The news is by your side.

جدوجہدِ آزادی کا سانجھا شہید

یہ۱۳اپریل ۱۹۱۹ کا ہندوستان ہے اور جگہ ہے امرتسر کا جلیانوالہ باغ‘ جہاں پر ہندو‘ مسلمان اور سکھ اس تاریخی باغ میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ مقصدانگریز سرکار کی جانب سے دو مقامی لیڈروں ستے پال اورڈاکٹر سیف الدین کچوال کی گرفتاری اور ان کے صوبہ بدر کرنے کی صورتحال پر غورخوض کرنا تھا۔ اسی دن سکھ مذہب کا مذہبی تہوار وساکھی بھی تھا اور گولڈن ٹیمپل قریب ہی ہونے کی وجہ سے سکھوں کی بہت بڑی تعداد بھی باغ میں موجود تھی جو وہاں اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کے بعد باغ میں آئے ہوئے تھے ۔

بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی بھی موجود تھی امرتسر پچھلے کچھ دنوں سے دنگے فساد کی زد میں تھا جو ایک کالے قانون رولٹ ایکٹ ۱۹۱۹جس میں کسی بھی ہندوستانی کو بغیر کسی وجہ کے حراست میں رکھنے اوردو سال تک بغیر کسی ٹرائل کے جیل میں بند کرنے کا پولیس کو اختیار دے دیا گیا تھا ‘کے خلاف احتجاج کی وجہ سے پھوٹ پڑے تھے اور ان میں انگریزافسر جن کی تعداد دو تین سے زیادہ نہ تھی مارے گئے تھے جب کہ کئی ہندو سکھ اور مسلمان کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا تھا۔

انگریز سرکار نے امرتسر میں کرفیو اور مارشل لا کا فرمان بھی جاری کیا جس کا علم اس اجتماع میں شریک لوگوں کو نہیں تھا۔ اس وقت انڈین برٹش آرمی کی کمان کرنل ریجنلڈایڈورڈ ہیری ڈائر کررہا تھا جیسے عارضی طور پر بریگیڈیئر کے اختیارا ت بھی سونپ دیئے گئے تھے اس نے ہی امرتسر میں کرفیو اور مارشل لاء کا حکم دیا تھا اس نے یہ بھی حکم دیا کہ کسی بھی احتجاج کرنے والے کوگولی مار دی جائے لیکن اس کرفیو اور مارشلا کی کھل کر تشہیر نہیں کی گئی تھی جس کے پیچھے اصل مقصد یہ تھا کہ کوئی بہانہ تلاش کرکے انگریز آفسروں کے قتل کا بدلہ لیا جائے۔

ریجنلڈایڈورڈ ہیری ڈائر کے متعلق ایک اہم بات آپ کو آگاہ کرتا چلوں ‘ وہ ۹ اکتوبر ۱۸۸۴کو مری (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہو وہ گھوڑا گلی کالج مری کا تعلیم یافتہ تھا۔اس کا باپ ایک شراب کشید کرنے والا تھا جس نے مشہور کمپنی قائم کی جو کہ آج بھی پاکستان میں شراب کشید کرنے والی چند فیکٹریوں میں شامل ہے۔

جلیانوالہ باغ تقریباً آٹھ ایکڑ پر مبنی باغ ہے جس کے تمام راستے داخلی اور خارجی نہایت ہی تنگ ہیں اس کی شکل گول پیالے سی ہے جس کے اردگرد اونچی اونچی دیواریں ہیں۔بریگیڈیئرڈائرنے انگریزوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے اپنی گورکھا رجمنٹ کے دستوں کے ساتھ جلیانوالہ باغ پہنچاسب سے پہلےاس نے باغ کے داخلی دروازے پر ٹینک کھڑا کرکے اسے بند کردیا اور پھرخارجی راستوں کو تالے لگوا کر نہتے اور پرامن شہریوں پر فائرنگ کا حکم دے دیا اور دس منٹ تک مسلسل فائرنگ کراتا رہا ۔

بریگیڈیئر ڈائرسپاہیوں کوحکم دیتا رہا کہ وہ باغ کے خارجی دروازے جو کہ پانچ تھے‘ ان کی جانب خاص طور پر گولیاں برسائیں تاکہ بھاگنے والوں کو نشابہ بنایا جاسکے۔لوگ اپنی جانیں بچا کر بھاگ رہے اور جس طرف جاتے اسی طرف گولیاں برسانے کا حکم دیا جاتا،وہیں ایک کنواں بھی تھا جب اور کوئی جائے پنا ہ نہ ملی تو لوگوں نے کنواں میں چھلانگیں لگانا شروع کردیں،کنواں بھی لاشوں سے پر ہوگیا کئی اس میں دم گھٹنے اور ڈوب کر مرگئے۔ڈائر مسلسل فائرنگ کا حکم دیتا رہایہاں تک فوجی دستوں کے پاس ایمونیشن ختم ہوگیا۔

بعد ازاں جاری عداد شمار کے مطابق جو کہ برٹش گورنمنٹ نے جاری کیا اس دن سولہ سو پچاس راوئنڈ فائر کئے گئے جس سے 379 افراد جاں بحق اور 800 کے قریب زخمی ہوئے، انڈین نیشنل کانگرس کے مطابق اصل تعداد مرنے والوں کی 1000 سے بھی زیادہ تھی اور1500 افراد ززخمی ہوئے جبکہ کچھ اور تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 2000 کے لگ بھگ تھی۔ تعداد خواہ کچھ بھی ہو۔لیکن بریگیڈیئرڈائرظلم بربریت اور سفاکیت کا وہ باب رقم کر چکا تھا جس کا بدلہ لینا‘ پانچ دریاوں کی اس سرزمین کے رہنے والوں پر بہت بڑا قرض تھا۔

خون ناحق جب اپنی ہی دھرتی پر گرتا ہے تواسی دھرتی کے خمیر سے ہی کوئی نہ کوئی اس کا بدلہ لینے بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے جلیانوالہ باغ میں جب یہ خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی تو ایک بیس سال کا جوان بھی اس مجمع میں شامل تھا اس کی آنکھوں کے سامنے مرد عورتیں بچے گولیاں کھا کر گر رہے تھے درد تکلیف سے چیخ چلا رہے تھے کئی جان بچانے کے لئے کنواں میں چھلانگے لگارہے تھے۔کئی باغ کی اونچی دیواروں پر چڑنے کی کوشش کررہے تھے نشانہ باز تاک کر ایسے لوگوں پر گولیاں مارتے اور وہ کسی شکار کئے ہوئے پرندے کی طرح نیچے گرتے پورا باغ خون سے سرخ ہورہا تھا ہرطرف ایک بھگدڑ مچی ہوئی تھی اس بیس سال کے نوجوان کے بھی دائیں بائیں‘ اوپر نیچے سے گولیاں نکل رہی تھیں لیکن اس کو ایک بھی گولی نے نہیں چھوا‘ ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ یہی وہ مٹی کا خمیر اور بیٹا تھا جس کے ہاتھوں قدرت کو اس قتلِ عام کا بدلہ لینا مقصود تھا اور اس شخص کا نام اُودھم سنگھ تھا۔

اُودھم سنگھ ۲۶دسمبر۱۸۹۹ کو سنگرورضلع میں ایک غریب ریلوے ملازم تلہ سنگھ کے گھر پیدا ہوا۔ پیدائش کے کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ ماں باپ کے سایہ سے محروم ہوگیا‘ اسے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ خالصہ آشرم امرتسر میں داخل کروادیا گیا جہاں کچھ عرصہ بعد ہی اس کا بڑا بھائی بھی ایک بیماری کے باعث انتقال کرگیا۔اُودھم سنگھ جلیانوالہ باغ کے بے گناہ ہم وطنوں کے قتل عام کا بدلہ لینے کے لیے بے قرار تھا اس نے قسم کھائی کہ مٹی جوکا قرض اس کے سرہے وہ بریگیڈیئر ڈائر کے خون سے چکائے گا۔آشرم سے نکلنے کے بعد اس نے بڑھئی کا کام سیکھا اور کئی سال دن رات اس نے محنت کرکے جو پیسہ کمائے ان سے وہ امریکہ چلا گیا اور ایک ہوٹل میں کام کرتا رہا جہاں وہ تقریباً پانچ سال رہا۔

وہ چاہتا تو اس واقعہ کو بھول کر مستقل وہاں رہائش اختیار کرسکتا تھا لیکن بدلا لینے کی دھن اس پر سوار تھی لہذا وہ دوبارہ ہندوستان آگیا اور آزادی کی کئی خفیہ تنظمیوں کے ساتھ مل کر کا م کرتارہا لیکن اس کا اصل مقصد پنجاب کے مشہور انقلابی لیڈر بھگت سنگھ کو ملنا اور اس کی تنظیم کے ساتھ کام کرنا تھا‘ بھگت سنگھ کے ساتھ کام کرتے ہوئے وہ ایک دفعہ گرفتار ہوا اور پانچ سال کے لیے جیل چلا گیا۔اسی اسیری کے دوران اسے پتہ چلا کہ بریگیڈیئر ڈائر فالج کے مرض میں مبتلا ہوکر مرگیاہے۔

یہ علم ہونے پر اسے افسوس تو تھا کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے کیوں نہیں مارسکا لیکن جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کا ایک کردار ابھی زندہ تھا اور وہ تھا پنجاب کا اس وقت کا گورنر لیفٹینٹ جنرل مائیکل ڈائر،اس نے ہی ایڈورڈ ہیری ڈائر کو خاص اختیارات دے کر مرتسر بھیجا تھا‘ جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ کسی نہ کسی طرح لندن پہنچا اور ۳۱مارچ ۱۹۴۰کوجب جنرل مائیکل ڈائر لندن کے کنگسٹن ہال میں ایک تقریب میں تقریر کررہا تھا۔ اُس نے ریوالر کی چھ کی چھ گولیاں اس کے سینے کے آر پار کردئیں اور اپنے آپ کو پولیس کے حوالہ کردیا اس موقع پر اس کے چہرہ پر ایک اطمنان اور سکون تھا کیونکہ بالآخرکاربیس سال بعد اس نے اپنے ہم وطنوں کے خون کا بدلہ لے لیا تھا۔ وہ بے گناہ انسان جو کہ ہندو تھے سکھ تھے یا مسلمان۔ اُودھم سنگھ کسی ایک مذہب سے تعلق رکھنے والوں کا ہیرو نہیں تھا بلکہ وہ ان مذاہب کے ماننے والوں کا مشترکہ ہیرو تھا۔

مہاتما گاندھی نے جنرل ڈائر کے قتل کی پرزور مذمت کی کیونکہ اس کے خیال میں یہ اقدام اس کے فلسفہ عدم تشدد کے منافی تھا اس نے باقاعدہ برطانوی حکومت کو خط لکھ کر اپنے افسوس کا اظہار کیا جبکہ کہا جاتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اُودھم سنگھ کا کیس لڑنے کی آفر کی لیکن اُودھم سنگھ اپنے جرم کا اقرار کرچکا تھا اپنے بیان میں اس نے صاف کہا کہ جلیانوالہ باغ کے قتل عام کا بدلہ تھا‘ لہذا اُسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا اور ۳۱ جولائی ۱۹۴۰ کو اسے لندن کی ایچ۔ایم پرزن پینٹاویل میں پھانسی دے دی گئی ۔

ہندوستان کی تحریک ِ آزادی کے دوران پیش آنے اُودھم سنگھ کسی ایک مذہب سے تعلق رکھنے والوں کا نہیں بلکہ ان تین مذاہب کے ماننے والوں کا سانجھا شہید ہے جس کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں