عدنان احمد
پاکستان کے لاکھوں طالب علم بیرونِ ملک میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، مگر ان میں سے اکثریت مالی طاقت اور دیگر وجوہات کی وجہ سے اپنی خواہش کو پورا کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرپاتے،ایک رپورٹ کے مطابق 48.7% کراچی کے نوجوان ملک کو چھوڑنا چاہتے ہیں، پچھلے چھ سالوں میں پینتیس لاکھ سے زائد نوجوان روزگار کے لیے بیرونِ ملک جاچکے ہیں۔جس کی بنیادی وجوہات بیروزگاری، ناامنی، کیریئر کے مواقع کی کمی، وغیرہ ہے۔
ہر سال پاکستان سے ہزاروں طالب علم تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں، اور ان میں سے اکثریت واپس لوٹ کر اپنے ملک نہیں آتی، اور یہ بات پاکستان کا ہر باشعور انسان جانتا ہے۔
سوال یہ بنتا ہے کہ وہ واپس کیوں آئیں؟
جب ایک طالب علم دیکھتا ہے کہ ہمارے جامعات میں لبرل اور روشن خیال سوچ رکھنے والے طالب علم مشعال خان کو توہین رسالت کا الزام لگا کر بے دردی سے ماردیا جاتا ہے اور بعد میں ، اور بدقسمتی یہ ہے کہ بے دردی سے مارنے والے اس کے ساتھ کے طالب علم ہی ہوتے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے جامعات میں مذہبی جماعتوں کی طلبہ تنظیموں کی بدمعاشی حد سے زیادہ ہے اور وہ لڑکیوں کو کرکٹ کھیلتا نہیں دیکھ سکتے۔،
جب ایک امن پسند اور روشن خیال طالب علم ایسی خبریں سنتا ہے کہ ہماری جامعات سے طالب علم تعلیم حاصل کرنے کے بعد انصارالشریعہ جیسی دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوجاتے ہیں، جو پاکستان کے بڑے بڑے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔صرف طالب علم ہی نہیں، بلکہ جامعات کے کئی پروفیسرزکے تانے بانے دہشت گرد تنظیموں سے ملتے ہیں اور جب ان کی گرفتاری عمل میں آتی ہے تو معاشرہ حیرت سے انگلیوں دانتوں تلے دابے رہ جاتا ہے۔
جب ہمارے جامعات میں پاکستان کی اقلیتی برادریاں اپنی پہچان چھپا کر تعلیم حاصل کریں گی، تاکہ کوئی شدت پسند ان کو واجب قتل نہ قرار دے،اور پھر جب طالب علم کو یہ مشکل ترین سفر گزارنے کے بعد بھی کوئی واضح امید نظر نہیں آرہی ہوتی کہ آیہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے کیریئر کا آغاز کر سکے گا یا نہیں‘ تو آخر وہ کس لیے ملک میں رہنا پسند کرے ‘ خصوصاً دیار ِ غیر میں اس کی مانگ بھی ہے ‘ عزت بھی اور کسی حد تک وہ محفوظ بھی ہے۔
ہمارے سیاسی لیڈر اور اعلیٰ حکام ہر سال بیرونی ممالک کا دورہ کرتے رہتے ہیں، اور وہاں بہت سے پاکستانی طالب علموں سے ملاقات بھی کرتے ہیں، کیا کبھی انہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں سے یہ سوال پوچھنے کی کبھی کوشش کی کہ آپ اپنے ملک میں واپس کیوں نہیں آجاتے؟ مگر امید ہے کہ ہمارے حکمران ایسا سوال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، کیونکہ وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی شرمندہ نہیں ہونا چاہتے ۔
پس جب تک ہمارے ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی سوچ خاتمہ نہیں ہوجاتا، جامعات کے اعلیٰ سطح پر روشن خیال اور تعلیم یافتہ لوگوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا، تب تک ہم اپنے نوجوان روشن خیال طالب علموں کو بیرونِ ملک جانے سے نہیں روک سکتے، ہمارے حکمران اور اعلیٰ سطح پر فائز افراد کو سوچنا ہوگا کہ جس تعلیم یافتہ طبقے نے ملک کا مستقبل سنبھالنا ہے، اگر وہ بیرون ملک چلا جائے گا تو اس جناح کے پاکستان کا مستقبل کون سنبھالے گا ؟ سعد عزیز جیسی سوچ والے طالب علم یا مشعال خان اور اعتزاز حسن جیسے طالب علم؟۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں