The news is by your side.

الیکشن 2018: پنجاب کس کے ہاتھ رہے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کو معرض وجود میں آئے 22سال ہوچکے ہیں، اور اب پہلی بار تحریک انصاف اس پوزیشن میں ہے کہ وہ مرکز میں حکومت بناسکتی ہے۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ درج بالا سطور میں ہم نے جو سیاسی خاکہ تیار کیا ویسا ہی ہو تو پھر پنجاب جو ملک کی ستر فیصد آبادی کا صوبہ ہے اس میں تحریک انصاف کی انتخابی پوزیشن کیا ہوگی، اس کا اندازہ قارئین کیلئے لگانا مشکل نہ ہوگا۔

راولپنڈی ڈویژن

اعدادوشمار کے حساب سے ہم راولپنڈی ڈویژن کی بات کریں تو ضلع اٹک کی معروف سیاسی شخصیت میجر (ر)طاہرصادق تحریک انصاف کا حصہ بننے جارہے ہیں، جن کی بیٹی ایمان طاہر ضلعی چیئرپرسن ہیں، ماضی میں طاہرصادق مسلم لیگ ق کا حصہ رہ چکے ہیں، ان کی باقاعدہ شمولیت سے ضلع میں تحریک انصاف ناقابل شکست ہوجائے گی۔ ضلع راولپنڈی میں بھی تحریک انصاف کے مسلم لیگ ن پر حاو ی ہونے کے امکان زیادہ ہیں، شیخ رشید اپنی سیٹ پر قبضہ جمائے رکھیں گے جبکہ راولپنڈی شہر کی عوام مسلم لیگ ن کے رہنماؤں حنیف عباسی اور شکیل اعوان سے شدید بیزار نظرآتی ہے، جن پر مبینہ طور پر زمینوں کے قبضے کے الزامات بھی ہیں جبکہ اسلام آباد کی صورتحال کا جائزہ لیں تو عوام سے لاتعلقی اور دوری کے باعث ڈاکٹر طارق فضل چوہدری آئندہ سیٹ کھوسکتے ہیں اور اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں پر تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط نظرآتی ہے۔

ضلع راولپنڈی کے ملحقہ علاقوں گوجرخان، چکری ، ٹیکسلا، واہ کینٹ میں چوہدری نثار کا اثرورسوخ زیادہ ہے مگرخبریں یہ ہیں کہ آئندہ الیکشن میں چوہدری نثار متحرک کردار ادا نہیں کرپائیں گے، اگر وہ اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے تو مقابلہ سخت ہوگا ، بصورت دیگر تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط نظرآرہی ہے۔ ضلع جہلم کی بات کی جائے تواین اے 63ضمنی انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے فواد چوہدری نے 73ہزار جبکہ جیتنے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار نے81ہزار ووٹ لیے ، الیکشن کے نتائج یہ بتارہے ہیں کہ آئندہ مقابلے میں جب مسلم لیگ ن حکومتی اثرورسوخ کے بغیر اترے گی تو کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ 29اگست 2017 کو عمران خان نے چکوال شہر کا دورہ کیا تھا، چکوال میں تحریک انصاف کو راجا یاسر سرفراز کی رفاقت حاصل ہے، اس کے علاوہ بڑے سیاسی دھڑے جو ماضی میں مسلم لیگ ن کے شانہ بشانہ تھے تحریک انصاف کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ تحریک انصاف کے لیے چکوال اور جہلم میں مشکل یہ ہے کہ پارٹی کے اندر اختلافات ہیں، جن کو بروقت ختم کرنا ہی پارٹی کے حق میں بہتر ہوگا۔

گوجرانوالہ ڈویژن

گوجرانوالہ ڈویژن کی جانب آئیں تو سرائے عالمگیر سے لے کر وزیرآباد تک جتنے شہر جی ٹی روڈ کے آس پاس واقع ہیں وہاں مسلم لیگ قائداعظم اور تحریک انصاف کے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے مسلم لیگ ن کا نقصان ہوگا۔ ضلع منڈی بہاوالدین میں 2015میں ہونے والے این اے108کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ممتاز تارڑ30ہزار کی بھاری اکثریت سے فتح یاب ہوئے تھے ، مگر اس کی ایک بڑی وجہ تحریک انصاف کی تقسیم بھی تھی ، جبکہ پیپلزپارٹی نے بھی اس حلقے سے29ہزار ووٹ بٹورلئے تھے، تاہم آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کے لیے چوہدری برادران اور تحریک انصاف کا اتحاد اورتحریک انصاف کے بچھڑے ہوئے ساتھیوں کی واپسی سے مقابلہ اچھا ہونے کی توقع ہے، مگرفی الحال مسلم لیگ ن کی پوزیشن مضبوط رہے گی۔

اسی ضلع سے پیپلزپارٹی کے نذر محمد گوندل تحریک انصاف میں شامل ہوئے، مگر ان کی شمولیت زیادہ نیک شگون نہیں ہے، پیر آف بکھی شریف کی وجہ سے مذہبی ووٹ بھی مسلم لیگ ن کو ملتا آیا ہے، تاہم نومولود جماعت تحریک لبیک کی وجہ سے آئندہ انتخابات سے میں مسلم لیگ کو شاید مذہبی ووٹ نہ ملے۔ وفاقی وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ کے ضلع حافظ آباد میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن بظاہر مضبوط ہے، یہاں پر تحریک انصاف کے ہمسفر ماضی کے ق لیگ کے اہم رہنما مہدی بھٹی ہیں، تاہم علاقے کی عوام انہیں ایک دفعہ پہلے بھی آزما چکی ہے ۔

سال2014میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 107سے تحریک انصاف کی امیدوار نگہت انتصار نے 6ہزار کی برتری سے فتح حاصل کی تھی ۔ ضلع سیالکوٹ اور ضلع نارووال میں مسلم لیگ ن کے وفاقی وزراءخواجہ آصف اور احسن اقبال کی نشستیں محفوظ رہیں گی تاہم باقی نشستوں پر تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔ سیالکوٹ سے فردوس عاشق اعوان بھی تحریک انصاف کا حصہ بن چکی ہیں اور عثمان ڈاربھی خوب محنت کررہے ہیں جن کی محنت رنگ لاسکتی ہے۔ضلع گوجرانوالہ مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ، گوجرانوالہ سے لے کر شاہدرہ تک جی ٹی روڈ کی پٹی میں مسلم لیگ ن 60فیصد جبکہ تحریک انصاف40فیصد ہے، اس پٹی پر تحریک انصاف کو زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔

لاہور ڈویژن

پنجاب کے دل لاہور کی بات کریں تو چار حلقوں میں کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے ، جن میں سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، شفقت محمود اور کلثوم نواز کے حلقے شامل ہیں،تحریک انصاف نے اس حوالے سے اپنی حکمت عملی مکمل کرلی ہے اور لاہور سے 22ایسے امیدواروں کا انتخاب کیا ہے جو ن لیگ کے مقابلہ کرسکیں گے۔یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ عمران خان حلقہ 125یا 122میں سے کس حلقے سے الیکشن لڑتے ہیں۔

حلقہ این اے 122 اور 120 کے ضمنی انتخابات سے صورتحال واضح ہورہی ہے کہ تمام تر حکومتی اختیارات کے استعمال کے باوجود یہ سیٹیں نکالنا مسلم لیگ ن کیلئے معرکے سے کم نہ تھا، لاہور کی دلچسپ بات یہ ہے کہ پرانے لاہور میں ن لیگ اور نئے لاہور کا رحجان تحریک انصاف کی جانب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

لاہور کے اطراف میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن مضبوط ہے ، قصور میں تحریک انصاف کی بانی رہنما فوزیہ قصوری ناراض جبکہ تحریک انصاف کے رہنما سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری حلقے سے گمشدہ ہی رہے، ضلع شیخوپورہ ، ضلع ننکانہ میں تحریک انصاف نے خاطرخواہ توجہ نہیں دی ہے۔

فیصل آباد ڈویژن

فیصل آباد مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا گڑھ ہے ، وہاں وفاقی و صوبائی کیبنٹ کی فوج ظفر موج موجود ہے۔ تحریک انصاف کی بات کریں تو جولائی2016میں فیصل آباد میں پارٹی کے ضلعی صدر رانااحمد راحیل پارٹی چھوڑ گئے تھے۔ تحریک انصاف کے ضمنی انتخابات میں جیتنے والے بیشتر پارٹی اراکین نے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کو ضلعی چیئرمین کے لیے ووٹ کاسٹ کردیئے تھے۔ جس پر عمران خان نے شدید ناراضگی کااظہار کیا تھا۔

اس تمام صورتحال کے باوجود تحریک انصاف کے پاس کئی چہرے موجود ہیں جن میں سابق ایم این اے صفدر شاکر، مسلم لیگ ن کے سابق ضلعی صدر جاوید نیاز منج ، سابق ایم پی اے خالد امتیاز بلوچ، سابق وفاقی وزیر راجا نادر پرویز( جنہوں نے پی پی 72میں تحریک انصاف کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا)، جہانزیب امتیاز گل، فیض کاموکا، اسد معظم ، شمشیر وٹو، سابق وزیر وصی ظفر ، سابق ایم این اے ناصر اکبر، سابق وزیر آصف توصیف، جبکہ سابق صوبائی وزیر چوہدری ظہیرالدین فیصل آباد میں تحریک انصاف کے شانہ بشانہ ہیں۔ ضلع چنیوٹ ، ضلع جنگ اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں دونوں جماعتوں کے درمیان مقابلہ کہیں ٹھنڈا کہیں گرم ہوگا۔

ضلع جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کالعدم تنظیموں کا سیاسی ووٹ بینک موجود ہے، دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی کالعدم تنظیموں کے حوالے سے آئندہ پالیسی کیا ہوگا؟ جس کا براہ راست اثر یہاں ان کے ووٹ پر پڑے گا۔

سرگودھا ڈویژن

سرگودھا ڈویژن کی بات کریں تو ضلع سرگودھا میں سلانوالی، بھیرہ، شاہ پور اور ساہیوال میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن مضبوط جبکہ سرگودھا شہر، کوٹ مومن اوربھلوال میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں کڑے مقابلے کی توقع ہے ۔ چن برادر ی کی بھی تحریک انصاف میں شمولیت سے خاطرخواہ نتائج سامنے آئیں گے۔ ضلع خوشاب اور میانوالی میں تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط ہے، میانوالی سے عمران خان خود بھی الیکشن لڑیں گے، جبکہ دوسری سیٹ سے شیرافگن خان نیازی کے بیٹے سامنے آئیں گے ۔

ضلع بھکر کی بات کریں توپی پی48کے ضمنی انتخابات میں یہاں سے مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدوار امان اللہ خان نیازی نے پہلی، تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار احمد نواز نے دوسری جبکہ عوامی تحریک کے امیدوار نذر کہاوڑ نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو عوامی تحریک کی حمایت سے یہاں کامیابی مل پائے گی۔

ساہیوال ڈویژن

ساہیوال ڈویژن کے تمام اضلاع میں 60اور چالیس کے تناسب سے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف موجود ہے، یہاں پر پیپلزپارٹی کے منظور وٹو بھی مضبوط ہیں مگر آئندہ مایوس ہوں گے، دلچسپ صورتحال بھی سامنے آئے گی کیونکہ ساہیوال ڈویژن کے کئی بڑے نام جو اس وقت مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں وہ آئندہ سال جنوری میں تحریک انصاف میں شامل ہونے جارہے ہیں۔

ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان

جنوبی پنجاب کی بات کریں تو یہاں تین ڈویژنز جن میں ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان شامل ہیں ‘ ماضی کے بڑے سیاسی دھڑے اس وقت تحریک انصاف کے ساتھ ہیں ، مگر سوال یہ ہے کہ ماضی کے سیاسی دھڑوں کے مردہ جسم میں کیا جان آسکے گی؟ یہاں تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر خان ترین کا اثروروسوخ ٹکٹوں کی تقسیم میں زیادہ ہوگا۔ لودھراں کے ضمنی انتخابات میں جہانگیر ترین نے 14ہزار ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل کی تھی۔ جبکہ ملتان کے این اے 153 میں 60ہزار سے زائد کی واضح برتری سے مسلم لیگ ن کے رانا محمد قاسم کامیاب ہوئے تھے۔

وہاڑی کے صوبائی حلقہ 232 میں مسلم لیگ ن کے محمد یوسف کسیلہ نے صرف ایک ہزار کی برتری سے بمشکل جیت حاصل کی تھی۔ان نتائج سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملتان اور بہاولپور ڈویژن میں مسلم لیگ ن کیلئے سیٹیں نکالنا ماضی کی طرح آسان نہیں ہوگا، جبکہ ڈیرہ غازی خان میں مسلم لیگ ن باآسانی جیت جائے گی۔

آزاد ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی کے بھی تحریک انصاف میں شمولیت کے امکانات ہیں۔پیپلزپارٹی کی بات کریں تو آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی مہم شروع کرے گی لیکن شاید یہ خوشگوار نعرہ بھی اس بار کام نہیں کرسکے گا۔ ، پیپلزپارٹی کے مخدوم احمد بھی تحریک انصاف کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں، یوسف رضا گیلانی اکیلے جنوبی پنجاب کو سنبھال نہیں پائیں گے ۔

پنجاب کی آئندہ صورتحال

اٹک سے لے کر صادق آباد تک کے پنجاب کے سیاسی اکھاڑے میں مسلم لیگ ن کا تحریک انصاف سے کڑا مقابلہ ہوگا، تحریک انصاف کو سب سے بڑا مسئلہ ٹکٹوں کی تقسیم اور انتخابی حکمت عملی کا ہے، اگر ہر حلقے میں تحریک انصاف مناسب امیدواروں کو ٹکٹ دے گی اور انتخابات کے بعد دھاندلی کا رونا رونے کے بجائے مناسب منصوبہ بندی کرے گی تو پنجاب کے سیاسی میدان میں انقلاب بھی برپا کرسکتی ہے۔

تحریک انصاف کیلئے سب سے بڑی خوش قسمتی اس وقت یہ ہے کہ ان کے پاس کلین فیلڈ ہے جہاں وہ اپنی مرضی سے باؤلنگ اور بیٹنگ کرسکتے ہیں مگر فروری کے بعد ان کی مرضی نہیں چلے گی تب تک میاں نوازشریف بھی میدان میں آچکے ہوں گے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک یارسول اللہ نے اگر پنجاب بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کردیئے تو وہ مسلم لیگ ن کا ووٹ توڑنے کا ذریعہ بنیں گے جس کا براہ راست فائدہ تحریک انصاف کا امیدواراٹھائے گا۔

مسلم لیگ ق، پاکستان عوامی تحریک،سنی اتحاد کونسل جیسی جماعتیں بھی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہوں گی جبکہ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے میدان میں ہونے یا نہ ہونے کا مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کو کوئی خاطرخواہ فائدہ یا نقصان نہیں ہوگا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں