ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع دو ر افتادہ اور پسماندہ وادی چترال کو انسانی حقوق کا قبرستان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وادی کے طول وعرض میں جرائم ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ظلم وناانصافی کی خبرین روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔
انتظامیہ اور حکومت کی جانب سے تاحال ان جرائم کی روک تھام اور کمزوروں پر ہونے والی زیادتی کے خاتمے کے لئے کسی قسم کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی ۔سال ِرواں میں اب تک مختلف مقامات پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں ، تشدد اور خواتین کو ہراساں کیے جانے کے درجن بھر واقعات رونما ہوئے البتہ ان پر کسی قسم کی کوئی مضبوط قانونی کاروائی نہ ہوسکی۔
مقدس ماہ رمضان میں افطاری کے وقت لوئر چترال کے علاقہ شیشی کوہ دروش میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں تشدد کی وجہ سے ایک بوڑھے شخص کی ہلاکت کا واقعہ رونما ہوا۔ پولیس نے اثر ورسوخ کی حامل مقامی افرادکو ہمنوا بنا کے اسے لاوارث قرار دے کر دفن کیا ۔ پھر مقامی صحافیوں نے جان پہ کھیل کر اس ظلم کا سراغ لگایا‘ بات جب میڈیا پر آئی تو پہلے مقامی میڈیا کو دبانے کی کوشش کی لیکن جب سوشل میڈیا تک بات پہنچی تو فوراًپولیس کی جانب سے بیان آیا کہ اس کیس میں مشتبہ پولیس اہلکار کو گرفتارکرکے ان سے تفتیش جاری ہے۔ اس کے بعد کہیں اس قتل کا سراغ نہ مل سکا‘ یوں کیس دب گیا ۔
دوسرا دل دھلا دینے والا واقعہ عید الفطر کے روز دروش ہی میں رونما ہوا ۔ ایک جوڑادریائے چترال کے کنارے بیٹھے محو گفتگو تھا کہ اچانک تین غنڈے نمودار ہوئے اور جوڑے کو ہراساں کرنا شروع کیا ۔ پھر ان میں سے ایک نے لڑکی کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تو عزت بچانے کے لئے لڑکی نے دریا میں چھلانگ لگا دی ‘ اسے بچانے کے لئے لڑکے نے بھی دریا میں چھلانگ لگائی ، یوں دونوں عید کے روز دریائے چترال کے بے رحم موجوں کے ساتھ بہہ کر اپنی جان کی باز ہار گئے۔ اس سلسلے میں تینوں نوجوانوں کو پولیس کی جانب سے حراست میں لینے کا انکشاف ہواتھا لیکن تاحال اس سلسلے میں کسی قسم کے پیش رفت کی اطلاع نہیں ۔
ثناءخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
8ستمبر 2017ء کو اپر چترال کے گاؤں آوی بونی میں ایک لڑکی نے دریا میں چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی۔ پہلے اس کیس کو بھی روایتی طریقے سے ذرائع ابلاغ تک پہنچنے سے روکنے کی ہر ممکن طریقے سے کوشش کی گئی ۔البتہ راقم الحروف کی کوششوں سے یہ بات سامنے آگئی کہ اس لڑکی کو چار لڑکے شادی کا جھانسہ دے کرگھر سے بھگا لے گئے تھے، ذرائع کے مطابق اسے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور تشدد کی بھی اطلاع ہے ۔
اس سلسلے میں پولیس نے چار لڑکوں کو گرفتار کیا، اور ان سے تفتیش جاری ہے ۔ خدا جانے اس کا کیا انجام نکلے گا البتہ ابھی تک کیس میں کسی قسم کی پیش رفت کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ۔ جبکہ میڈیاپر چلنے والی بعض خبروں کے مطابق کچھ سیاسی شخصیات اس کیس کو کمزورکرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔
چند ہفتے قبل چترال ہی کے بالائی وادی یارخون میں خود کشی کا واقعہ رونما ہوا جس کے بارے میں بھی متضادخبرین ہے ۔ ایک برس قبل بالائی چترال کے وادی لاسپور ہرچین میں سکول چوکیدار نے دسوین جماعت کی طالبہ کو ہراساں کیا ‘ جس کے خلاف لڑکی نے سکول انتظامیہ کو شکایت کی ۔سکول انتظامیہ نے کیس پولیس تھانہ لے جاکر ایف آئی آر درج کیااور پولیس نے کیس عدالت بھیج دیا‘ کئی پیشیوں کے بعد بالآخر جب عدالت نے لڑکی کو گواہان کو پیش کرنے کا حکم دیا تو باوجود دو گواہ موجود ہونے کے وہ حاضر نہ ہوئے اور کیس لڑکی کے خلاف گیا۔
اس کے بعد لڑکی نے ہیڈ ماسٹر اور سکول کے دیگر اسٹاف کو بتاتے ہوئے گورنمنٹ ہائی سکول ہرچین کے صحن میں زہر کھا کرتڑپتے تڑپتے جان کی بازی ہار گئی،لیکن کسی نے بھی انہیں بچانے کی کوشش نہیں کی ۔سکول ہیڈ ماسٹر سمیت کسی اسٹاف اور اس بدقماش چوکیدار کے خلاف کسی قسم کی قانونی کاروائی نہیں ہوئی۔
کہا یہ جارہا ہے کہ چترال میں اکثر قتل کے واقعات کو خود کشی کا نام دے کر اونچے خاندان کے افراد معاملے کو دبادیتے ہیں‘ اس قسم کے اکثر واقعات نام نہاد غیرت و ناموس کےنام پر ہوتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چترال میں بڑھتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا جائے تاکہ ان کے روک تھا م کے لئے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے متحرک ہوسکیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں