ہماری سڑکوں کے کنارے یا اجاڑ پارکوں میں کچھ ایسے افراد نظر آتے ہیں جو بے ہوشی اور نیم بے ہوشی کے عالم میں پڑے ہوتے ہیں (لفظ ’پڑے‘ استعمال کرنے پر معذرت)۔ دراصل یہ لوگ اپنے اطراف میں چلنے پھرنے والوں سے، آس پاس کے ماحول سے ماورا ہوتے ہیں۔ بالکل بے جان چیزوں کی طرح، اسی لیے یہ ’پڑے‘ ہوتے ہیں۔ ہم لوگ انہیں نشے کا عادی یا نشئی کہتے ہیں اور یہ ایسے عادی ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات کا کچھ علم نہیں ہوتا۔ یہ غلاظت میں ہوں یا غلاظت ان پر ہو، کتے بلی ان کے پاس ہوں، یہ بالکل بے خبر رہتے ہیں۔ یہ بہت ہی بیچاروں والی زندگی بسر کرتے نظر آتے ہیں اور زندگی کی ایسی نا قدری پر موت ان سے زندگی چرا لے جاتی ہے۔ یہ لوگ معاشرے کے بے ضرر ترین لوگ کہلائے جاتے ہیں۔
نشہ ہر اس عمل کو کہا جاتا ہے جسے آپ ترک کر کے آرام سے یا اپنے آپ میں نہ رہ سکیں۔ یوں تو ہر شخص ہی کسی نہ کسی ’نشے‘ کی لت میں مبتلا ہے (نشہ بطور اصطلاح استعمال کیا گیا ہے)۔ پاکستان میں ایک ایسا نشہ بھی ہے جو ملک کے خواص کے لیے وقف ہے جسے ہم ’سیاسی نشہ‘ یا ’اختیار اور اقتدار کا نشہ‘ بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ نشے کی وہ حالتیں ہیں جو مختلف نشوں کی آمیزش سے تیار ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے شہرت، شہرت کے ساتھ طاقت، طاقت اپنے ساتھ واہ واہ کہنے والے حواری لاتی ہے اور یہ سب مل کر انسان کو خدا بنانے یا کہلوانے کا شوق پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ یہ نشہ جب بھر پور عروج پر پہنچتا ہے تو انسان کو اقتدار کی ہوس بڑھا دیتا ہے اور پھر اقتدار ملنے پر نشہ اپنا رنگ دکھانا شروع کرتا ہے۔ اس نشہ کے لیے یہ بھی ضروری کہ آپ ہوش میں یا پھر مدہوشی کے عالم میں ہوں، یہ تو آپ سے وہ کچھ کروا دیتا ہے جس کا آپ نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔
پاکستانیوں کو اقتدار کا نشہ بہت بری طرح سے چڑھتا ہے یا پھر کسی بھوت پریت کی طرح چمٹتا ہے۔ اس نشے میں مبتلا لوگوں کو انسان، انسان نہیں دکھائی دیتے۔ یہ لوگوں کو کیڑے مکوڑے یا کسی ریوڑ سے زیادہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ نشے کی حالت میں انسان وہی دیکھتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں بے روزگاری ہے، جہالت اپنی حدوں کو چھو رہی ہے (پڑھے لکھے جاہلوں کی کمی بھی نہیں)، لوگ اپنے ہی جیسے لوگوں کو کسی بات کو وجہ بنا کر بہیمانہ تشدد کر کے قتل کر رہے ہیں اور تو اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی بھی کی جارہی ہے۔ یہاں کسی مجرم کو تو سزا نہیں ملتی بلکہ ان کی زندگیوں کو خطرہ ہو تو یہ جیلوں میں بطور محفوظ ترین پناہ گاہ کے طور پر وقت گزارتے ہیں۔
ہم جھوٹ بولتے ہیں، بے وجہ جھوٹ بولتے اور اس بھرپور اور پر اعتماد طریقے سے بولتے ہیں کہ سچ بولنے والا شرمندہ ہوا جاتا ہے۔ ہم نے جرم کو جرم سمجھنا چھوڑ دیا ہے، ہم نے گناہ کو گناہ کہنا چھوڑ دیا ہے۔ عورت کو جتنے حقوق دیے جا رہے ہیں اتنا ہی اس کی عزت کو پامال کیا جا رہا ہے۔ لکھتے لکھتے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے اسلام سے پہلے دنیا کے حالات لکھ رہا ہوں، ہمارے پیارے نبی کی بعثت سے پہلے کا دور، دور جاہلیت چل رہا ہے۔
ہم اقتدار اور اختیار کے نشے میں اتنے دھت ہیں کہ موٹر سائیکل والا سائیکل والے کو کسی خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے، گاڑی والا موٹر سائیکل والے کو کچھ نہیں سمجھتا۔ اسی طرح سے آگے بڑھتے جائیں۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کسی دفتر کا خصوصی طور پر سرکاری دفتر کا چپڑاسی اپنے دروازہ کھولنے کے اختیار کو ہی اقتدار سمجھتا ہے اور سیدھے منہ بات کرنا گوارہ نہیں کرتا۔ ٹھیلے والا بھی اپنے ٹھیلے کو اپنا اختیار سمجھتا ہے اور مقتدر کی طرح گاہکوں سے رعایا کی طرح برتاؤ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جس کو اقتدار مل گیا اس نے اختیار کا بے دریغ استعمال کرنا شروع کردیا اور جسے اختیار مل گیا اس نے یہ سمجھ لیا کہ اقتدار بھی میرا ہی ہے۔
ہم نے اپنی اپنی آنکھوں پر اقتدار اور اختیار کی عینک لگائی ہوئی ہے۔ ہم سب ہی ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی دوڑ میں شریک ہیں۔ کوئی بہت آگے ہے، کوئی تھوڑا آگے ہے اور کوئی آگے آنے کی جستجو میں سخت محنت کر رہا ہے۔ ہم سب اس دوڑ کو جیتنا تو نہیں چاہتے مگر کسی سے پیچھے بھی نہیں رہ سکتے۔ ہم اور ہمارے حکمران جو اس ملک کی بقا کے ذمہ دار ہیں جھوٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں اور ہم سب وقتی فائدے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ جیسی رعایا ہوتی ہے اللہ رب العزت ویسے ہی حکمران مسلط کر دیتے ہیں۔ آپ جتنی چاہیں کوششیں کرلیں قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔
اقتدار اور اختیار اللہ رب العزت کے بعد میرے پیارے آقا کے پاس جتنا تھا کسی کو نصیب بھی نہیں ہوسکتا مگر آپ نے اپنی حیاتِ طیبہ اعتدال اور نظم و ضبط کے ساتھ گزاری جس کی نہ کوئی مثال تھی، نہ ہے اور نہ ہوگی۔ مگر ہم امتی ہیں اور ہمارے پیارے نبی کی عملی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ ہم نے روز محشر اپنے پیارے نبی کا سامنا کرنا ہے۔ کیا ہم دنیا کی عارضی زندگی کو اتنا آلودہ کرلیں گے کہ ہم اس دن اپنے نبی کے سامنے کھڑے ہونے کی جسارت بھی نہیں کر سکیں گے۔ ہم جب تک نشے کی حالت سے باہر نہیں آئیں گے اور ہر قسم کے نشے کو ترک نہیں کردیں گے ہم پر ایسے ہی حکمران مسلط ہوتے رہیں گے جو اقتدار اور اختیار کے نشے میں دھت ہمیں جانوروں سے زیادہ نہیں سمجھنے والے۔ اللہ ہمیں نیک ہدایت دے اور نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔