The news is by your side.

اب کوئی چٹھیاں نہیں لکھتا

اسی کی دہائی کا یہ گانا’چٹھی آئی ہے وطن سے چٹھی آئی ہے‘ اسی کےآخری اور نوے کی شروعات میں ہم نے بھی تب سنا جب ہم بے وطن تھے اور نہ جواں تھے بلکہ کمسن تھے۔لیکن گھروں میں جب بھی ٹیپ ریکاردر پر یہ گانا چلتا تو کمسن جزبات مجروع ہونے لگتے۔دکھ شاید کم عمری میں بھی محسوس کیے جاتے ہیں صرف سمجھے اور سجھائے نہیں جا سکتے۔اماں کے آنگن میں ان کے قریب بیٹھ کر دل پردیسی دکھ محسوس کرنے لگتا۔

یو اے ای میں دہائیوں سے رہنے والے بتاتے ہیں کہ اس گانے کے عروج کے دنوں میں انڈیا اور پاکستانیوں کی بڑی تعداد خصوصا ً محدود کمائی کرنے والے لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ اپنے وطن واپس لوٹ گئے تھے۔ نجانے اس جذباتی فیصلے نے ان کو پرسکون کیا یا بے یارومددگار ساری عمر وہ اس گانے کو بددعائیں دیتے رہے۔

زندگی جذبات کے سہارے سے نہیں گزرتی‘ یہ سچ ہے مگر زندگی کو زندہ رہنے کے لیے جذباتیت کے کچھ رنگ بھی بہت ضروری ہیں۔یہ سچ ہے اب کوئی چٹھیوں میں صدا نہیں لگاتا۔حال ماؤں کے برے ہیں ‘ نہ بیویاں بیواؤں سی دکھتی ہیں۔اب کوئی پنجره توڑ کر آنے کی فرمائش نہیں کرتا ۔جب چٹھی لکھ کر لفافوں میں بند کر کے ٹکٹس لگا کر اور سڑکیں ناپ کر لال ڈبوں میں ڈالی جاتی تھیں جو دنوں کا سفر کر کے پردیس پہنچتی تھیں تو شاید لوگوں میں ایسے جذبات زندہ تھے جو یہ سندیس بھجواتے تھے۔

اب ایک انگوٹھا ہلایا اور اور چٹھی بیٹے یا شوہر کے ہاتھوں میں کھل جاتی ہے مگر جدید ترین سہولتوں نے اس زحمت کے لیے درکار محبت چھین لی ہے ۔سوشل میڈیا‘ فیس بک سکائپ نےدنیا کو جتنا قریب کر دیا ہے۔ محبت اور جذبات اتنے ہی بدحالیوں کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔یہ کچھ ایسی چنگاڑتی ہوئی روشنیاں ہیں جن کی چندھیا دینے والی روشنی اکثر رشتوں کےلمس کی مٹھاس کی پر تاثیر مٹھاس کو نظروں سے اوجھل رکھتا ہے۔

ماں باپ کی تصویر ڈی پی پر لگانا اور ان کے جھریوں بھرے ہاتھ کا سر پر ہونا ایک سا کب ہوتا ہے‘ بیٹوں کا سینے سے لگنا اور فون پر ان کی آواز سننا ایک سا نہیں‘ پیپل کا پیڑ گوگل پر دیکھنے میں اور اس کے گھنے سائے میں بیٹھنے کی تاثیر میں فرق ہے۔

بیٹوں کے آنے پر ماؤں کی آنکھیں بھیگتی ہیں اور کچھ ہی دیر میں ایل ای ڈی پر لگے کسی ڈرامے میں گم ہو جاتی ہیں۔ بیویوں کو فیس بک پر پتی پرمیشور کی فوٹو ہر وقت جاگتی دکھائی دیتی ہے۔ اب حیرت انگیز طور پر پہلے جو دل تصویر اور خط سے بھی نہ بہلتے تھے اب واٹس ایپ کے چند پیغامات اور فیس بک کی چند تصاویر کے ساتھ خوب سکون سے رہتے ہیں ۔

بہنوں کے آنسو اکثر تحائف کی آرزو میں بہتے ہیں ا ور بھائیو ں کے سندیس اپنے لیے روز گارکی خواہش میں بھیجے جاتے ہیں جن میں محض یہ قباحت ہے کہ ایک انسان کاوجود معانی کھو بیٹھا ہے ۔ اکثر لوگ تو سالانہ چھٹی پر بھی گھروں کو نہیں جا پاتے اس لیے بھی کہ کوئی بلاتا نہیں ۔

جدید ترین ٹیکنالوجی اور تیز مواصلاتی ذرائع نے بجا طور پر لوگوں کو فاصلوں کی تکلیف سے نکال دیا ہے ۔دن میں دو تین بار واٹس ایپ اورفیس بک پر لگی ہر وقت کی حاضری عزیزوں کی غیر موجودگی محسوس نہیں ہونے دیتی۔پہلے سنتے تھے انسان کے گرد برقی مقناطیسی لہریں ہوتی ہیں جن کے ملاپ سے خوبصورت تعلق جنم لیتے ہیں ۔اب انسان خود ہی اپنی لہروں کا شکار ہ ہو کر اپنے ہی گرد گھومنے لگاہے۔اپنا چیک ان‘ اپنا کھانا ‘ اپنی تصویر ‘ اپنا رتبہ اپنا عہدہ غرضیکہ مواصلاتی ذرائع کی چکا چوند کر دینے والی ترقی نے انسانی’میں‘ کو اتنا بلند کر دیا ہے کہ اب ’تم‘ کی گنجائش کم سی پڑ گئی ہے ۔

بڑھتی ہوئی غربت اور پھلتی پھولتی دولت میں بدلتے رجحانات نے ضرورتوں اور خواہشوں کو محبت اور انسانوں سے اوپر کر دیا ہے اب شاید بیویوں کے لئے روکھی سوکھی کھا کر غریب شوہر کے ساتھ نبھا نا مشکل ہے ۔غضب تو یہ ہے کہ اکثرگھرانوں کو روٹی کے ہی لالے پڑگئے ہیں ۔ایسے میں محبتوں کی فکر کرے کوئی یا نوالوں کی کرے۔تبھی مائیں ڈوپٹوں سے آنکھیں پونچھتی ہیں اور بیٹوں کو پردیس رخصت کر دیتی ہیں۔کبھی اس لیے کہ گھر کی باقی آبادی روٹی حاصل کر سکے‘ کوئی ٹھکانہ بن سکے‘ گھربن سکے یا بیٹیوں کی شادی اعلیٰ طریقے سے ہو سکے۔

بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کے ساتھ ضروریات اور خواہشات کی بہتات بھی انسانی انگلیاں جکڑ لیتی ہیں اور کبھی ایسی چٹھی لکھنے نہیں دیتیں اور دیس کی غیر محفوظ صورتحال بھی ایسی چٹھیاں نہ بھیجنے کی ایک اہم وجہ ہے چھوٹو گینگ، بچوں اور بڑوں کے اغوا، دہشت گردی، جگہ جگہ لگ جانے والی آگ اور پھیلی ہوئی بیروزگاری میں کیا کوئی اپنے راج دلارے کماو ٔپوتوں کو واپسی کے لیے صدا دے۔

جن راہوں پر قدم قدم کلیجہ منہ کو آتا ہو ان پر اپنے ہیرے جیسے بیٹوں اور سونے جیسے سرتاجوں کو واپس بلاتے کئی بیویوں اور ماؤں کے کلیجے منہ کو آتے ہیں ۔سماجی عدم تحفظ بھی محبت پر بند بانھے رکھتا ہے ۔سونے کے انڈے دینے والی مرغی کی کوئی قربانی نہیں چاہتا ۔بیٹا‘ بھائی یا شوہر حدوں سے دور رہے لیکن محفوظ رہے کماتا رہے اور بھیجتا رہے۔جب ایک فرد سے دس دس لوگو ں کی زندگی اور خوشحالی جڑ جائے تو تھوڑی سی خودغرضی مجبوری بن جاتی ہے پھر یہ کہنا تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے کہ ’اپنے گھر میں بھی ہے روٹی‘۔روٹی سے اعلیٰ بھی کچھ چیزیں ہیں جیسے نئے نئے موبائل‘ الیکٹرانک مشینری‘ ہینڈ بیگز‘ امپورٹڈ کریمیں اور لوشن جو صرف ان محبتوں کو خدا حافظ کہنے کے طفیل ہی ملتی ہیں ۔

بہت سے رشتے اور تعلقات ضرورت کی حد تک نبھائے جاتے ہیں ان ضروریات کے چکر میں کچھ وجود گھن چکر بن جائیں تو کیا غم ہے۔شاید یہی وجہ تھی کہ اکثر بے وطن لوگ یہ گانا سن کر اپنا سب کچھ تیاگ کر وطن واپس لوٹ گیے تھے۔کیونکہ ایسی چٹھیاں بہت کم ہی لکھی جاتی ہیں ۔اس گیت میں ہر بے وطن کو وہ صدا سنای دی جو کبھی لگائی ہی نہ گئی اور آج کے چمکتے سورج سے تند زمانے میں تو ان کا وجود ہی معدوم ہو چکا۔

یہ سچ ہے کہ جذبات کے سہارے زندگی نہیں گزرتی۔مگر کچھ جذبات زندگی میں زندگی کو زندہ رکھنے کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔جذبات اور عقل کے درمیان ایک مناسب توازن ہی زندگی کو خوبصورت اور انسان کو مشرف المخلوقات بناتا ہے۔پانی کے بہاؤ میں زمانے بہہ جاتے ہیں‘ زندہ وہی افراد اور معاشرے رہتے ہیں جو ان بہاؤ پر بندھ باندھ سکیں ورنہ افراد اسی طرح ان لکھی چٹھیوں پر لگے روزگار چھوڑ کر سراب کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں