The news is by your side.

میاں صاحب! ملک کی حقیقی خدمت کب کریں گے؟

 میاں صاحب آپ بے شک اس وقت پاکستان میں سیاست کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ گزشتہ کئی عشروں میں آپ کی پارٹی کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی شکل میں حکومت کا حصہ رہی ہے یا باریاں لیتی رہی ہے۔ آپ کے چہرے کی معصومیت اور آپ کے خلاف پانامہ کیس کے نرم فیصلے نے آپ کے لئے ہمدردی کا ووٹ آسان بنا دیا ہے اور آپ کا کہنا بجا ہے کہ آپ پر کوئی ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوئی ہے۔

مگر میرا اور میرے جیسے لاکھوں نوجوانوں کا آپ سے بس ایک سوال ہے کہ آخر ملک کی حقیقی خدمت آپ کب کریں گے؟ کیا اب آپ کی پارٹی کا منشور بس آپ کی چوتھی باری ہے؟ کیا اب ملک میں بس ایک یہی مسئلہ رہ گیا ہے کہ آپ کو نااہل کیوں کیا گیا؟ اور کیا یہ غلط ہے کہ اب بھی آپ کی حکومت ہے اور ہر فیصلہ اب بھی آپ کا چل رہا ہے؟۔

کیا وزیراعظم رہے بغیر آپ ملک کی خدمت نہیں کر سکتے؟ کیا آپ کی پارٹی صرف آپ کے عہدے کی مرہونِ منت ہے؟ میاں صاحب لوگ آج بھی آپ کو سپورٹ کرتے ہیں اور آپ کا ساتھ دیں گے مگر اس ملک کی حالت آپ بہتر کیوں نہیں کر سکے ہیں؟ آپ کے وعدے اور ترقیاتی منصوبے صرف تقریروں تک محدود کیوں رہ گئے ہیں اور حقیقت میں کچھ سامنے کیوں نہیں آ سکا ہے؟۔

اس ملک کے نوجوان آخر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ کہیں اتنے سالوں سے ہماری آنکھوں میں دھول تو نہیں جھونکی جا رہی ہے؟ آیئے آپ کو بتاتے ہیں کہ ملک کے اداروں کا کیا حال ہو چکا ہے اور آپ کو صرف وزیراعظم بننے کی چاہ اور پانچ سال پورے کرنے کی خواہش بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

 تعلیم

تعلیمی میدان میں کون سا ٹارگٹ پورا کیا گیا ہے؟ ملک میں کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو پنجاب میں کم کیا جا رہا ہے اورگورنمنٹ سکولوں کو پرائیویٹ ٹرسٹ اور فاونڈیشن اور کم تعلیم یافتہ افراد کو دیا جا رہا ہے تاکہ تعلیم کو کاروبار کی طرح چلایا جا سکے۔ اساتذہ پر سختیاں کر کے یا خواتین اساتذہ کو لڑکوں کے سکولوں میں لگا کر تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق کیا جارہا ہے ۔

کالجز کو پورا سٹاف تک مہیا نہیں اور پنجاب میں انٹرنز کے ذریعے کالجز میں تعلیم دی جا رہی ہے۔ پورے ملک کی یونیورسٹیوں میں یکساں نظام تو کیا گریڈ سسٹم تک نہیں لایا جا سکااور ہر یونیورسٹی کے سی جی پی اے کو الگ طرح سے فیصد میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

بچوں پر کتابوں کا زیادہ بوجھ تو لاد دیا گیا ہے مگر ان سے مضمون لکھنے کی صلاحیت چھین لی گئی ہے ۔ میاں صاحب ہمارا تعلیمی نظام کب بہتر ہو گا اور کب دکانوں پر کام کرنے والے بچے سکولوں میں جائیں گے؟

صحت

جناب پاکستان میں صرف بڑے شہروں میں ہی لوگ بیمار نہیں ہوتے ہیں، اسپتالوں کی ضرورت چھوٹے شہروں کو بھی ہے اچھے ڈاکٹر اور صحت کی بنیادی سہولیات کب ہر شہر تک فراہم کی جائیں گی؟چھوٹے شہروں کے ہسپتالوں میں برن یونٹس نہیں ہیں، سانپ اور کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہیں ہے اور حادثے  کی صورت میں بڑے شہروں کی طرف جانا پڑتا ہے جہاں اکثر لوگ راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں ، ہمیں اچھا وزیراعظم نہیں صحت کی سہولیات فراہم کریں میاں صاحب۔

توانائی اور پانی

بہت دعوے کئے گئے کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی اور اتنی بجلی بن جائے گی کہ وہ ہم باہر دوست ممالک کو بیچ سکیں گے۔ کہاں ہے وہ بجلی اور دیہاتوں تو دور ابھی تک شہروں میں بجلی پوری کیوں نہیں ہو سکی؟ اور جب بجلی آتی ہے تو کم وولٹیج کا مسئلہ کیوں آتا ہے؟ ملک کو پانی کی کمی کے مسائل درپیش ہیں تو اس کے لئے اعلانات کرنے کے علاوہ کیا کیا گیا ہے ؟ ۔

پچھلے دنوں لوڈشیڈنگ زیادہ ہونے کی وجہ اخبارات میں پڑھنے کو ملی  کہ واپڈا کی طرف سے کہ پانی کی سطح کم ہے اس لئے لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ہے۔ عوام کو کب تک ایسی بنیادی ضروریات کے لئے تڑپایا جائے گا میاں صاحب؟ کیا ان بنیادی مسائل پر بھی کوئی ریلی آپ نکالیں گے یا بس وزیراعظم بننا ہی آپ کا مقصد رہ گیا ہے؟

ریلوے

کچھ وقت پہلے کی بات ہے ہمارے شہروں میں ریلوے سٹیشن لوگوں سے بھرے رہتے تھے ، لوگوں کے روزگار وابستہ تھے ریلوے کے ساتھ مگر اب سٹیشن پر جا کر گھبراہٹ ہوتی ہے کیونکہ دن میں ایک بار ٹرین آتی ہے۔ اب لوگ سفر کرنے کے لئے ٹرین پر نہیں جاتے ہیں بلکہ ٹرین پر سفر کرنا ایک ایڈونچر بن گیا ہے کیونکہ ہماری حکومتیں وقت کے ساتھ اس شعبے میں جدت لانے میں ناکام رہی ہیں ۔

اب بدقسمتی سے یہ ہمارے ملک میں سفر کا سب سے بد ترین طریقہ سمجھا جاتا ہے تو کون اس سب کا ذمہ دار ہے کیا کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار ہو گا؟مان لیتے ہی کہ یہ کسی اور حکومت کی ناکامی ہے مگر آپ آخر کب اس کی بہتری کے لئے کام کریں گے؟ جب آپ کے پاس حکومت نہیں ہو گی تب اس پر توجہ دیں گے؟

پی آئی اے

پاکستان کی سب سے بڑی ائیر لائن پی آئی اے کا سالانہ ریونیو کم ہو رہا ہے جب کے اس کے ملازمین کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔ جب دنیا میں ہراچھی ائیر لائن میں ترقی ہورہی ہے تو  پی آئی اے  کیوں مسلسل نیچے جا رہی ہے جبکہ اگر ملک میں پلاننگ کے ساتھ حقیقی طور پر خدمت کہیں نظر آتی تو یقینا پی آئی اے کو دنیا میں بدترین ائیر لائن جیسے القابات نہ ملتے۔

پی ٹی سی ایل

ایک وقت تھا جب ملک میں صرف پی ٹی سی ایل کے لینڈ لائن فون استعمال ہوتے تھے اور پھر انٹرنیٹ سروس بھی سب سے پہلے پی ٹی سی ایل نے پورے ملک میں پہنچائی مگر اس کے بعد پی ٹی سی ایل کو ایسے محسوس ہوا جیسے جان بوجھ کر موبائل فون کمپنیوں کے کو کامیاب کروانے کے لئے بے یارو مددگارچھوڑ دیا گیا، جہاں ہر موبائل کمپنی نے ایک ایک محلے میں دو تین سگنل ٹاور کھڑے کر دئیے پی ٹی سی ایل کا ایک ہی ٹاور پورے شہر کو کور کرتا رہا اور آخر کار پی ٹی سی ایل کی انٹرنیٹ کی ناکارہ سروس اور سپورٹ کی وجہ سے آج لوگ نہ صرف موبائل فون دوسری کمپنیوں کے استعمال کر رہے ہیں بلکہ انٹرنیٹ کی اچھی اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے انٹرنیٹ پیکیجز بھی پرائیوٹ کمپنیوں کے استعمال ہو رہے ہیں اگر سرکاری طور پر توجہ دی گئی ہوتی تو حالات مختلف ہوتے مگر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

سرکاری نوکریوں کے لئے فیس

میاں صاحب ہمارے ملک میں اچھی نوکری حاصل کرنا ایک خواب ہی بن چکا ہے لوگ ایم فل پی ایچ ڈی کر کے پرائمری ٹیچر بھرتی ہو رہے  ہیں مگر حکومتی سرپرستی میں این ٹی ایس، پی ٹی ایس، اور پبلک سروس کمیشن کے ادارے درخواست کی فیس کے نام پر روز کروڑوں روپے بے روزگاروں سے وصول کر رہے ہیں اور ستم یہ کہ فیس بار بار دے کر بھی نوکری ملنے کی امید میں کوئی اضافہ  نہیں اور پانچ پوسٹوں کے لئے پانچ ہزار لوگوں سے پیسے لئے جاتے ہیں ۔ میاں صاحب عوام کے خیرخواہ اور حقیقی معنوں میں اگر آپ عوام کے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تو یہ بے روز گاروں سے درخواست کے نام پر کروڑوں روپے لینے پر پابندی کا اعلان کریں اور نوکری کے لئے ٹیسٹ کو مفت قرار دے کر ملک کی نوجوان نسل کو اس غنڈہ ٹیکس سے نجات دلوائیں۔ یہ اس ملک کے نوجوانوں کی دل کی آواز ہے۔

اس کے علاوہ جو بھی شعبہ دیکھا جائے چاہے وہ ہائی ویز اور سڑکوں کی بات ہو، پبلک ٹرانسپورٹ کی بات ہو، سیوریج کی بات ہو، صنعتوں اورکارخانوں کی چھوٹے شہروں تک منتقلی کی بات ہو، اشیاءضرورت کی قیمتوں کی بات ہو، انصاف کی تیز رفتار فراہمی کی بات ہو، روزگار کی فراہمی کی بات ہو، اور ایسے عام لوگوں کی زندگی کے بہت سے روزمرہ کے مسائل ابھی بھی حل طلب ہیں۔

میاں صاحب جب آپ ان سب مسائل کے حل کے لئے تقریروں کے علاوہ عملی طور پر اقدامات کریں گے توآپ کواور آپ کی پارٹی کو اپنے منہ سے نہیں کہنا پڑے گا کہ آپ عوام کے وزیراعظم ہیں اور رہیں گے۔

اس ملک اور اس کے نوجوانوں کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو صرف سیٹ کے لئے نہ لڑتا ہو بلکہ جس کو اس ملک کی حقیقی خدمت کا احساس ہو، جو سمجھتا ہو کہ اس ملک میں مسائل صرف تقریروں سے حل ہوتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کو سڑکوں پر اکٹھے کرنے سے بلکہ عملی اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں۔ میاں صاحب جب یہ مسائل حل ہو گئے لوگ خود آپ کو اپنا وزیراعظم مان لیں گے۔

+ posts

پنجاب کے شہر بھکر سے تعلق رکھنے والے عدیل عباس بلاگر اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں اور ایک پیج کے ذریعے نوکریوں کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں