The news is by your side.

برہان وانی کی شہادت‘ کشمیر کا مقدمہ کمزور کیوں؟

برہان وانی کی شہادت کوایک سال  مکمل ہوگیا ہے۔  8 جولائی 2016ء کو جمعہ کا دن تھا کہ اس عسکری تنظیم نے کوکر ناگ (جنوبی مقبوضہ کشمیر) کے علاقے میں ایک گاؤں پر حملہ کیا جس کے ایک مکان میں برہان وانی اور اس کے دو ساتھی چھپے ہوئے تھے۔ اس مقابلے میں مکان کو بم مار کر تباہ کر دیا گیا اور اس میں تینوں کشمیری مجاہدین شہید ہو گئے۔ جب شہید وانی کی لاش اس کے آبائی گاؤں ترال (ضلع پلواما) میں برائے تدفین لے جائی گئی تو ساری وادی میں گویا آگ لگ گئی۔۔۔ یہ برہان وانی کون ہے جس نے کشمیری مزاحمتی تحریک میں نئی جان ڈال دی تھی؟ ۔ برہان وانی کون تھا اور اس نے کیا کیا ؟ وہ کیا چاہتا تھا ؟؟ وہ صرف اپنے وطن کی آزادی چاہتا تھا ۔۔ برہان مظفر وانی شہید کی عمر 22 سال تھی۔ وہ 15 برس کا تھا کہ گھر سے بھاگ گیا اور حزب المجاہدین نامی تحریکِ آزادی میں شامل ہو گیا جس کا نصب العین مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کروانا ہے۔

گزشتہ سات برسوں میں برہان وانی نے تحریک آزادی کے ایک شعلہ نوا مقرر اور سرگرم کارکن کے طور پر اتنی شہرت حاصل کر لی کہ انڈین گورنمنٹ نے اس کے سرکی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر کر دی۔ وانی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دی اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں نوجوان اس تحریک میں شامل ہو گئے۔ ریاست میں بھارتی سیکیورٹی فورسز (آرمی، نیم مسلح افواج وغیرہ) برہان وانی کے حملوں سے عاجز آگئیں اور مرکز کو بارڈر پولیس کی مزید کمپنیاں/ بٹالینیں بھیجنے کی درخواست کی تاکہ اس تحریک کو کچلا جا سکے۔ برہان وانی نے اپنے دیس کی آزادی کے لئے سوشل میڈیا کا محاذ چن لیا،  برہان مظفر وانی نے سوشل میڈیا کا زبردست استعمال کرتے ہوئے ایسی ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کیں اور کشمیری نوجوانوں کو تحریکِ آزادی میں شمولیت کی ایسی ایسی ترغیبات دیں کہ ریاستی حکومت اس نئی سوشل میڈیا تحریک کے سامنے بے بس نظر آنے لگی۔ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے آزادی کا پرچار کرتا تھا،یہ آزادی ا س کا بنیادی حق تھا، اس حق کو امریکہ نے بھی استعمال کیاا ور برطانوی استعمار کو مار بھگایا، اس حق کو نیلسن منڈیلا نے بھی استعمال کیا اور سفید فام استعمار اور استبداد سے نجات پائی،  اس حق کو یاسر عرفات نے بھی استعما ل کیاا ور وہ اسرائیل کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا رہا۔الجزائرا ور انگولا نے بھی آزادی کی تحریک چلائی ۔

برہان وانی نے آزادی کے حق میں آواز بلند کی، اس کے ہاتھ میں اسلحہ نہیں تھا مگر پوری وادی کشمیر کے نوجوان اس کے پیغام پر عمل پیرا ہونے کے لئے آمادہ ہو گئے تھے، بھارت نے اس آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کرنے کے لئے جنگلوں کا محاصرہ کیا اور برہان وانی کو شہید کر دیا۔ برہان وانی غیر مسلح تھا جبکہ بھارتی فوج دہشت گردی کے لئے ہر ہتھیار سے لیس تھی، مسئلہ شہادت پر رکا نہیں، ا س کی لاش کو سری نگر کے بازاروں میں گھمایا گیا اور ٹی وی اسکرینوں پر بار بار
د کھایاگیا، بھارت کا پیغام یہ تھا کو جوکوئی برہان وانی کے نقش قدم پہ چلے گا، اس کے خلاف اسی قسم کی دہشت گردی کی جائے گی۔

مگر بھارتی فوج کے اندازے غلط ثابت ہوئے، وہ کشمیری نوجوانوں کو خوف زدہ کرنے میں ناکام رہی،پہلے تو برہان وانی اکیلا تھا، اب وادی کشمیر کے سبھی نوجوان سروں پہ کفن پہن کر باہر نکل آئے، تاجروں نے دکانیں بند کر دیں، سرکاری ملازمین نے دفاتر کا بائیکاٹ کر دیا، ایک سری نگر کیا، کشمیر کے سارے شہر اور قصبے سنسان ہوگئے، صرف بھارتی فوج کے بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی تھی۔یا گولیوں کی تڑ تڑاہٹ۔

اور پھر سارا کشمیر اچانک ابل پڑ ا، اور آزادی، آزادی کے نعروں سے گونج اٹھا، بھارتی فوج نے اس احتجاج کو دبانے کے لئے نیا حربہ استعمال کرنے کا فیصلہ لیا ، وہ پیلٹ گنوں سے فائر کرنے لگاجس سے تین سالہ بچی سے لے کر نوجوانوں اور بوڑھوں تک کی آنکھیں ضائع ہونے لگیں، کشمیر کے سارے ہسپتالوں کے برآمدے ان زخمیوں سے بھر گئے۔یہ سب کشمیری تھے۔

کشمیر ی حریت پسندوں کو اس حربے سے بھی دھمکایا نہ جا سکا۔آزادی کے نعرے گونج رہے تھے اور بھارتی فوج کے حوصلے پست ہو رہے تھے،اسنے بزدلوں کی طرح غیر مسلح اور بے گناہ کشمیریوں کو سیدھی گولیوں کا نشانہ بنایا۔

برہان وانی کی شہادت کے ایک سال بعد بھی کشمیریوں کے جذبے ہمالہ کی چوٹیوں کی طرح بلند وبالا ہیں۔ آٹھ جولائی سے تیرہ جولائی تک شہیدوں کی یاد منانے کا اعلان کیا گیا ہے، تیرہ جولائی کا دن بھارتی بربریت کے دن کے طور پر برسوں سے منایا جا رہا ہے، اس روز بھارتی فوج نے پہلی مرتبہ کشمیریوں کے سینے چھلنی کئے تھے اور سڑکوں پر شہیدوں کی لاشوں کا ڈھیر لگ گیا تھا۔برہان وانی کی شہادت سے جنم لینے والی تحریک کو بھارت بیرونی تحریک نہیں کہہ سکا اور نہ ہی کہہ سکے گا کیوں کہ بھارت جانتا ہے کہ یہ بھارت کی دہشت گردی کے نتیجے میں جنم لینے والی تحریک ہے اور اس کو دبانے کی ہر ناکام کوشش کر رہا ہے ۔

مجھے اس وقت زیادہ حوصلہ ملتا ہے جب مجھے یہ یاد آتا ہے کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا، کس کس کو دہشت گرد کہو گے، کہہ لو جس کو بھی کہنا ہے مگر ہم کہتے رہیں گے کہ کشمیر میں دہشت گردی کی مجرم بھارتی فوج ہے اور بھارتی ریاست ہے، اسے ختم ہونا چاہئے، بر بریت کا یہ سلسلہ ستر سال سے جاری ہے، فرعو ن نے بڑے مظالم کئے، بخت نصر ایک جابر حکمران تھا، ہلاکو اور چنگیز نے لاشوں کے ڈھیر پر تخت سجایا،ہٹلر کو ہولو کاسٹ کا مجرم کہا جاتا ہے مگر بھارت نے جبر اور قہر اور دہشت گردی کے سارے ریکارڈ مات کر دیئے ہیں، اور ساری دنیا بھارت کی اس دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔

آج مظلوم کشمیری یکہ و تنہا ہیں۔ کہنے کوپاکستانی حکمران نعرے بہت لگاتے ہیں مگر کشمیر میں بھارتی جارحیت کا سلسلہ بدستور جاری ہے، تسلسل سے جاری ہے، کسی وقفے کے بغیر جاری ہے اور واحد مسلم ایٹمی طاقت خاموش تماشائی ہے، صرف خاموش تماشائی ہوتی تو کشمیریوں کی آس پھر بھی باقی رہتی، اب تو پاکستان میں جو شخص کشمیریوں کی اخلاقی حمایت کرتا ہے، اسے حافظ سعید بنا دیا جاتا ہے ۔ پاکستانی حکمران بھی بھارتی اشاروں پر ناچ رہے ہیں ۔۔ اب عوام کو جاگنا ہوگا کشمیری بھائیوں کے لیے پہلے پاکستان کے اندر چھپے بھارتی ایجنٹوں کا سر کچلنا ہوگا اپنی صفیں درست کرنی ہوں گی پھر بھارت کا جینا حرام کرنا ہوگا تا کہ وہ کشمیریوں کو آزادی سے سکون کا سانس لینے دے ۔

آفریں ہے کشمیریوں کی کہ وہ جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں اور آزادی ، آزادی کے نعرے لگا تے ہیں اور کشمیر بنے گا پاکستان کے عزم کو دہراتے ہیں۔ بھارتی لیڈر پاگل پن میں کہتے ہیں کہ ایٹم بم مار کر ان کا قصہ ہمیشہ کے لئے پاک کردو۔کوئی ان کی نسل کشی کے منصوبے پروان چڑھا رہا ہے یہی کچھ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا۔ کشمیر پاکستان کی کس طرح شہہ رگ ہے، بالکل اسی طرح جیسے بھارت کہتا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔کشمیر اس لئے بھی پاکستان کی شہہ رگ ہے کہ تقسیم ہند اور آزادی کے فارمولے کی رو سے اسے ایک مسلم اکثریتی اور پاکستان سے ملحقہ ریاست کے طور پر ہمارا ہی حصہ بننا تھا۔ یہ وہ اصول ہے جس کی بنیاد پر بھارت نے جونا گڑھ اور حیدر آباد کی ہندو اکثریتی آبادی کی ریاستوں کو بزور طاقت اپنے اندر شامل کر لیا تھا۔ حالانکہ ان کے مسلمان حکمران پاکستان سے الحاق کا اعلان کر چکے تھے۔ مگر بھارت نے ان کے اس اعلان الحاق کو جوتی کی نوک پر رکھا اور کشمیر کے ہندو مہاراجہ کے ایک جعلی اعلان الحاق کو الہامی دستاویز قرار دے دیا اورفوجی جارحیت کے ذریعے کشمیر پر قبضہ جما لیاگیا۔

برہان وانی کی شہادت کو ایک سال بیتنے کو ہے ۔ زبانی کلامی اور شہیدوں کی یاد کا دن منانے کر ایک دن یاد منا کر پھر سارا سال خاموش رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ہمیں بھی اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے اپنے سر پر کفن باند کر کھل کر نکلنا ہوگا انکا ساتھ دینا ہوگا جو اپنے بل بوتے پر، اغیار کی مدد کا خیال ترک کر کے سر پہ کفن باندھ کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں، وہ غیر مسلح ہیں، مگر ان کاسب سے بڑا ہتھیار ہی یہ ہے کہ وہ غیر مسلح ہیں۔ وہ بے گناہ ہیںاور بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں ۔ ان کانعرہ ہے آزادی ، یہ آزادی انہیں ملنی چاہئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک آزادی کشمیر کی بنیاد بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمدعلی جناح نے رکھی تھی ۔ایک تو انہوں نے یہ فرمایا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، دوسرے انہوں نے کشمیر میں بھارتی جارحیت کو روکنے کے لئے افواج پاکستان کو احکامات جاری کئے۔

کشمیر پاکستان کی اس لئے بھی شہہ رگ ہے کیونکہ قائد اعظم سمجھتے تھے کہ ایک تو یہ ریاست مسلم اکثریتی آبادی والی ہے، دوسرے پاکستان سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں ، تیسرے پاکستان کو سیراب کرنے والے دریاؤں کا منبع کشمیر ہے، ان پر بھارت کے قبضے کا مطلب یہ تھا کہ وہ جب چاہے پاکستان کو اس کے حق کے پانی سے محروم کر دے اوراس نے فوری طور پر پنجاب کو سیراب کرنے والی نہر بند کردی جس کو کھلوانے کے لیے پاکستان کے دو بڑے سیاستدان فٹا فٹ پنڈت نہرو کی خدمت میں جا حاضرہوئے۔ نہرو پانی دینے کے لئے تو مان گیا مگر اس شرط پر کہ وہ اس پانی کا معاوضہ وصول کرے گا ااور دوسرے جب چاہے گا ، پانی روک بھی سکے گا۔پاکستان کے ان دو سیاستدانوں میں سے ایک کی زمینوں کا پانی رک گیا تھا ، ا سلئے ا سنے یہ کڑی شرائط قبول کر لیں

ساٹھ کے عشرے میں پاکستان ا ور بھارت کے درمیان دریائی پانی کے جھگڑے طے کرانے کے لئے ورلڈ بنک نے ثالثی کی اور سندھ طاس کا معاہدہ عمل میں آیا۔ یہ معاہدہ سراسر غیر منصفانہ تھا کیونکہ پاکستان کو سیراب کرنے والے دو دریا ،ستلج ا ور بیاس کلی طور پر بھارت کو دان کر دیئے گئے ۔دنیا میں آج تک دریائی پانی کے جتنے بھی معاہدے کئے گئے ہیں، ان میں سے کسی دریاکوکسی ایک ملک کے تصرف میں نہیں دیا گیا جبکہ وہ دریا زیریں ملک سے گزرتا بھی ہو۔ سندھ طاس معاہدے میں اگرچہ دو دریا چناب اور جہلم کلی طور پر پاکستان کو دے دیئے گئے مگر ان کے دہانوں پر چونکہ بھارت کا قبضہ تھا ،
ا س لئے اس نے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور ان دریاؤں پر بیسیوں ڈیم تعمیر کر لئے۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ بھارت نے پاکستان کو عملی طور پر چناب اور جہلم کے پانی سے بھی محروم کر دیا۔بھارت جب چاہتا ہے ان دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان کی زراعت کو تباہ کر دیتا ہے اور جب ان دریاؤں میں سیلابی کیفیت ہوتی ہے تو فالتو پانی چھوڑ کر اور وہ بھی بلا اطلاع پاکستان کے وسیع علاقوںکو سیلاب میں ڈبو دیتا ہے۔

بانی پاکستان کا یہ حکم کہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے بزور طاقت آزاد کرایا جائے، اس حکم کو آج کوئی دہشت گردی کے زمرے میں شمار کر سکتا ہے مگر دوسری طرف پنڈت نہرو نے بھی اسی دہشت گردی کا راستہ اختیار کیا تھا اور بزور طاقت ہی کشمیریوں کی امنگوں اور آرزوؤں کے برعکس ان کو غلام بنایا تھا، صدر ٹرمپ اگر یہ کہتے ہیں کہ بزور طاقت سرحدیں تبدیل نہیں کرائی جا سکتیں تو بھارت نہرو کے دور ہی سے بزور طاقت اپنی سرحدیں تبدیل کر رہا ہے ۔

میرا ایک سوال ہے کہ اگر افواج پاکستان حکومت کے منع کرنے کے باوجود کشمیر کی آزادی کے لیے کوشش کریں تو کیا ہم عوام ان کا ساتھ دیں گے ؟؟ یا نہیں ؟؟ اگر نہیں تو کیا ا س کا مطلب ہے کہ کشمیر پر ہم صرف نعرے بازی کے شوق میں مبتلا   ہیں مگر عملی طور پر کشمیریوں کی مدد کرنے ا ور اپنے دریاؤں کے منبع واگزار کروانے کے لئے ہم سنجیدہ نہیں ہیں، کیا یہ ہماری قومی بے عملی ا ور بے حسی نہیں ہے، کیا ہم نے قائد اعظم کے فرمان کی حکم عدولی بحیثیت قوم کے نہیں کی ۔

آج ہمارے ان نان سٹیٹ ایکٹرز پر کیوں پابندیاں ہیں جو کشمیر کی آزادی کے حق میں ہیں۔ بھارت نے بھی مقبوضہ کشمیر کے ان لیڈرز کو پابند سلاسل کر رکھا ہے جو کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں ، ہمارے ا ور بھارت کے مابین فرق کیا ہوا، کچھ تو ہونا چاہئے
برہان وانی کی تصویروں پر سوشل میڈیا پر فیس بک وغیرہ پر اپ لوڈ کرنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے ۔ بہت سے نوجوان بھی اس کی فوٹو اپنی پروفائل فوٹو بنانے لگے کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو دبانے کے لیے فیس بک نے اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر رہا ہے۔ برہان وانی کا یوم شہادت قریب آنے پر ٹویٹر انتظامیہ نے کشمیریوں کے حق میں مہم چلانے والے سینکڑوں اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر دیے ہیں۔ ٹویٹر انتظامیہ بھی نہتے کشمیریوں کی قتل و غارت گری اور کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے والی بھارتی فوج اور بی جے پی حکومت کے خلاف آواز بلند کرے لیکن ایسا کرنے کی بجائے مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے والے اکاؤنٹس ہی ختم کر دیے گئے ہیں ۔

کشمیر میں آزادی رائے پر بلکل پابندی لگائی جا رہی ہے ۔ چار دن کے لیے انٹرنیٹ بالکل بند کر دیا گیا ہے برہان وانی کی برسی والے دن اگر کوئی احتجاج کے لیے باہر نکلا تو اسے موقع پر ہی گولی مار نے کا آڈر دہشت گر دبھارتی سینا کو دے دیا گیا ہے ۔۔ برہان وانی کی شہادت پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف بھارتی فورسز نے جو کارروائی کی وہ غیر قانونی ہے اور اس میں ضرورت سے کہیں زیادہ فورس استعمال کی جارہی ہے ۔لیکن بھارت کی یہ درندگی جموں اور کشمیر کے دلیر اور بہادر لوگوں کو اس جدوجہد سے خوفزدہ نہیں کر سکتی جو وہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنی آزادی کے لئے کوششیں کر رہے ہیں ۔

برہان وانی شہید کی شہادت کا ایک برس مکمل ہونے پر مودی سرکاربوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔ بھارتی فوج نے کشمیر میں آزادی کی علامت شہید برہان وانی کے گھر پر دھاوا بول دیا اور ان کے والد کو گرفتار کر لیا ۔ بھارتی فوج برہان وانی سے اتنی خائف ہے کہ شہادت کے ایک سال بعد بھی برہان وانی ان کے اعصابوں پر سوار نظر آتا ہے۔8جولائی کو کشمیری نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن اور حریت لیڈر برہان وانی کی پہلی برسی منائی جارہی ہے۔برسی کے موقع پر حالات پر قابو پانے نام ریاستی دہشت گردی کے لئے جموں میں بھارتی فوج کی مزید نفری طلب بھیج دی گئی ہے ۔

مجھے ایک کشمیری بلاگر نے بتایا کہ کوئی اخبارات نہیں ہیں اور ہمارے پاس صرف دو ٹی وی چینل ہی آتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے وانی کے متعلق ایک بلاگ پوسٹ کو لنک کیا تو ان کا اکاؤنٹ ایک ہفتہ سے زیادہ عرصے کے لیے بلاک کر دیا گیا اور کچھ پوسٹس ہٹا دی گئیں ۔جب کوئی خبر نہیں ملتی تو ہم عموماً معلومات کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کرتے ہیں لیکن فیس بک نے میرا اکاؤنٹ معطل کیا ہے تو میں اب ایسا کیسے کر سکتا ہوں؟ ایک کشمیری صحافی کا کہنا ہے کہ فیس بک نے وہ وڈیو ہٹا دی جو ہم نے لگائی تھی۔ان کا کہناتھا کہ وڈیو میں علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کو برہان وانی کی موت کی مذمت کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔اس سے پہلے ہمارے فیس بک کے صفحے پر سے کبھی کوئی چیز نہیں اتاری گئی تھی۔ بھارتی فوج کے مظالم کی حمایت کر کے فیس بک یکطرفہ دکھائی دے رہی ہے۔ بھارت نے انٹرنیٹ کی دنیا میں اپنا کافی نام بنالیا ہے بھارت اپنا بہت سا بجٹ انٹرنیٹ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے صرف کرتا ہے ۔۔ برہان دیکھنے میں ایک ہیرو کی طرح لگتا تھا۔وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہر کشمیری کی دسترس میں تھا۔وہ اپنی اور اپنے تیس ساتھیوں کی جنگل کی زندگی کی وڈیوز اپ لوڈ کرتا تھا۔اس کے وہی مطالبے تھے جو وادی کے ہر کشمیری کے ہیں۔وہ کوئی باہر سے آنے والا جوشیلا نہیں بلکہ اپنا ہی لڑکا تھا۔وہ اور اس کے ساتھی جدید سوچ کے حامل پڑھے لکھے مزاحمت کار ہیں۔برہان کی وڈیوز میں یہ پیغام تھا کہ ہمارے گروپ کا ہدف صرف قابض فوج اور ان کے طفیلی ادارے ہیں۔امرناتھ یاترا پر ہندو یاتری بے فکری سے آ جا سکتے ہیں۔ہم سینک کالونیوں کی اسکیم کو بھارتی غلبے کی نئی چال سمجھتے ہوئے ان کی مزاحمت کریں گے۔

کشمیری ہر چند برس بعد اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔پھر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر نئے انداز میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی انکا ساتھ دینا چاہیے بھرپور طریقے سے ۔ کھل کر سامنے آنا ہوگا اگر بانی پاکستان کی اور اپنی عزت کی لاج رکھنی ہے تو ۔ برہان نے اپنی جان کی قربانی دے کر کشمیری قوم کے لیے ایک راہ متعین کی ہے ۔ کشمیریوں کی چوتھی نسل تحریک آزادی میں برسرپیکار ہے۔ شہادتوں کا یہ سفر اس بات کا عزم ہے کہ بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لیے پوری قوم قربانیاں دینے کے لیے تیار ہے ۔

برہان وانی کی شہادت کے بعد جس طرح کشمیر میں تحریک نے زور پکڑا، پاکستانی حکمرانوں سے اس موقع پر کشمیر کا مقدمہ نہیں لڑا۔ مودی نے اپنی مکارانہ چالیں چلتا رہا اور پاکستانی حکمران کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے بجائے اپنی صفائیاں دینے میں مصروف رہے۔

کشمیر پاکستانی حکمرانوں کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں، حکومت اگر کشمیر کے حوالے سے کوئی سیشن رکھتی ہے تواپوزیشن اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس میں شریک نہیں ہوتی اور انڈیا دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف خطرناک پروپیگنڈا کرتا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی آج تک اتنی ناکام نہیں ہوئی جتنی برہان وانی کی شہادت کے بعد ناکام نظر آئی۔ کشمیر کے عوام پاکستانی عوام اور حکمرانوں کی طرف سے چند بینرز اور سیمینارز منعقد کرا، کر جان چھڑانے سے مطمعن نہیں ہیں۔ انہیں عمل چاہیئے، انہیں کامیاب سفارت کاری درکار ہے۔ اب وہ طفل تسلیوں اور بیانات سے مطمعن نہیں ہیں۔ وہ اب اقوامِ عالم میں کشمیر کا مقدمہ احسن انداز میں لڑنے والے وکیل کے متمنی ہیں۔

یہ تو تھیں چند کشمیریوں کی رائے، مگر میری نظر میں کشمیری اپنے دُکھ کا اظہار درست انداز میں کر رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست دان محض چند بینرز اور یک جہتی کا راگ الاپ کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ تو کررہے ہیں مگر ان کے کردار اور جدوجہد میں اخلاص نہیں ہے۔ کشمیری عوام، پاکستان زندہ باد کا نعرہ وادی میں اپنے خون سے تحریر کرتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام اور حکمران بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا مقدمہ اخلاص اور لالچ کے بناء لڑیں اور سری نگر کے لال چوک میں قومی پرچم لہرانے کا کشمیریوں کا خواب پورا کرنے میں ان کا ساتھ دیں۔ پاکستان کی غیر سنجیدگی اور کشمیر کے مسئلہ پر خاموشی کی وجہ سے جہاں کشمیری عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے، وہیں ہندوستان کو کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے میں آسانی پیدا ہورہی ہے اور کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ درحقیقت پاکستان کی شہ رگ پر قبضہ ہے۔

دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جہاں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں مگر جتنا ظلم کشمیر میں ہو رہا ہے اس کی مثال تاریخ میں شاید مشکل سے ہی ملے. نجانے وہ صبح کب طلوع ہو گی جب ہم مقبوضہ کشمیر میں بیٹھ کر امن و محبت کے گیت لکھیں گے. جب بہتے جھرنوں کے کنارے ہم لہو داستانیں نہیں بلکہ وفا اور چاہت کے قصے دہرائیں گے. جب مئورخ صرف مسکراہٹوں کی بات کرے گا. جب اس کے پاس کوئی ظلم و بربریت کی داستان نہیں ہو گی. جب وادی کا تمام سبزہ گنگناتا ہوا نظر آئے گا. جب کشمیری آنسوؤں کی زبان میں نہیں بلکہ مسکراہٹوں کے ساتھ اپنا مدعا بیان کریں گے. کب وہ دن آئے گا ۔ کشمیر جنت نظیر کو بھارتی غاصبوں کی قید میں جانے کتنے برس بیت گئے ہیں. شہادتوں کی گنتی تو کسی حساب میں ہی نہیں ہے ۔ ایک طرف تو بھارتی حکومت کشمیر میں امن کا راگ الاپتی ہے اور دوسری طرف کشمیر میں تعینات افواج کی تعداد میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے. بھارتی حکومت ہزاروں کی تعداد میں فوجی دستے کشمیریوں کو کچلنے کے لیے بھیج چکی ہے. بھارتی افواج کشمیری مجاہدین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں ۔

۔ پاکستان سے محبت کشمیریوں کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہی ہے. کشمیر ہماری شہہ رگ ہے اور ہم اپنے جسم کے اس حصے کو کسی قیمت پر خود سے الگ نہیں کر سکتے. یہی حال کشمیریوں کا ہے. پاکستان کا جھنڈا آج بھی ان کے لیے آزادی کی علامت ہے ۔

دنیامیں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ایک زبان سب قومیں اچھی طرح سمجھتی ہیں اور وہ طاقت کی زبان ہے۔جس دن مسلمانوں نے ایٹمی طاقت کی زبان بولی کشمیر سمیت برماسے فلسطین تک تمام مسائل حل ہوجائیں گے ۔ مگر پتا نہیں کب حکمران سدھریں گے اور زورِشمشیر سے مقبوضہ کشمیر آزاد کروانے کا فیصلہ کریں گے ؟؟ کشمیر کے مسئلہ کا واحد حل طاقت کا زور کشمیر کو آزاد کروایا جائے ستر سال سے بھارت سے مذاکرات سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو رہا ہے ۔۔ حکمرانوں جاگو ۔۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں