The news is by your side.

بوجھ – دل کے تاروں کو چھو لینے والا افسانہ

کچی کلی کی سی نازک بالی عمر تھی اس کی اور کاندھے پر رنگ برنگے خوابوں کا انبار تھا۔ نئے دور کے فیس بک، انسٹا گرام، یو ٹیوب کی ترغیبات سے لے کر ٹی وی پر صبح شام چلتے نئے پرانے مسحورکن ڈراموں تک، اک بوجھ سا بوجھ تھا جو سنبھالا نہ جاتا۔شور سا شور کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔جیسے کپڑوں کی الماری میں ڈھیروں ڈھیر کپڑوں کاگھمسان کارن مچا ہو، کسی قمیض کا بازو ہاتھ میں آتا ہواور کسی شلوار کا پائنچہ، پورا ڈوپٹہ ملتا ہو نہ پورا سوٹ! یہی اس کی نوخیز، معصوم، نازک سی کچی کلی جیسی عمر کا عزاب تھا۔

پھولوں پہ گری شبنم بھلی لگتی تو کانٹے چبھو بیٹھتی‘ بارش کی ٹھنڈی بوندوں میں ننگے فرش پر چلنے کی آرزو کرتی تو پتھروں سے پاؤں زخمی ہو جاتے۔حسین خوبصورت بھلی لگنے والی چیزیں اپنی خامیاں چھپائے رکھتیں اور تب تک نہ دکھاتیں جب تک اس کے لب، ہاتھ یا پاؤں زخمی نہ ہو جاتے! مگر یہ نہ لب تھے نہ نازک انگلیاں نہ گورے مخملیں پاؤں! یہ تو حیات تھی‘ اس کا کل وجود! جس کو داو ٔپہ لگاتے وہ بھول گئی تھی کہ ہار گئی تو اس کا متبادل نہیں تھا اس کے پاس ۔زندگی کی آنے والی دہائیوں کی طرف جاتا ایک موڑ، اس کے انجام کی سمت کا تعین کرتا ایک پل! اور وہ اس واحد رستے، واحد پل سے پھسل گئی تھی اور اپنی قیمتی حیات کو کسی بیکار شے کی طرح گنوا بیٹھی تھی۔

اپنا وجود وہ ایسے ہار گئی تھی جیسے پٹھو گرم کا کھیل ہو یا کینڈی کرش کی بازی ۔یونہی پندرہ منٹ آدھ گھنٹے میں پھر سے باری آ جائے گی۔ہار کہاں مستقل ہے! اسے کسی نے نہ بتایا کہ زندگی کینڈی کرش کی بازی نہیں ہو تی ۔اس میں ہار جانے والوں کو پھر موقع نہیں ملتا۔اس میں لوگوں سے زندگیاں تحفے میں نہیں ملتیں‘ ڈوب جانے والوں کو بچانے کے لیے کوسٹ گارڈ نہیں ہوتے ۔یہاں تو مگرمچھ چھوٹی مچھلیوں کو سالم نگل جاتے ہیں‘ طاقتور کمزور کو ڈھیر کر دیتے ہیں اور بھنوروں سے بے وفا کچی کلیوں کا رس پی کر اڑ جاتے ہیں ۔

حماد اور فائز ہ کا ٹکرانا ایسا ہی تھا جیسے الفا‘ براوو‘ چارلی کی شہناز کا قاسم سے ٹکرانا۔وہ بھی نوخیز اور جواں خون تھی اوپر سے کیسے کیسے ڈراموں، خوابوں اور ناولوں کا سایہ تھا۔وہ بھی چنگھاڑ چنگھاڑ کر قاسم کی بےعزتی کرتی رہی اور آخر میں خود ہار گئی۔اپنے غرور، اپنے فخر زدہ اعتماد اور دھماکوں کی طرح برستے فقروں کی داستانیں اس کا گولڈ میڈل ٹھہریں۔سر پر شہناز سا غرور چمکنے لگا، سہیلیاں مرعوب سی مرعوب ہوئیںاور اسے خبر نہ ہوی کہ بازی ماری نہیں بلکہ اسے مات ہوئی ہے۔یہی غرور کیا کم تھا کہ کیسا شہرہ آفاق کردار اس کی صورت زندہ تھا، دن بھر چلنے والے نئے پرانے کتنے ہی ڈراموں کی شہناز، اور سنیعہ کی طرح۔

زندگی ڈرامہ نہ تھی مگر ڈرامہ سے بڑھ کر حسین ہوئی ۔مرکزی کردار جو خود اسی کا تھا، کہانی بھی ساری اسی کے گرد گھومتی! وہ اپنے سپر ہٹ سیریل کی ملکہ تھی۔ قول وقرار بھی ہوئے ، ٹیکسٹ اور واٹس اپ بھی، تصویریں کے البم بھی بنے اور ویڈیوز بھی۔مہینوں کے عشق کے سب مراحل چند ہی دنوں میں طے ہوئے‘ مگر فکر کسے تھی۔

کتنی ہی ہندوستانی فلموں میں ہیرو‘ ہیروئین کی گری چادر اٹھا کر اڑھاتے ہیں اور بکھر جانے کے بعد زرہ زرہ سمیٹ کر پھر سے مرکز میں لے آتے ہیں ۔وہ سمجھتی تھی عشق کی اس بازی میں شہہ اسی کی ہے۔راستے آسان اور خوبصورت تھے اور منزلیں دسترس میں ۔قدیم روایتی زمانوں سے باپوں اور بھائیوں کے پہرے تھےنہ گھر کے واحد فون پر پکڑے جانے کے خطرات۔جدید زمانے کی چالاکیوں سے چمکتے ستارے فائزہ کے قدموں تلے تھے اور کہکشائیں چند ہاتھ کی حد پر جھلملا رہی تھیں۔

زندگی فلم نہ تھی مگر فلم سے بڑھ کر خوبصورت ہوئی ۔ہاتھ کے لمس سے پوروں کے ملاپ تک سنسنی ہی سنسنی تھی، رنگ ہی رنگ اور سرور سا سرور تھا۔گناہوں کی لزتیں احساس جرم کے بغیر!!! احساس جرم اور حیا آتی بھی کہاں سے،،، ٹی وی کی سکرین سے ٹیبلٹ اور موبائل کی نیلی روشنی تک،داد ہی داد تھی ، ترغیب ہی ترغیب تھی اور آگ ہی آگ تھی۔حماد کا ہاتھ تھامے زمین سے آسماں کی حدوں تک کےسفر کی کتنی منزلیں لمحات میں سر ہوئیں۔

کوئی ٹی وی پہ چلتا سیاسی مزاکرہ نہ تھی زندگی‘ مگر مزاکرے کی مانند بے نتیجہ ختم ہوئی ۔کالج اور یونیورسٹی کے سالوں کی گنتی ختم ہوئی ۔خوابناک سفر انتہاؤں سے اختتام تک پہنچا۔کچھ رنگ برنگے وعدے وعید، کچھ خالی ادھوری قسمیں ‘ بستر کے ساتھ باندھے ویگن پر اپنے سامنے رکھے وہ چھوٹے سے گھر کی محدود سی دنیا کی طرف لوٹی۔بے جان وعدے اور قسمیں جن سے کچھ ہی روز میں مرے ہوے ناپاک جسموں جیسی سرانڈ آنے لگی۔راتیں چیخنے لگیں، سوال زہریلے درختوں کی طرح سر اٹھانے لگے۔آنکھوں سے نیند رخصت ہوئی‘ دل سے سکوں گم گشتہ ہوا۔

راج کے انتظار میں بیٹھی سمرن کے قدم اور وزن بھاری ہوئے۔ کال کوٹھری میں اک ان چاہی جان سانس لینے لگی تو ستاروں اور بہاروں کی حدیں جل کر بھسم ہونے لگیں اور پیروں تلے پاتال جلنے لگا۔شہر کی دہلیز پر ذرا دیر رکنے والی کسی ریل گاڑی سے ہاتھوں میں جادو، لہجوں میں کمال لیے کوئی راج نہ اترا۔یہاں تک کہ سانسیں محال ہوئیں، لذت وسرور،، عشق ومستی کے سب جھوٹے خدا ‘ پاش پاش ہوئے اور جھولی میں رہ گئے کچھ بدبودار گناہ، کاندھے پر ذلتوں کا بوجھ، دل پر دھوکے کے عذاب، پلکوں پہ پچھتاوں کا بیکار ‘بے فائدہ سایہ، ! زندگی فلم نہ تھی۔باپ بھی ہاری ہوئی زندگی کی واپسی کی نوید دے کر نہ کہہ سکا، کہ’جا سمرن! جی لے اپنی زندگی! ‘ ریل گاڑیاں سب نکل گئیں اور آنے والے رستوں کے بیچ سے ہی منزلیں بدل چکے تھے۔ جنت کی گود سے پھسل کی جہنم کی گہرائیوں تک اسے تھامتا اب کوئی ہاتھ نہ تھا ،کوئی جواں، نہ کوئی جھریوں بھرا کانپتا ہوا! زندگی کی مردہ لاش کا بوجھ اٹھانا مشکل تھا ۔ زندگی ڈراؤنی فلم بھی نہ تھی مگر اس سے بڑھ کر ڈراؤنی ہوگئی۔

ایک مختصر زندگی میں کتنے ہی کردار ساتھ جینے والی، خوابوں کے بوجھ تلے دب کر رنگوں اور جلوؤں کے شور شرابے میں خود کو ہار دینے والی کے سامنے اب صرف ایک ہی رستہ تھا۔اک ان چاہی بے نام زندگی کو جنم دے کر تاریخ کے صفحات پر ڈراموں اور فلموں کے آخری بچے انقلابی کرداروں کو زندہ کر دے۔ اپنے گناہ کو تمغہ بنا کر سینے پہ سجائے اور زمانے سے لڑ جائے ۔ ہاری ہوی زندگی کی آخری چال اک دوسری زندگی کی خاطر چل کر خود کو بھسم کر لے۔عشق، محبت، گناہ، اور ان کے ساتھ بونس کی طرح ملنے والے عذابوں کا اعتراف کر کے سزا کی مدت پوری کرے۔

اذیت بھرے حاصل میں جس کو ہاتھ لگاتی اسی حل کا سرا پکڑ پاتی مگر!!!! ایک اندھیری رات میں اپنے اندر پلتی سانسوں کے ساتھ پنکھے سے لٹک کر یہ آخری داو ٔبھی ہار گئی ۔جو خوابوں کا بوجھ نہ سہار سکی تھی ‘ وہ آخر عذابوں کو کس طرح جھیل پاتی۔ یہ حیات تھی جسے داؤ پہ لگاتے وہ بھول گئی تھی کہ ہار گئی تو اس کے پاس اس کا متبادل نہیں تھا۔

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں