The news is by your side.

کلچرل گیپ‘ تارکینِ وطن اور دہشت گردی

تحریر: سردارریاض الحق

لندن میں دہشت گردی کے حالیہ واقعہ میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری خرم بٹ کا نام آنا پاکستان کے ان امن پسند شہریوں خصوصا تارکین وطن کے لئے ایک دفعہ پھر باعث تشویش بن گیا ہے جو ہمیشہ یہ بات ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ پاکستان شہری دہشت گردی کے خلاف ہیں المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان  پچھلی ایک دھائی سےحکومتی سطح سے لے کرعام شہری تک دہشت گردی کےعذاب کو جھیل چکا ہے  سب سے زیادہ جانی مالی نقصان اٹھانے کے باوجود ہم دنیا کو یہ باور کرانے میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکے کہ پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔

اس کی ایک وجہ اگر ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے تو دوسری جانب یہ بھی حقیت ہے کہ کچھ  مذہبی اور سیاسی رہنمأ ایسےبھی ہیں جوکھل کرایک باقاعدہ کمپین کے تحت دہشتگردی کے خلاف سامنے نہیں آتے جیسے کہ ان کو آنا چاہیے تھا نتیجہ وہی جب بھی ایسا واقعہ پیش آتا ہے پوری دنیا کی نگاہیں پاکستان پر مرکوز ہو جاتی ہیں دوسری جانب پاکستانی تارکین وطن دہشتگردی کی اس لہر جس کا رخ اب یورپ کی طرف ہے سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جن کا مسقبل اب انہی غیر ممالک  سے وابستہ ہے  وہ اب ان ممالک کوچھوڑبھی نہیں سکتے اور  عزت سے رہنا بھی ان کے ایک بڑا مسئلہ  بنتا جارہا ہے۔ نسلی تعصب بھی نطر آنا شروع ہوگیا ہے دوسری جانب جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو پاکستان کے دشمن ممالک کو بھی پورا موقع مل جاتا ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانی تارکین وطن پر انگلیاں اٹھا سکیں۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مشرق وسطیٰ سے لے کر یورپ ‘ امریکہ ‘ کینیڈا تک پاکستانی تارکین وطن ہر شعبہ زندگی میں دشمن  ممالک کے تارکین وطن سے مد مقابل ہوتے ہیں اور اس قسم کا کوئی بھی واقعہ پاکسانیوں کو بیک فٹ پر لے آتا ہے۔

لندن میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد جب دہشت گردوں کی نشاندہی ہوئی تو  ٹیوٹر اور دوسری سوشل میڈیا سائٹس پر بے شمار کمنٹس پوری دنیا سے پوسٹ کئے گئے جس میں امریکی صدر کی جانب سے لگائی جانے والی سفری پابندیوں کو درست قرار دیا گیا تھا  اس سے امریکی صدر کے مقبولیت کے گراف میں بھیی بڑھا اوردیکھا گیا جب کہ اس بات پر تنقید بھی نظر آئی کہ امریکی صدر نے پابندی لگنے والے ممالک میں پاکستان اور سعودی عرب کا نام شامل کیوں نہیں کیا  ۔

اس کے مقابلے میں  کئی پاکستانیوں اور دورسرے مسلم سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے دفاعی کمنٹس بھی پڑھنے کو ملےجس میں کھل کر اس واقعہ کی مذمت بھی کی گئی اور یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی نہ تو ہمارا مذہب دہشت گردی کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہر ایک مسلمان دہشت گرد ہوتا ہے یہ بھی دیکھنے کو ملا جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مارے جانے والے دہشت گرد وں کا تعلق کسی دوسرے مذہب سے تو نہ تھا یہ بات بھی افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ کسی نامور عالم دین یا دینی ادارے کی جانب سے بھی کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا اگر ایسا کوئی ردعمل بین القوامی سطح پر نظر آتا تو اس سے ان تارکین وطن کی نہ صرف ڈھارس بندھتی بلکہ پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا کو ایک اخلاقی جواز بھی ملتا کہ ہمارہ مذہب وہ مذہب جس میں کسی ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا گیا ۔

تاہم اس واقع کے بعد برطانوی مسلمانوں اور علما کی جانب سے ایک اچھی بات  دہشتگردوں کی حوصلہ شکنی کی صورت میں اس طرح نظر آئی کہ وہاں کے  علما نے دہشت گردوں کی نماز جنازہ پرھنے سے انکار کردیا ۔ پاکستان تارکین وطن اس وقت جس کرب اور تشویش میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں اس کا تقاضہ بھی یہی تھا ایک طرف ان کو انتہا پسند کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو دوسری جانب ان کےلئے بے شمار معاشی معاشرتی مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

آئیں اب ذرا خرم بٹ جیسےبرطانوی نژاد مسلم نوجوانوں کی نفسیات  کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں کہ وہ ایک آزاد ماحول میں رہتے ہوئے کیسے اس طرح کےراست اقدام اٹھاتے ہیں اس ضمن میں سب سے پہلے پاکستانی تارکین وطن کے بیک گراونڈ میں جانا پڑے گا دراصل یہ مسلم خاندان چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہوتے ہیں ایک طرف انہیں اپنے آباوجداد کی تہذیب ثقافت اور مذہب کی فکر بھی ہوتی ہے کہ ان کے بچے بھی ان کی پیروی کریں اور دوسری جانب وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلی ٰتعلیم دلوانے کی فکر بھی لاحق ہوتی ہے جس کے لئے انھیں گھر سے باہر بیجھنا بھی ان کی مجبوری ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک کھلے آزاد ماحول میں جانا جہاں انھیں مغربی کلچر اپنے اندر سمو لینے کو تیار ہوتا ہے مشرقی والدین اس کا ایک ہی حل نکالتے ہیں سخت مذہبی تعلیم یہاں تک کہ ایسی سختی کہ جو پاکستان کے عام گھرانوں میں بھی نہیں دیکھی جاتی ۔

یہ والدین ایسا کوئی موقع بھی نہیں گنواتے کہ جب کوئی عالم دین مذہبی سکالر پاکستان انڈیا یا کسی دوسرے اسلامی ملک سے آیا ہو اور اس کا کہیں کوئی خطاب ہو فورا اپنے بچوں کو وہ خطاب سننے لے جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ زیادی سے زیادہ  نئی نسل ان علما سے متاثر ہو اس لئے ان کی خوب دل کھول کر تعریف بھی کرتے ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ ان کی نسل اپنے مذہب و کلچر سے  پوری طرح آشنا ہو جائے اور پوری طرح اس کو فالو کریں یہ علما تو چند تقاریر اور چندے نزرانے لیکر  واپس چلے جاتے ہیں لیکن کسی جذباتی نوجوان کے ذہن میں چند سوال چھوڑ جاتے  ہیں  اور پھر ان سوالوں کے جواب یہ نوجوان سوشل میڈیا پر تلاش کرتے ہیں جہاں ان کو ایسا مواد بھی مل جاتا ہے کہ وہ  انتہا پسندی کی جانب مائل ہو جاتے ہیں پھر عالمی سیاست کا اونٹ جس کروٹ بیٹھا ہوا ہے اس میں انٹرنیشنل دہشت گرد تنظیمیں بھی سرگرم عمل  ہیں اور ایسے نوجوان آسانی سے ان کے ہتھے بھی چڑھ سکتے ہیں۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں ایسا کوئی قدم اٹھا رہے ہوں۔

علما اور سکالرز کا حوالہ دینے سے میرا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہ دہشتگردی کی طرف مائل کرجاتے ہیں یا دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں بلکہ اپنی شعلہ بیانی میں کوئی بات ضرور کر جاتے ہوں گے کہ جس کا مطلب یہ نوجوان غلط لے جاتے ہوں گے حاصل بحث یہ ہے کہ دو مختلف تہذیبوں کے تضاد میں ایسے انتہا پسند پیدا ہونا  فطری عمل  ہے اور اس کا حل خود ان تارکین وطن اور کسی حد تک مغربی ممالک کو ہی نکالنا ہے کہ کیسے وہ اس کلچرل گیپ کو ختم کرسکیں اور مشرقی والدین کا خوف اور تشویش بھی دور ہو جائے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں