The news is by your side.

بھارتی سرحدی چھیڑ چھاڑ کی حکمت عملی کے پسِ پردہ محرکات

پاک بھارت تعلقات ایک طویل عرصے سے کشیدگی کا شکار ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین ان متاثر ہوتے سیاسی تعلقات کے باوجود گذشتہ 5 سالوں سے دوطرفہ تجارتی تعلقات پر اس کا اثر بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ اوراس کشیدگی کے باوجود پاکستان کی بھارت سے درآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ تاہم ہمیشہ پاک بھارت تجارت کا توازن پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے حق میں رہا ہے۔ جو کہ واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان کے برعکس بھارت کی پاکستان میں اقتصادی دلچسپی سے متعلقہ امور نسبتاً زیادہ ہیں۔ تاہم پھر بھی نجانے کیوں بھارت ہمیشہ پاکستان سے متعلق جنگ و جدل اور جارحانہ قومی حکمت عملی پر عمل پیرا نظرآتا ہے؟۔

مزید براں آئندہ دنوں دونوں ممالک کے مابین تعلقات مزید کشیدہ ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔اور کچھ اسی قسم کا خدشہ حال ہی میں امریکی ایجنسیوں کی جانب سے بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارت سرحد پار سے ہونے والے حملوں کو روکنے کے بہانے پاکستان میں جارحانہ کارروائی کر سکتا ہے اورلائن آف کنٹرول پر موجودہ شیلنگ اورفائرنگ کا تبادلہ بشمول توپ خانے اورمارٹر گولوں کا استعمال دوجوہری طاقتوں کے درمیان براہِ راست مختصر وقفے کی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں دفاع سے متعلق خفیہ ادارے (یو ایس ڈیفینس انٹیلی ایجنسی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ونسینٹ سٹوئرٹ نے خبردار کیا ہے کہ پاک بھارت تعلقات رواں برس بھارت میں کسی بڑے حملے کی صورت میں مزید خراب ہو سکتے ہیں اور جس کا الزام ایک بار پھر پاکستان کے سر پر تھوپے جانے کے قوی امکانات موجود ہیں۔

علاوہ ازیں ماضی قریب میں متعدد بار لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے جس کی ذمہ داری ہر بار پاکستان پر ڈالی جاتی رہی ہےاور ابھی بھی ایسا ہی ہو رہا ہے جو سراسر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بھارت پاکستان سے کسی مختصر وقفے کی جنگ کی پیش بندی کررہا ہے۔ اور یہ اس کی حکمت عملی کا حصہ دکھائی دیتاہے کہ عالمی رائے عامہ کے سامنے خود کو مظلوم بنا کر پیش کرئے اور جنگ شروع کرنے سے قبل ہی اپنے اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے جنگ کی تمام تر ذمہ داری پاکستان کے کندھوں پر ڈال دے۔ نیز اسی ضمن میں عالمی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے بھارت اپنے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دے رہا ہے کہ عسکریت پسند پاکستان کے ایٹمی ہتھیار چرا کر بھارت پر کسی بھی وقت حملہ کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ بھارتی جارحانہ عزائم کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہیں۔ اس سے قبل ماضی میں بھی سقوطِ ڈھاکہ کے وقت سنہ 1971ء میں مشرقی پاکستان  پر باقاعدہ حملہ کرنے سے قبل بھی بھارت اسی طرح کی سرحدی چھیڑ چھاڑ کی پالیسی پر عمل پیرا تھا اور پھر اسی کو بہانہ بنا کر بھارت نے پاکستان کے خلاف بھرپور جنگ کا آغاز کیا اور جس کی وجہ سے ہمارا ملک دولخت ہو گیا تھا۔ یاد رہے تب بھی عالمی برادری بھارتی شاطرانہ حکمت عملی اور بہترین سفارتی حربوں کے سبب بھارت کی جارحیت کو اس کے دفاع کی کوششیں تسلیم کرنے پر تیار ہوگئی تھی۔ اس وقت بھی پاکستان کے درست موقف کو اقوام عالم میں خاطر خواہ شنوائی نہیں ملی۔

شاید بھارت ایک بار پھر وہی قصہ ماضی دہرانہ چاہتا ہے اور اسی وجہ سے اپنی پرانی سرحدی چھیڑ چھاڑ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔اور ایک بار پھراس کی کی ذمہ داری پاکستان پر تھوپ کر خود کو عالمی برادری کے سامنے مظلوم ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اورصرف یہی نہیں، بلکہ بھارت اپنے دفاع کے لئے عالمی برادری کے سامنے (پاکستان سے جنگ شروع کرنے کے معاملے پر)خود کو حق بجانب ثابت کرنے کی سر توڑ کوششوں میں بر سرپیکار ہے۔

بلا شبہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے، ہم جنگ نہیں چاہتے اور یہی وجہ ہے کہ پاک فوج بھارت کے ان جھوٹے دعووں اور الزامات کاپول کھولنے کےلئے ہرممکن ذرائع استعمال کررہی ہے۔ لیکن بھارتی رہنما ہیں کہ بھارت میں جنگی جنون کو ہوادینے سے باز نہیں آرہے ۔ ایسے میں اگر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پاکستان بھی بھارت کو بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مگراس وقت پاکستان کو ایک ایسی سفارتی حکمت عملی درکار ہے کہ جس کے ذریعے عالمی برادری کو اصل صورت حال سے آگاہ کیا جا سکےکہ کیسے بھارت اپنے جنگی جنون اورپاکستان سے جنگ شروع کرنے کےلئے سرحدی چھیڑ چھاڑ  کی آڑ میں خطے کا امن تباہ کرنے کی ہولناک منصوبہ سازی میں مگن ہے۔ لہٰذا اس وقت پاکستان کو چاہیئے کہ وہ اپنے ماہر سفارتکاروں سے مشاورت کرے کہ کیسے بھارت کی جانب سے جارحیت  میں پہل  کرنےکے باوجود دنیا کے سامنے  اُس کےمظلوم بننے کے بھانڈے کواقوام عالم کے سامنے سرعام پھوڑا جائے؟ اور کیسےاس کی پاکستان کو جارح قرار دینے کی مذموم کوششوں کوناکام بنایا جائے؟۔

جس طرح سے پاک فوج نے بھارت کی جانب سے سرحدی دراندازی (اوراس کوسرجیکل اسٹرائیک کانام دینے کے بعد) غیر ملکی صحافیوں کو کنٹرول لائن کا دورہ کرایا اُسی طرح وزارتِ خارجہ کو بھی چاہیئے تھا کہ وہ اپنے غیر ملکی سفارتکاروں کو بھی کنٹرول لائن کا دورہ کراتی تاکہ اُنھیں زمینی حقائق کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد صحیح ادراک ہوتا۔ اوروہ اپنے اپنے ملکوں کووقت پر صحیح صورتحال سے آگاہ کرسکتے۔ مگر ہماری وزارتِ خارجہ نے اس نادر موقع کو اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے پاس کیا آپشن بچا ہے؟

اب پاکستان کو چاہیے کہ وہ فی الفوراپنا ایک سفارتی وفد جو کہ ماہر سفارت کاروں پر مشتمل ہو اُسے مختلف ممالک بالخصوص بھارت کے قریبی ہمنوا سمجھے جانے والے ممالک میں دورے پر بھیج کران ملکوں کے رہنماؤں کے سامنے بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کرے۔ تاکہ بھارت کے پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کرنے کے گھناؤنے خواب کو چکنا چور کیا جا سکے۔ مگر اس نازک موقع پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے’’پُراسرارلاتعلقی‘‘ کا رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

المختصر، پاکستان کی ’’جوابی جارحانہ سفارتی حکمت عملی‘‘ اس نازک صورتحال کا اہم ترین تقاضا ہے۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے کسی ایسے قابل، تجربہ کار اور عالمی امور پر گہری نظر رکھنے والے سیاستدان کو وزیرِخارجہ بنایا جائے۔ جو بھارت کی جانب سے کی جانے والی پاکستان مخالف سازشوں کا عین وقت پر توڑ کر سکے۔ کیونکہ بھارت کے مقابلے میں سفارتی سطح پر ہماری کمزوری بھی ہمارے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ جس کی مثال گزشتہ سال بھارتی دباؤ کے پیش نظر بھوٹان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی جانب سے پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنس میں عدم شرکت کے باعث منسوخ ہونا ہے اور جو سفارتی محاذ پر بھارتی بالا دستی کا منہ بولتا  ثبوت ہے۔ اور جس کی گونج ہمیں عالمی عدالت برائے انصاف میں کلبھوشن سے متعلقہ کیس میں بھی سنائی دے رہی ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسےاپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں