The news is by your side.

گم نام منزلوں کے راہی۔ آئی ایس آئی کے جانباز سپاہی

بلا شبہ کسی بھی ملک و قوم کے دفاع میں اس کی افواج اور وسائل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر یہ کرداران اداروں کے دائرہ کار میں بھی آتا ہے جو عرف عام میں انٹیلی جنٹس ادارے یعنی خفیہ ادارے کہلاتے ہیں۔ چونکہ ’’سراغراسانی‘‘ مضبوط دفاع کا اہم حصہ تصور کی جاتی ہے اسی لئے قیام پاکستان کے بعد جب مملکت پاکستان کی تعمیر و ترقی اور دفاع کا معاملہ زیرغورتھا  تو حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے دفاع، استحقام اورسلامتی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ ناگزیر جانا کہ ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جس کی بنیاد خالصتاً ’’نظریہ پاکستان‘‘ پر ہو۔اور نیز جو انٹیلی جنس کے  جدید عالمی تقاضوں کے عین مطابق کام کرئے۔

اسی مقصد کے حصول کے لئے جولائی1948ء میں پاکستان کے دفاع کے ضامن ادارے “آئی ایس آئی” کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک اس ادارے نے متعدد معرکوں میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ جس پرآج ہر پاکستانی نازاں ہے۔

مگر اپنی اعلٰی دفاعی کارکردگی کے باوجود یہ ادارہ نجانے کیوں روزِ اول سے ہی اپنے ہی لوگوں کے طعنے تشنوں کا ہدف رہا ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ پاکستان دشمن ممالک بالخصوص ایسے عناصر کواپنے نشانے پر رکھتا ہے جو پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے ایک خطرہ ہوں۔اوران کی سازشوں کو یہ جنگ کی نوبت لائے بغیر ناکام بنا دیتا ہے۔ جب تک یہ ادارہ قائم ہے تمام پاکستان دشمن عناصر پر یہ حقیقت  آشکار ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی براہِ راست کارروائی نہیں کر سکتے۔

علاوہ ازیں، پاکستان مخالف قوتوں کے لئے یہ امر نہایت اذیت ناک ہے کہ تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے کسی ملک کا دفاعی ادارہ اپنے محدود بجٹ میں بھی ترقی یافتہ ممالک کی متعدد خفیہ ایجنسیوں کو  مسلسل مات دے رہا ہے۔ اس کی کامیابی کی  ایک اہم ترین وجہ ’’کسی بڑی جنگ کے بغیر اپنے مقاصد کا حصول ہے‘‘۔جس کی مثال ماضی میں سویت یونین کا معاملہ ہے۔ آئی ایس آئی نے اپنے آغاز سے ہی جنوبی ایشیاء میں بھارت کی بالادستی کو ختم کرنے اور پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق پاکستان کے اس خفیہ ادارے کو متعدد ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جن میں ریاست کے اندد ریاست، اصل اوران دیکھی حکومت کے علاوہ بعض لوگ اسے پاکستان کی اندرونی سلامتی اور بیرونی خطرات سے نبردآزما ہونے والے کان اور آنکھیں قرار دیتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ آئی ایس آئی کو بھارتی فلموں اورسیاستدانوں کے بیانات میں ایک ولن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

سی این این کے مطابق اس وقت پاکستان غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ جن میں چالیس سے زائد ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اپنے اپنے ملک کے قومی مفاد کے لئے سرگرم ہیں۔ جوبلوچستان میں بھی گڑ بڑ پھیلانے میں ملوث ہیں۔ مزید المیہ یہ ہے کہ عدم استحکام کا شکار ہمارا بوسیدہ سیاسی نظام ان خفیہ ایجنسیوں کے اہداف کے حصول میں معاون و مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ اور سونے پر سہاگہ وہ اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو اس ادارے کی سازش سے تعبیر کر رہے ہیں۔  مگرآفرین ہے آئی ایس آئی پر جو پسِ پردہ رہ کر ان تمام غیر ملکی ایجنسیوں کے مذموم مقاصد اور اپنے خلاف استعمال کیے جانے والے اندرونی سیاسی ہتھکنڈوں کو بتدریج ناکام بنا رہی ہے۔

اور اتنی ایجنسیوں کی موجودگی اور آستین کے سیاسی سانپوں کے باوجود اگر پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں نیز قبائلی علاقہ جات ، بلوچستان اور کراچی میں پاکستانی حکومت کی عملداری قائم ہے تو اس کا سہرا بلاشبہ آئی ایس آئی کے ہی سر ہے۔ پاک فوج کو تو کبھی کبھی جنگ میں حصہ لینے کی نوبت آتی ہے۔ مگر آئی ایس آئی ہر روز حالت جنگ میں ہوتی ہے۔ یہ آئی ایس آئی ہی ہے جو جاگتی ہے تو پوری قوم بے فکر ہو کر سوتی ہے۔

ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق پاکستان ’ڈیجیٹل جاسوسی‘ میں بھی سب سے آگے ہے۔ اور اس ضمن وہ انٹرنیٹ سے معلومات کشید کر کے ان عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کے ایک حصے کے طور پر استعمال کر رہا ہے جو آپس میں ابلاغ کے لئے انٹرنیٹ پر موجود سوشل فورمز کو بروئےکار لاتے ہیں۔

حال ہی میں آستین کے سانپ اور خطرناک دہشت گرد عزیر بلوچ کو آئی ایس آئی ہی سزا کے کٹہرے میں لائی۔ اس کے علاوہ چٹیل اور نوکیلے پہاڑوں کے دامن میں  شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب کی کامیابی اور بلوچستان سے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس آفیسر کبھوشن یادیو،  بلاشبہ آئی ایس آئی کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

بظاہر آئی ایس آئی کا کوئی ترجمان نہیں ہے مگر ہر پاکستانی اپنے اس اعلٰی عسکری ادارے کی بے لوث خدمات اور بے دریغ قربانیوں کا معترف ہے۔ اور ہم اس ادارے سے تعلق رکھنے والے اپنے گمنام سپاہیوں کے عظیم کارناموں کو تہ دل سے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہیں بعض اوقات کفن اور تدفین کی سعادت بھی محض ’’پاکستان کے سپاہی‘‘ ہونے کی وجہ سے نصیب نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں کوئی گارڈ آف آنر ملتا ہے اور نہ ہی کوئی اعزازی میڈل یا ستارہ۔

بلکہ آئی ایس آئی کے یہ گمنام سپاہی  وطن کی محبت کے جذبے سے سرشار تاریخ کے تاریک صحفات میں مندمل ہو جاتے ہیں۔ جو اس بات کا غماز ہے کہ آئی ایس آئی کسی نامعلوم سیارے کی مخلوق نہیں ہے بلکہ یہ عظیم لوگ ہم میں سے ہی ہیں۔ لہٰذا ہم سب ہی اس کے ترجمان ہیں۔اور اپنے اس قومی سلامتی کے اہم ترین ادارے کے خلاف کوئی بھی نازیبا بات ہم کسی بھی فورم پر ہرگز سننے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

لہذا! یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ آئی ایس آئی پر بلا جواز تنقید کی بجائے اس ملکی دفاع کے ضامن ادارے کے ہاتھ مضبوط کرنے میں اپنا کردار ا دا کریں۔ اور اسے مزید بدنام کرنے سے حد درجہ پرہیز کریں۔ کیونکہ اسی میں ایک جوہری ریاست کا قومی مفاد اور آئندہ نسلوں کا روشن مستقبل پنہاں ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں