The news is by your side.

آخر ہمارے رویے کب بدلیں گے؟

جب میں سٹور پر خریداری کے بعد کاونٹرپربل جمع کروانے پہنچا تو وہاں کوئی اورگاہک موجود نہ تھا مگر دکاندار مصروف تھا مجھے کچھ دیر انتظار کرنا پڑا‘ اسی اثناء میں وہاں دو تین اور گاہک بھی جمع ہو گئے اور ہر ایک جانتا تھا کہ کون کس نمبر پر پہنچا ہے۔ دکاندار جب فارغ ہوا تو یہ نہ جانتے ہوئے کہ کون پہلے سے کھڑا ہے اس نے ایک دو نوجوانوں کو پہلے فارغ کیا ۔

میں خاموشی سے دیکھتا رہا ، اتنی دیر میں وہاں گاہک اور بھی زیادہ ہو گئے اور ایک کے بعد ایک بغیر کسی ترتیب اور لائن کے اپنا کام کروا کر جا رہے تھے مجھے جلدی تو تھی مگر مجھے لگا کہ مجھے میری باری مل جائے گی تب تک انتظار کرنا بہتر ہو گا ‘تبھی ایک نوجوان جس کی عمر چوبیس سال ہو گی اور اس نے اچھی پینٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی اور تعلیم یافتہ اور اچھے خاندان کا لگ رہا تھا وہ وہاں پہنچا اور جب میں اپنے ہاتھ میں لی ہوئی پرچی دکاندار کو دینے لگا اس نوجوان نے میرے پیچھے کھڑے رہتے ہوئے میرے سر کے اوپر سے ہاتھ گزار کر مجھ سے پہلے اپنی پرچی دکاندار کو دے دی ، میں نے اس نوجوان کی طرف دیکھا وہاں کوئی ندامت یا کوئی احساس اس کے چہرے پر نہیں تھا”۔

بحیثیتِ قوم ترقی کرنے کا جنون پاکستان کی نئی نسل پر غالب ہے اور تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان ہمارے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کر رہے ہیں مگر جس شدت کے ساتھ ہم اپنے ملک اور اس کے اداروں کی بہتری کی امید کرتے ہیں ‘ وہ شدت انفرادی طور پر ہمارے روز مرہ کے رویے میں نظر نہیں آتی ہے۔ ہم لوگ حکومتی اداروں اور سیاسی لیڈروں سے امید کرتے ہیں کہ وہ کچھ ایسا کریں گے کہ راتوں رات سب کچھ بہتر ہو جائے گا مگر بحیثیتِ قوم ہم خود بہتری لانے کو دیوانے کا خواب سمجھتے ہیں۔ہم صبر و برداشت جیسی اسلامی خصوصیات سے دور جا رہے ہیں جن کو اپنا کر آج غیر مسلمان قومیں بھی ہم سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔

سڑک پر بنی ان لائنوں کا کیا مطلب ہے؟

کوئی لکھاری یہ لکھنا نہیں چاہتا مگریہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی اکثریت انتظار کرنے، صبرکرنے، اچھے رویے سے پیش آنے، لائن بنانے، دوسرے کا شکریہ ادا کرنے، دوسروں کا احترام کرنے، مدد کرنے اور اس جیسی دوسری مثبت ذمہ داریوں اور ان کے اثرات سے ناواقف ہیں، نوجوان نسل سوشل میڈیا ، نمود و نمائش ،شارٹ کٹ طریقے سے پیسہ اکٹھا کرنے اور دوسروں سے خود کو اعلی ثابت کرنے کو ہی زندگی کا مقصد سمجھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

بچپن سے کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں اچھے شہری کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں، دوسروں کی مدد کرنا کیا ہوتا ہے، اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا کیا ہوتا ہے، دوسروں کا احترام کرنا کیا ہوتا ہے، غصہ کیا ہوتا ہے اور ایسی ہر بات جو کتابوں میں نوجوانوں کی تربیت کے لئے لکھی گئی ہے وہ ہر نوجوان پڑھتا ہے۔ ہم لوگ تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں مگر تربیت میں جو کمی رہ گئی ہے نوجوان نسل کی ،آخر اس کا ذمہ دار کون ہے اور بحیثیتِ قوم اس خامی پر قابو پانے کے لئے کب کوئی جامع منصوبہ بنایا جائے گا؟۔

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر اقوام کے درمیان واضح فرق ان کے رویہ اور تعلیم و تربیت کا ہے۔اچھی اقوام کے نوجوان اپنے ذمہ داریوں سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ دوسروں سے احترام اور عزت سے پیش آنے کے مثبت اثرات سے بھی واقف ہیں۔ نوجوان نسل میں تربیت کی یہ کمی ہمارے تعلیمی نظا م اور نصاب کی خامیوں کو نمایاں کر رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر اس خامی کو مستقبل میں کم کرنے کے لئے واضح اقدامات کئے جائیں اور اس مقصد کے لئے تعلیمی اداروں،درست نصاب اور تربیت یافتہ اساتذہ کا بہتر استعمال ہی کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

+ posts

پنجاب کے شہر بھکر سے تعلق رکھنے والے عدیل عباس بلاگر اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں اور ایک پیج کے ذریعے نوکریوں کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں