عقیدت مند وں کی عقیدت اورظاہری حالت میں یہ دنیا بڑے سوال کھڑے کردیتی ہے لیکن روحانی طرز فکر رکھنے والے ایسے عقیدت مند بھی ہیں جن کی فکر اس مادی دینا سے ہٹ کر بنی ہوتی ہے اور ہمیں یہ شعور اور فکر انہی اولیاء کرام کی بدولت عطا ہوا ہے۔ سرکارِ دوعالم‘ باعث وجود کائنات نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اسوہَ حسنہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کے انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ اکابرین اسلام کے ساتھ اولیاء کرام بھی سرور کائنات ﷺ کی اس اسوہَ حسنہ کی پیروی کرنے والوں میں سے ہیں، یہ وہ اولیاء کرام اورقلندر ہیں جنہوں نے ظاہری آنکھ سے حضور اکرم ﷺ کا دیدار مبارک تو نہیں کیا ، لیکن سرکاری رسالت ﷺ نے باطنی آنکھ کے توسط سے ان جلیل القدر اولیاء کو وہ روحانی علم عطاکیا جس کی بدولت صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے مزار پر عقیدت مندوں کا جم غفیر رہتا ہے۔
قلندروں کا ذکر آئے اور لعل شہباز قلندر ؒ کا ذکر نہ ہو یہ کسی طرح ممکن نہیں ۔ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کی ولادت باسعادت (مروند ) میں ماہ شعبان 538ع میں ہوئی ۔ آپ کی ولادت باسعادت کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کے والد محترم سید ابراہیم کبیر الدین ؒ بھی اپنے وقت کے جید بزرگ اور ولی تھے۔ ذکر الہٰی میں زیادہ مصروف و مشغول رہتے تھے ۔ آپ کے والد عبادات میں کچھ اس قدر مشغول ہوگئے کہ شادی کا خیال نہ آیا۔
لب تاریخ سندھ میں تحریر ہے کہ ایک رات خواب میں لعل شہباز قلندر ؒ کی روح پاک نے اپنے والد محترم سے کہا کہ آپ شادی کریں ، آپ سے میرا ظہور ہوگا ۔ ابراہیم کبیر الدین ؒ نے کہا‘ کیا جنت سے باہر آنا افضل ہے ؟۔ لعل شہباز قلندر ؒ کی روح نے جواب دیا کہ‘ ہاں دنیا میں ظہور ہونا احسن ہے ۔ جب آپ کے والد کو یہ اشارہ ملا تو آپ نے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ ان دنوں مروند کا حاکم سید سلطان شاہ تھا ، اس نے اپنی نیک سیرت لڑکی ابراہیم کبیر الدین ؒ کے نکاح میں دے دی ۔ گزرتے وقت کے ساتھ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کی ولادت ہوئی۔
لوگ جوق درجوق آپ کو دیکھنے کے لئے آتے ، کیونکہ یہ بات بہت دور تک پھیل چکی تھی ۔ آپ نے اپنی ولادت سے قبل ہی اپنے والد گرامی کو اپنے ظہور کی نوید دے دی تھی ۔ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کا اصل نام سید عثمان ہے لیکن آپ لعل شہباز قلندر ؒ کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ اکثر و بیشتر سرخ لباس تن کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے لعل کہلانے لگے۔ آپ کے کام میں جستی و پھرتی کا عنصر نمایاں تھا اس لئے شہباز کہا جانے لگا۔ قلندر ہونے کی بشارت آپ کے والد کو خواب کے ذریعے ہوئی ۔ لعل شہباز قلندر ؒ کی ابھی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی کہ آپ کے والد نے خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ قلندروں کی جماعت جمع ہے اور دف بجا کر کہہ رہے ہیں کہ سید کبیر الدین کا صاحبزادہ قلندروں میں امیر قلندر ہوگا۔ دوران پرورش آپ کی حرکات و سکنات نے اس یقین کو اور بھی پختہ کردیا اور پھرآپ قلندر کے درجے پر فائز ہوگئے۔
بحالت خواب آپ کے والد بزرگوار کو حضرت علی مرتضی ؓ کے دیدار کا عظیم شرف حاصل ہوا ۔ آپ کے والد نے حضرت علی ؓ سے نیک اورصالح بیٹے کی دعا کی درخواست کی ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ جب بچے کی ولادت ہوجائے اور اس کی عمر 384یوم (یعنی ایک سال 19دن ) ہوجائے تو اس کو مدینہ طیبہ میں حضرت نبی کریم ﷺ کو سلام کی غرض سے لے جائیے گا۔ پھر اس کے بعد عثمان غنی ؓ سے سلام دعا کیجئے گا‘ آپ کے والد نے ان تمام باتوں پر عمل کیا۔
حضرت لعل شہباز قلندر ؒ نے جن بلند پایہ شخصیات سے روحانی فیض حاصل کیا ان میں حضرت رابعہ بصری ؒ ، سید شیرشاہ جلال ، بو علی شاہ قلندر ، سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ، حسن سنجری اجمیری ؒ ، صدر الدین ملتانی اور شیخ فرید الدین عطار ؒ شامل ہیں ۔ آپ کی بیعت کے متعلق روایت ہے کہ امام موسیٰ کاظم ؒ کے مزار پر جب آپ نے حاضری دی تو وہیں پر امام موسیٰ کاظم ؒ کے خاندان میں ایک بزرگ تھے جن کا نام حضرت شیخ ابو اسحاق بابا سید ابراہیم قادری ؒ تھا ۔ ابراہیم قادری ؒ کو خواب میں حضرت شیخ ابوالقادر غوث الاعظم جیلانی ؒ نے ہدایت دی کہ آپ (مروند) میں شیخ عثمان (لعل شہباز قلندرؒ) کی جانب توجہ کریں ۔ اس ہدایت کے ملتے ہی ابراہیم قادری لعل شہباز قلندرؒ کی روحانی تربیت کے لئے ان کے پاس پہنچے۔
آپ نے جب لعل شہباز قلندر ؒ کو سینے سے لگایا تو ان کی حالت میں ایک نمایاں تغیر پیدا ہوا اور آپ ایسی منزل کی جانب محو سفر ہوئے جہاں صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ، نبی کریم ﷺ کی محبت ، اپنے پیر کی اطاعت اور خلق انسانیت کی بے لوث خدمت شامل تھی ۔ آپ کا سلسلہ نسب بتدریج مراحل طے کرتا ہوا حضرت موسیٰ کاظم ؓ پر مکمل ہوتا ہے ، آپ کی کشف و کرامات بے شمار ہیں لیکن ایک کرامت ایسی ہے جس کا حال آج بھی لوگ ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ چوپٹ راجہ کے قلعے کا الٹا ہونا آپ کے جاہ و جلال کی نشاندہی کرتا ہے ۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ چوپٹ راجہ نے آپ کو کھانے میں بلی کا گوشت تناول کے لیے پیش کیا ، جب آپ نے کھانا تناول کرنا شروع کیا تو گوشت میں سے بلی کی آوازیں آئیں جنہیں سن کر آپ کو جلال آگیا اور آپ نے فرمایا کہ کافر ابھی تک ایمان نہیں لایا‘ یہ فرماکر آپ نے سالن کا برتن الٹا کردیا۔ اسی وقت رضائے الہٰی سے چوپٹ راجہ کا قلعہ بھی الٹا ہوگیا ۔ آج بھی یہ قلعہ اسی حالت میں موجود ہے اور محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہے ۔ جب کبھی موسلا دار بارش ہوتی ہے تو اس قلعے میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں اورواضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ کمروں کی چھتیں نیچے کی طرف ہیں۔
حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کی قابلیت اور عربی دانی کے حوالے سے ایک قصہ بہت مشہور ہے ۔حضرت لعل شہباز قلندر ؒ جب ملتان تشریف لائے تو اس زمانے میں غیاث الدین بلبن عارفوں اور علمائے کرام کا بہت قدر دان تھا ، جب اس نے حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کی آمد کی خبر سنی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تعظیم بجا لایا ۔ وہ آپ کے لئے بیش بہا تحائف بھی لایا جس سے اس کی عقیدت بخوبی ظاہرہوتی ہے ۔ تحائف پیش کرنے کے بعد آپ نے اس سے درخواست کی کہ آپ ملتان میں قیام کریں مگر آپ نے قیام ملتان کے سلسلے میں معذرت کرلی ۔ اسی دوران سلطان محمد نے ایک عربی سرود کی مجلس کا اہتمام کیا (سلطان محمد دہلی کے بادشاہ غیاث الدین کا بیٹا تھا ) اس مجلس میں حضرت غوث الاعظم ، غوث بہاؤ الدین ذکریا ملتانی کے فرزند ارجمند حضرت صدر الدین عارف ملتانی ؒ بھی موجود تھے اور یہ دونوں بزرگان دین یعنی حضرت لعل شہباز قلندر ؒ اور عارف ملتانی علم و جد میں رقص کرنے لگے اور خود سلطان محمد کا بھی یہی عالم تھا۔
حضرت لعل شہباز قلندر ؒ نے خرکہ خلافت حاصل کیا تو ان کے پیر و مرشد بابا ابراہیم ولی علیہ رحمۃ نے آپ کو ایک پتھر اور ایک بادام کی لکڑی کا بناہوا اعصاء بھی فرمایا ۔ پتھر کو سنگ مقبول کہا جاتا تھا ، مگر اب اس پتھر یاسنگ مقبول کو گلوبند کہاجاتا ہے ۔ اس پتھر اور اعصاء سے متعلق روایت ہے کہ یہ پتھر حضرت امام زین العابدین ؓ کی اسیری کی یادگار ہے ۔ جب ان کو گرفتار کرلیا گیا تو ان کے گلے میں اس پتھر کو طوق کے طور پرلٹکایا گیا ۔ ایک دوسری روایت یہ بھی ہے کہ پھتر حجر اسود کا ایک ٹکڑا ہے جو امام زین العابدین ؓ کو اپنے آباؤ اجداد سے حاصل ہوا ۔ تاہم حضرت سید عثمان ؒ نے دورانِ سفر اس کو اپنے ساتھ رکھنا مناسب خیال نہ کیا بلکہ ایک قابل اعتماد ساتھی کے ہمراہ سیہون روانہ کردیا ۔ امیر قلندر حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کی صفات زندگی کے بے شمار روشن پہلو ہیں ۔ آپ کا وصول ماہ شعبان 73ھ میں ہوا ۔ آپ کا مزار سیہون شریف میں واقع ہے ۔ ہر سال آپ کا عرس نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو نبی کریم ﷺ ‘ ان کے اہلِ بیت و اصحاب اور بزرگانِ دین کے نقش و قدم اور ان کی تعلیمات پر غور و فکرکرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔