The news is by your side.

کیا سپریم کورٹ توہین عدالت کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں؟

ستمبر 2015ءکو سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا کہ اردو کوجلد ازجلد سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی فل بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ تمام اداروں میں آئین کے آرٹیکل 251کا نفاذ یقینی بنایا جائے ۔ اردو کو سرکاری اوردفتری زبان قرار دینے کے لئے دو علیحدہ علیحدہ درخواستیں کوکب اقبال ایڈووکیٹ اور محمود اختر نقوی کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں۔ عدالت عظمیٰ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کوبھی آئین کے آرٹیکل 251 پر فوری عمل درآمد کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کا اطلاق ہم سب پر فرض ہے۔یاد رہے کہ 1973 ءکے آئین کی شق نمبر 251 میں کہا گیا ہے کہ آئندہ پندرہ برسوں میں انگریزی زبان کی سرکاری حیثیت کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تاکہ اردو کو مکمل طور پر پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو۔

چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ بھی اردو میں ہی پڑھ کر سنایاتھا


10جولائی 2015ءکووفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم نے اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کا درجہ دینے سے متعلق حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ حکم نامے میں تمام محکموں اور افسر شاہی کوہدایت دی گئی ہے کہ تمام سرکاری احکامات و مراسلے اردو میں جاری کریں اور پہلے سے موجود دستاویزات کو بھی اردو میں ترجمہ کرنے کا بندوبست کیاجائے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ صدر، وزیراعظم اور وزراءاندرون ملک و بیرون اپنے تقاریر اور خطابات اردو میں ہی کریں گے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تقریبا دو برس کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن ابھی تک اردو کو سرکاری زبان کے طورپر رائج کرنے کی نوبت نہیں آئی ۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ تضادات کا مجموعہ ہے پہلے ایک فیصلہ صادر ہوتا ہے پھر اچانک کہیں سے نظر یہ ضرورت سامنے آتا ہے توپہلے فیصلے کے بالکل مخالف فیصلہ دیا جاتا ہے۔ 13فروری 2017ءکو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاطر محمود کی سربراہی میں سنگل رکنی بینچ نے ایڈوکیٹ سیف الرحمن کی پٹیشن پر فیصلہ سنایا کہ 2018ءکے سینٹرل سپیرئیر سروسز ( سی ایس ایس)کا امتحان اردو میں کرنے کا حکم دیا تھا ملک بھرمیں لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو بہت سراہا گیا تھا۔

مارچ 2017ءکو اسی لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اپنے ہی جج کے سابق فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور 2018ءکے سی ایس ایس کے امتحانات کو اردو میں کرنے کا فیصلہ معطل کردیا ۔

اگر عدلیہ جیسے معتبر ادارے کی جانب سے اس قسم کے متضادات فیصلے سامنے آتے رہے تو عام آدمی کا ان سے اعتماد اٹھنا کوئی انہونی بات نہیں۔اسی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان خود اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کے فیصلے کو کئی مرتبہ پامال کرچکی ہے۔ اس سلسلے میں حالیہ مثال لگ بھگ ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل پاناما کیس کا فیصلہ آیا جو نہ صرف انگریزی زبان میں سنایا گیا بلکہ پورا فیصلہ بھی انگریزی ہی میں لکھا گیا ہے۔ بصد احترام سوال یہ ہے کہ کیا ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ اپنے ہی فیصلوں پر عمل نہ کرکے خود توہین عدالت کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں؟؟۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں