The news is by your side.

پاکستان کی عورت اسلام کے آفاقی حقوق سے محروم کیوں؟

فیس بک پر کسی کی دیوار پر ایک مضمون پر نظر پڑی جس کے اوپر ایک بڑے صحافی کا نام لکھا تھا اگرچہ صحافی کے نام اور مقام سے انتہائی آگاہی کی بنا پر میں بخوبی آگاہ تھی کہ یہ الفاظ اور خیالات ان کے قلم کے نہیں لیکن لمحہ فکریہ تو یہ تھا کہ ایک بڑی تعداد پڑھے لکھے طبقے کی نہ صرف اس تحریرسے متفق تھی بلکہ اس کو پوری طرح سے تقویت دیتی ہوئی نظر آئی ۔یہ سب دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور دُکھ بھی ،کہ اگر ہمارا پڑھا لکھا طبقہ اس انداز میں سوچتا ہے پھر غیر تعلیم یافتہ معاشرے اور بے شعورعوام سے کوئی کیا شکایت کر سکتا ہے۔

اس مضمون میں اس خبر کی طرف توجہ دلائی گئی کہ غیر ملکی ایجنسیاں اور اسلام دشمن طاقتیں کس طرح سے پاکستانی مخلص اور معصوم عورتوں کو ایک سازش کے تحت ورغلا رہی ہیں ‘ اس کے لیے کیا کیا مراعات پیش کی جاتی ہیں اور کیا کیا گل کھلائے جاتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ڈاکٹر فاسٹس کی کہانی یاد آ گئی جو دنیاوی مزے اور عیش و عیاشی کے لیے خود کو شیطان کے ہاتھوں فروخت کرکے ہمیشہ کے لیے جہنم خرید لیتا ہے اسی پر بس نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اس میں فیمنزم کی بات کرنے والی عورتوں کو ان ایجنسیوں کی زرخرید ایجنٹ اور ان کے کارآمد گروہ کا ایک حصہ بہت وثوق سے اس طرح بتایا گیا کہ جس سے لگے کے عورت کے حقوق کی بات کرنے والی ہر عورت دراصل کسی ایجنسی کی ایجنٹ کسی پارٹی یا گروہ کی فرد ھے اور دراصل اپنی روح کسی غیر دشمن قوتوں کو فروخت کرکے معصوم عورتوں کو اپنے مفاد کی خاطر ورغلا رہی ہے۔

انتہائی افسوس اس لیے بھی ہوا کہ ہم خود کو بھی گردن اکڑا کر سر اٹھا کر ایک فیمنسٹ کہتے ہیں‘ اس کے باوجود کہ کسی بھی قسم کی کسی چھوٹی بڑی این جی او یا ایجنسی سے ہماری واقفیت نہیں ،اور پارٹیوں میں جانے والوں اور دنیا بھر کی سیاحت کرنے والوں کے ساتھ بھی ہمارا کوئی تعلق نہیں بلکہ ہم تو حلفیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک دہائی بھر میں عرب امارات بھی شاید پورا نہیں دیکھا تو دور دراز کی سیاحت تو دور کی بات ٹھری۔

اور یہ بھی کہ اگر کوئی ہمیں آ کر کہے کہ چلو اتنے پیسے لے لو ،اتنی سیاحت کر لو اور گھر ، بچے، میاں کو،اور بیوی ،ماں کی مشکل زندگی چھوڑ کر باہر نکل آؤ تو ہم اس کے سر پرگن کر سو جوتے لگائیں کہ تیری ایسی کی تیسی تو ہمارے چاند سے بچوں اور سورج سے میاں کے بارے میں ایسی باتیں کرتا یا کرتی ہے کیونکہ ہمارا خمیر بھی اسی مٹی میں گوندھا گیا ہے جہاں شوہر کو سر کا تاج بتایا جاتا ہے اور بھائی کو مختار کہا جاتا ہے، گھر کو ایک جنت اور گھرہستی سنبھالنے والی عورت کو شریف اور عزت دار مانا جاتا ہے ۔جہاں مائیں کھلے عام یاچپکے چپکے بیٹوں کو زیادہ کھلاتی ہیں، زیادہ پیار کرتی ہیں اور دل کھول کر آزادی دیتی ہیں جبکہ بیٹیوں کو ہزاروں حیلے بہانوں سے عمدہ کھانوں، خوبصورت خوابوں اور روشن تعبیروں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

جہاں بیویاں ہر حال میں ہر اطوار کے شوہر کی تابعدار ہوتی ہیں اور اسے مالک جان کر سب حقوق کبھی پیار کبھی اطاعت اور کبھی مجبوری میں اس کی جھولی میں ڈال دیتی ہیں اور فرائض سب اپنے دامن میں بھر لیتی ہیں۔اور پھر اس پر نہ خوداُف کرتی ہیں نہ کسی بہن بیٹی،ہمسائی یا سہیلی کو کرنے دیتی ہیں، جہاں ایک عورت خود دوسری عورت کو اپنے حق کی بات کرنے پر تنہا کر دیتی ہےاور جہاں کی ننانوے فی صد عورت ہمیشہ عورت کے خلاف مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جاتی ہے۔ایسے معاشرے کی عورت کو ورغلانا کسی دشمن ایجنسی کا کام نہیں جب تک اس کے گھر کے لوگ اس میں شریک نہ ہو جائیں۔

عموماً برصغیر میں اور خصوصاً پاکستان میں ہندومت کے اثرات پچھلی کئی صدیوں سے جوں کے توں چلے آ رہی ہیں ۔بدقسمتی سے اس خطے کی اقوام صدیوں میں کئی طرح کی جغرافیائی تبدیلی کے باوجود کھرے اور کھوٹے میں فرق نہ کر سکی۔ ہندوازم کے نام پر بننے والے ہندوستان میں بھی ترقی یافتہ اقوام کی دیکھا دیکھی اک بھیڑ چال کے تحت عورت کی تعلیم ،مواقع اور شعور پر توجہ دی جانے لگی ہے چاہے اس کی شرح کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔مگر بدقسمتی سے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں ستر سالوں میں ان رویوں کو کوئی چیلینج نہ کر سکا کیونکہ ہم نے ان پر ہندوازم کی بجائے اسلامی شرعی اور حلال کا ٹیگ لگا کر اس پر سوال اٹھانا مشکل کر دیا ہے۔اور اگر کوئی اٹھانے کی کوشش کرے تو اسے ایجنسیوں،غیر ملکی ایجنٹوں،اور غیر مسلم اسلامی قوتوں کے پروردہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔ورنہ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ کہیں اس طرح کی باتیں پھیلانے والے بھی اسلام اور ملک دشمن قوتوں کے حامی تو نہیں جو معاشرے میں پھیلے اندھیرے ختم نہیں کرنا چاہتے۔

ایک واقعہ پڑھا تھا ،مذہبی عالم نہیں اس لیے حوالہ جات یاد نہیں۔مگر پڑھا ضرور کہ ایک عورت نے آنحضور ﷺکے کے سامنے پیش ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ میرے باپ نے میرا نکاح جس شخص سے کیا ہے میں اس پر راضی نہیں۔آپ نے اس کا نکاح باطل کر دیا۔آپ رسول اللہ ﷺنے یہ نہیں کہا کہ باپ کی عزت رکھ لو ،اس کی پگڑی بچا لو ،اس کا تم پر حق ہے۔وہ تمھارا مالک ہے۔اگر آپ ایسا کچھ کہتے تو وہ لڑکی سوال بھی نہ کر پاتی کہ رسول اللہ ﷺکے دربار میں تھی۔مگر آپ نے کسی پر ترس کھایا ‘ نہ ہمدردی کی اور حق انصاف کا فیصلہ کیا۔

جب پیغمبرﷺ فیصلہ کرے گا تو حقوق کی بنیاد پر کرے گا اور اس فیصلے میں سب سے اہم حق عورت کا تھا۔آج یہ حق پاکستان کے اسلامی معاشرے کی کتنی عورتوں کے پاس ہے۔بلکہ اس حق کو طلب کرنے والی کو بلاشک و شبہ بدکردار سمجھ کر اس پر سختی،ظلم حتی کہ اس کا قتل عین باعث ثواب سمجھا جاتا ہے۔ہمارے ہاں کی کتنی فی صد عورتیں شادی کے بعد اپنے مشاغل ،تعلیم ،،نوکریاں اور کاروبار کرتی ہیں۔

کیا نبی ﷺکی سنت نہ تھی کہ حضرت عائشہ ہم جولیوں کے ساتھ دل بہلانے کے مشاغل اختیار کیا کرتی تھیں اور بعد میں عالم ِ اسلام کی بڑی محدثہ بنیں،حضرت خدیجہ کاروبار کرتی تھیں اور آپ رسول اللہ خدا کے پیغمبر اور ان کے شوہر ہونے کے باوجود نہ صرف ان کا کاروبار سنبھالتے تھے بلکہ آ کر پائی پائی کا حساب بھی دیتے تھے۔ہر مشکل کے وقت میں صلاح کے لیے حضرت خدیجہ کے پاس آتے تھے اور ان کے مشورے کو مقدم جانتے تھے۔

آج کہ ہمارے اکثر پڑھے لکھے تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی شادی کے بعد عورتوں کے نام مقام بدل جاتے ہیں نوکریاں ختم ہو جاتی ہیں ،مشاغل اور تعلیم کچلی جاتی ہے۔اور کاروبار، پیسہ ،اور جائیداد اخلاقی اور جذباتی دباؤ میں آ کر کبھی بھایوں ،کبھی شوہروں اور کبھی بیٹوں کے نام منتقل ہو جاتا ہے۔کتنے شادی شدہ مرد اپنے ادھڑے کپڑوں کی سلائی خود کرتے ہیں؟ جوتے خود سی سکتے ہیں اور گھروں کی صفائی میں بیویوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں،بیویوں سے مشورہ لیتے اور اس کو سر عام سراہتے ہیں؟ کیا یہ نبی پاک کیﷺ سنت نہ تھی؟ جبکہ ان کی تو بیویاں بھی نو تھیں سارا دن باری باری سب خدمت پر لگی رہتیں۔مگر آپ کی زندگی اپنی سنت کوز ندگی کا بہترین نمونہ بنانے کے لیے تھی مگر ہم بدقسمت لوگ صرف آسان اور بے ضرر سنت کا چناؤ کرتے ہیں پیروی کے لیے۔

کیا اسی لیے خطبہ الوداع پر نبی پاک نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ عورت کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔آپ کی بصیرت دیکھ رہی تھی کہ دین اور حفاظت کے نام پر کس قدر بوجھ اکیلی عورت کے کندھوں پر لادا جاے گا۔آج یہ بات کسی کو یاد نہیں۔ صرف یاد ہے اتنا کہ جہنم مرد کی نافرمان عورتوں سے بھری ہو گی۔اسی جہنم میں مرد کتنے ہوں گے، عورت پر ہاتھ اٹھانے والے،اس کا حق کھانے والے،اس کا استحصال کرنے والے یہ کبھی کوئی نہیں بتاتا۔خود مائیں بیٹیوں کو تربیت دیتی ہیں کہ مرد کی ہر آسایش ان کی ذمہ داری ہے چاہے وہ باپ کے روپ میں ہو‘ بھائی کے یا شوہر اور بیٹے کےاور بیٹوں کو سکھاتی ہیں کہ وہ بے روک ٹوک اور بلا شرکت غیرے حکمرانی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

ایک ماں ہی مستقبل کی ماں کے سارے حقوق کسی مرد کی جھولی میں ڈال دیتی ہے تو مرد کیسے اس مفت کے حقِ حکمرانی سے انکار کرے۔کوئی اس نظام پر انگلی اٹھا کر ان کا تخت کھینچنے کی کوشش کرے تو شاہانہ اندازِ فکر کو ٹھیس تو لگتی ہے۔ پیغمبر آخر الزماں ‘نبی تھے ‘ آپ کی آنکھ کے اشاروں پر فرشتے منتظر رہتے تھے مگر پیغمبر تھے اور خدا کی رضا کے بغیر اف تک نہ کر سکتے تھے۔بیویوں کے لیے نہ طاقتور مرد تھے ‘نہ حاکم‘ نہ سربراہ۔آپ سے ناراض ہونا اور اختلاف کرنا آپ کی بیویوں کا حق تھا‘ آپ اس پر غمزدہ ہو ا کرتے تھے مگر ان پر ہاتھ اٹھانا تو دور کبھی سخت لہجے میں تادیب بھی نہیں کہ آپ انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار تھے ۔

ہر وقت اللہ اور اس کے رسول کی سنت کا ورد کرنے والوں کو آج ایسے واقعات یاد نہیں آتے۔ان کے امتیو ں نے آج عورت چاہے وہ ماں ہو،بہن ہو بیٹی ہو یا بیوی اس کے اوپر سے انسان کا لیبل اتار کر صرف اور صرف عورت کا لیبل لگا دیا ہےجس پر ان کو مکمل اختیار ہے،جن پر اجارہ داری کرنا مرد کا ہر رشتے میں حق ہے۔کیا وہ اسلامی شریعت نہیں جس میں روز قیامت ہر جان کو اس کی ماں کے نام سے پکارا جاے گا جبکہ ہمارے معاشرے میں سب آل عیال مرد کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ماں بن کر اگلی نسل کی تربیت کرنے والی عورت کے ساتھ ہم وہ سلوک روا رکھتے ہیں کہ تربیت تو ایک طرف وہ اپنا ہاتھ منہ دھونا بھی بھول جاتی ہے۔آج بھی بیٹوں کو پڑھنے کے لیے پردیس بھیج دینے والے بیٹیوں کو گھر بٹھانا پسند کرتے ہیں۔مائیں آج بھی اکثریت کے گھروں میں طفیلی ہیں شوہر ،بھائیوں یا بیٹوں کی رضا پر سر خم کرنے والی۔ہم نے عورت کو آج تک وہ احترام اور وقار دیا ہی نہیں کہ وہ باوقار خودمختار اور باشعور نسلوں کو جنم دے سکے۔ہماری عورتیں تو صرف اپنی ہی بقا کی جنگ بڑی مشکل سے لڑ پاتی ہیں۔۔یہ تو عام عورتوں کی چھوٹی چھوٹی بے ضرر کہانیاں ہیں ابھی ستی،ونی،کاری،تیزاب گردی اور غیرت کے قتل جیسے بڑے رحجانات کی تو بات تک نہیں کی میں نے۔یہ تو محض عمومی رویوں کی بات ہے۔

دو تین بڑے شہروں کے اک مخصوص طبقے سے نکل کر پاکستان بھر کے چھوٹے شہروں کی عورتوں کو جا کر دیکھیے ذرا ،شریعت کے دیے کتنے حقوق ان کی جھولی میں ہیں۔خدا نے عورت کو جائیداد‘ بچوں اور طلاق کا حق دیا تو ہم نے اس پر کراس لگا دیا۔خدا نے طلاق کو ناپسند کیا مگر عورت کے حق کی خاطر اسے جائز قرار دیا۔کوئی عورت طلاق کے لیے روشن خیال سے روشن خیال عالم سے صلاح لے تو کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ ٹھوک بجا کر کہہ سکے کہ تمھیں اس کا حق ہے۔پہلے سارے معاشرے کے اخلاقی جذباتی اور سماجی دباؤ آپ پر ڈالے جائیں گے پھر آخر میں بڑی مشکل سے مانا جاے گا کہ حق ہے۔

یہ سب باتیں ایجنٹ نہیں بتاتے اگر آپ اس معاشرے میں رہے ہوں اور کھلی آنکھوں سے رہے ہوں تو آپ بڑے آرام سے جان جاتے ہیں۔عورت بحثیت انساں وہ سب حقوق رکھتی ہے جو مرد بحثیت انسان رکھتا ہے۔یہ اور بات کہ ہر بات پر عورت کو جہنم رسید کرنے والا معاشرہ اپنی مردانہ حاکمیت اور آنا کے لیے مزہب اور معاشرے کے نام پر عورت کے کاندھے پر رکھے وزن میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ایسے فرائض جو شریعت کی کسی رو میں موجود ہی نہیں۔باپ اور بھائی کی اطاعت سے لے کر سسر ال بھر کی خدمت تک چھان کر دیکھیں تو چند ذمہ داریاں چھوڑ کر باقی سب ہندومت کے معاشرے کی باقیات ہیں جو معاشرے کے سبب چادر میں لپیٹ کر مقدس بنا کر ہم نے اوڑھ رکھی ہیں۔

خدا کے لیے اپنی زبان سے پڑھے کچھ الفاظ کا حق تو ادا کیجیے،اس نابینا معاشرے کو کچھ تو بینائی دیجیے،غلط رویے ختم نہیں کر سکتے تو چلتے چلتے اک آواز ہی اٹھا دیجیے،کمزوروں کو آسرا دینا،جابر کا ہاتھ پکڑنا،گرے کو اٹھانا ،غلط کو غلط سمجھنا اور اداس چہروں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں