The news is by your side.

مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا نیا میدان کہاں سجے گا؟

لبنان کے وزیراعظم سعدالدین رفیق الحریری کے استعفے نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک کھلبلی سی مچا دی ہے‘ اس استعفے سے سیاسی عدم استحکام کے شکار لبنانی معاشرے میں مزید غیر یقینی کی فضا کو تقویت ملنے کا اندیشہ ہے۔ سعدالحریری کےاس استعفے کے پسِ پردہ ان کی زندگی کولاحق خطرات سمیت جہاں متعدد عوامل کارفرما سمجھے جا رہے ہیں وہیں حریری خاندان سے سعودی قربت بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

سعد الحریری کے پسِ پردہ سعودی ہاتھ ملوث ہونے کی قیاس آرائیوں کو تیزی سے تقویت مل رہی ہے۔ کیونکہ سعد الحریری نے مستعفی ہونے سے قبل سعودی عرب کے نہ صرف متعدد دورے کئے بلکہ وزارتِ عظمیٰ چھوڑنے کا اعلان بھی سعودی عرب میں ہی ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا اور تاحال وہ وہیں موجود ہیں۔ اوراسی پریس کانفرنس کے دوارن انہوں نے ایران اور ایران کی حمایت یافتہ شیعہ انتہا پسند تنظیم حزب اللہ پر کڑی تنقید کی جس کا لب و لہجہ سعودی پالیسی سے خاصا مطابقت رکھتاتھا۔ اسی لئے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ سعد الحریری کا یہ استعفیٰ آئندہ آنے والے دنوں میں سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی چپقلش کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے اور جس کے منفی اثرات کی لپیٹ میں پورے خطے(مشرقِ وسطیٰ) کے آنے کا اندیشہ ہے۔

لبنان کی سیاست میں سعد الحریری کو متحرک کرنے والے سعودی حاکموں کا کردار آج کل ہر جگہ زیرِ بحث ہے۔ جو انہوں نے خانہ جنگی اورلبنان کے کثیرالجہتی سیاسی نظام میں سنیوں کی سرپرستی کر کے ادا کیا۔ اتنا ہی نہیں حریری خاندان کے کاروبارکو پھیلانے اور ترقی دینے میں سعودی مالی معاونت کوئی اچنھبے کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حریری خاندان سعودیوں کے انہی احسانات کے پیشِ نظر ان کے سامنے کبھی سر نہیں اٹھا سکا اور نہ ہی یہ ان کی منشا کے بنا لبنان کے ریاستی امورسے متعلق اپنے طور پر کوئی بھی فیصلہ لے سکتے ہیں۔ لہٰذا اگریہ کہا جائے کہ سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ میں اپنے سیاسی اور تزویراتی مفادات کے تحفظ کے لئے لبنان کو صرف اور صرف اپنے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے تو ہر گز غلط نہیں ہو گا۔

یقیناً سعد الحریری کوئی منجھے ہوئے سیاستدان تصور نہیں کئے جاتے بلکہ سنہ2009ء میں وہ لبنان کے سیاسی منظرنامےمیں سنی بلاک کے راہنما کے طور پر تب نمودار ہوئے جب ان کے والد رفیق الحریری کے انتقال کے بعد ان کا ملک ہنگاموں اور خانہ جنگی کی نذر ہو چکا تھا۔ سعد الحریری نے اپنے پہلے دورِ حکومت کے دوران بھی نامساعد حالات کا سامنا کیا جن میں حزب اللہ سے منسلک ان کی کابینہ میں شامل وزراء (جو کسی بھی وقت ان کی حکومت گرا سکتے تھے) کے علاوہ بشار الاسد کی سرپرستی میں چلنے والی تنظیم (حزب اللہ) پر ان کے والد کے قتل کا الزام ہرگز سعد الحریری کے لئے کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں تھا۔

مگر پھر بھی سعد الحریری نے سعودی اور امریکی حمایت کی بدولت ان تمام مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کی سعودی حمایت تذبذب کا شکار اس وقت ہوئی جب سنہ 2010ء میں سعودی شہزادےعبدالعزیز(اس وقت کے شاہ عبداللہ کے فرزند) نے شام کے حاکم بشارالاسد سے مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا مگر سعد حریری نے اس کھیل کا حصہ بننے سے جوں ہی انکار کیا ان کی کابینہ میں شامل حزب اللہ کے وفاداروں نے ان سے فوراً الگ ہو کر ان کی حکومت گرادی۔

اب سوال یہ ہے کہ پہلی بار اپنی حکومت کے اتنی ذلت سے اختتام پذیر ہونے کے باوجود سعد الحریری گزشتہ برس دوبارہ برسرِاقتدار آنے پر کیسے آمادہ ہوگئے؟ جبکہ لبنان کی صورتحال پہلے سے بھی زیادہ تشویش طلب اور پریشان کن سمجھی جا رہی تھی۔ اس کی وجہ یقیناً ایک ہی ہے اور وہ ہے سعودیوں کی ان کے خاندان پر (ان کے نجی کاروبار میں مالی معاونت کے سلسلے میں) کی گئی لا تعداد عنایتیں اور نوازشیں ۔ جو کہ یقینی طور پر سعد الحریری کے لئے سعودی عرب کے سامنے سر تسلیم خم کرنےکا موجب بنیں۔

مگر اس بار(دوسری بار) انہیں واپس لانے والی نئی سعودی نسل(سلمان بن عبدالعزیزالسعوداور ان کے صاحبزادے محمد بن سلمان) تھی۔ جن کے ایجنڈے پر سرفہرست پورے خطے (ایران سے یمن تک، اورشام سے لبنان تک) میں بتدریج بڑھتی ہوئی ایرانی اجارہ داری کے خلاف سعودی مفادات کا تحفظ یقینی بنانا تھا۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ دوسری بار بھی سعد الحریری کے دورِ اقتدار کے خاتمے میں حزب اللہ فیکٹر نے نہایت کلیدی کردار ادا کیا ہے مثلاً حزب اللہ کا شیعہ فورسز میں بڑھتا ہوا اثرو رسوخ جو حزب اللہ کو لبنان میں بتدریج مضبوط کر رہا ہے۔ جس سے وہ کسی بھی وقت ملک میں دراندازی کر کے غلبہ پانے کی ہولناک صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کےعلاوہ مندمل ہوتی ہوئی شامی خانہ جنگی دوسرا اہم محرک ہے جس نے حزب اللہ کو لبنان لوٹنے اور سرگرم ہونے پر مجبور کیا کیونکہ شام میں ایران کی منشا کی مطابق روس کی مدد سے بشارالاسد کی حکومت پہلے ہی مضبوط ہو چکی ہے۔ اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سعد الحریری کے استعفے کے پیچھے موت کا خوف بھی ہےکہ کہیں ان کا مقدر بھی ان کے والد جیسا نہ ہو جن کا انتقال سنہ 2005ء ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں ہوا۔

لیکن سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ کیا سعد الحریری کا استعفیٰ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ سعودی عرب نےدوبارہ ان کے پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے؟ مگر اس سے یہ توظاہر نہیں ہوتا کہ سعودی عرب ایران کی پراکسیوں کا ہر محاذ پر مقابلہ کرنے کو تیار ہے؟ لیکن یہ بھی عین ممکن ہے کہ سعودی عرب کے پاس اس ضمن میں کوئی اور موثر حکمت عملی موجود ہو۔ جس کے تحت وہ لبنان میں ایسی ماحول سازی کر رہے ہوں کہ ان کے لئے ایران کو وہاں مختلف حربوں سے شکست دینا ممکن ہو سکےمثلاً اسرائیل، حزب اللہ جنگ ۔ گو کہ سعودی عرب نے شام میں (اپنی سرپرستی میں) سرگرم باغیوں کے ذریعے ایرانی ایما پر چلنے والی اسد حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی بہت کوشش کی جو کہ متعدد وجوہات کی بنا پر کارگر ثابت نہ ہو سکی۔

مگر اسے بھی ہرگز خارج الامکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہاں ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد سعودی عرب اب اپنے مقاصد کے حصول کے لئے لبنان کی سرزمین کو اپنی پراکسی کے طور پر بروئے کار لانے کا سوچ رہا ہو، اور جس کے لئے وہ شیعہ انتہا پسند تنظیم حزب اللہ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنا چاہ رہا ہو۔ اور اسی لئے وہ سعد الحریری کو منظرِ عام سے نکال کر لبنان کے موجودہ حالات( شامی پناہ گزینوں کے معاملے سے لے کر القاعدہ اور داعش کے خطرات سے نمٹنے کے معاملات) کی ذمہ داری حزب اللہ کے کندھوں پر ڈالنا چاہتے ہوں۔

اُدھر سنہ 2006ء سےاسرائیل حزب اللہ کے ساتھ اپنی اگلی جنگ کی تیاریوں میں مگن دکھائی دے رہا ہے۔ ایران کا خطے میں دن بدن بڑھتا ہوا اثرو رسوخ یقیناً اب ایک فیصلہ کن معرکے میں داخل ہو چکا ہے۔ جس کے پیش نظر اب اسرائیل اور سعودی عرب نے بھی بذریعہ جنگ اپنی سرحدوں پر موجود ان ایرانی خطرات کا تدارک کرنے کے بارے میں غوروغوض کرنا شروع کر دیا ہے۔ لہٰذا اس نئے ابھرتے ہوئے سیاسی منظر نامے کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں جاری اس طاقت کی جنگ میں سعودی عرب اور اسرائیل ایک ہی پلڑے میں دکھائی دے رہے ہیں جن کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Hacıoğlu Nakliyat company provides professional transportation services in the İstanbul evden eve nakliyat sector. There are corporate and safe transportation works throughout Istanbul and Turkey. In addition to transporting in all districts of Istanbul, it also provides services in offices located in the following districts. There are shipping offices in Kartal evden eve nakliyat , Kadıköy evden eve nakliyat , Maltepe evden eve nakliyat , Pendik evden eve nakliyat branches.

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں