اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ تاہم ایران اور عراق کی اِس اتحاد سے تاحال دوری میں سعودی عرب اورایران  کے مابین حائل سیاسی کشیدگی ہے جس کےاثرات مستقبل میں بھی شاید اِس اتحاد پر اثر انداز ہوں۔

حال ہی میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے ایران اور سعودی عرب، دونوں سے ہی مثالی تعلقات ہیں اور جن میں ہر صورت میں  توازن برقرار رکھنے کی کو شش کی جائے گی۔ اِس کی ایک صورت تو یہ  بھی بتائی جا رہی  ہے کہ پاکستان پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر فوری عمل درآمد شروع کر دے اور ایران سے بجلی درآمد کرنے کی ایرانی پیشکش کو بھی قبول کر لے اس سے بظاہر دو فائدے ہوں گے ایک تو پاکستان میں موجود توانائی کے حالیہ بحران پر قابو پایا جاسکے گا دوسرا ایرانی حکومت میں پاکستان کے حوالے سے پائے جانیوالے خدشات میں  یقینی طور پر کمی آئے گی۔

یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین فرقوں کی بنیاد پر اختلافات کا خُمیازہ پاکستان ایک عرصے سے (در پردہ جنگ یعنی) “پراکسی وار” کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ مگر اَب مفکر ین اور مفسرین کی جانب سےخدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور پاکستان کے سعودی عرب کی جانب حالیہ جھکاؤ کے نتیجے میں در پردہ جنگ  میں زیادہ شدت آ سکتی ہے جس کے لئے پاکستان کو اِس وقت پیشگی اقدامات لینے کی اشد ضرورت ہے۔ نیز اپنی سوسائٹی میں مزید تقسیم کے فوری تدارک کیلئے پاکستان کو کوئی موثر لائحہ عمل وضع کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کی سوسائٹی جو پہلے ہی سے فرقہ ورانہ بنیادوں پر ایران اور سعودی عرب کے معاملات پر منقسم ہے مزید تقسیم نہ ہو۔

علاوہ ازیں، پاکستان کو اپنی عوام کو اس معاملے پر جذباتی ہونے سے روکنا ہو گا اور بتانا ہو گا کہ ایران بھی اپنے سٹریٹجک مفادات کے عین مطابق فیصلے لیتا ہے مثلاً اُس نے اپنے قومی مفادات کے پیشِ نظر اپنی بندرگاہ(چابھار) بھارتیوں کو دینے کا فیصلہ کیا جہاں سے کلبھوشن جیسے دہشت گرد پاکستان کی اساس کو ہلانے جیسی ہولناک کاروائیوں میں ملوث پائے جاتے رہے ہیں ۔

المختصرِ، قوی اُمیدظاہرکی جارہی ہےکہ یہ اسلامی فوجی اتحاد فرقہ ورانہ اتحاد کی بجائے “اسٹرٹیجک اتحاد” ہو گا۔ قوم یہ بھی اُمید کرتی ہے کہ جنرل راحیل کی قیادت میں ایران اور سعودی عرب میں قربتیں بڑھیں گی اورپاک ایران تعلقات میں کوئی دراڑ نہیں پڑئے گی۔ سب سے بڑاچیلنج جو اِس اتحاد کو مستقبل قریب میں درپیش ہو گا وہ ہے اپنی موثر کارکردگی کے ذریعے ’’اسلامک دہشت گردی‘‘ جیسی دیگر اصطلاحات کا دنیا سے خاتمہ ممکن بنانا جن کی وجہ سے دہشت گردی کو اسلام سے نتھی کیا جاتا  رہاہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں