The news is by your side.

لیڈر‘ سیاسی کارکن اور قبر کا کتبہ

سیاست میں رشتہ داریاں بہت اہم ہوتی ہیں ،اور اگر سیاست پاکستان میں ہو تو اٹل سمجھیے‘ پاکستان کا ہر وہ نظام جو کسی نہ کسی طرح سیاست سے جڑتا ہے اس میں صف در صف باپ ، بیٹی، بیٹے ، پوتے ، پڑ پوتے ، مامے ، چاچے بھتیجے ، غرض جو رشتہ سوچیں وہ ملتا ہے ۔ اسی لئے پاکستان کے عوام اب اتنے سیاسی بے شعور ہو چکے ہیں کہ ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ باپ کے مرنے کے بعد اس کی سیاسی گدی پر اس کا بیٹا یا بیٹی کیوں بیٹھتے ہیں ۔ اور ان کے باپ کے ساتھی ان کے سامنے بھی ہاتھ باندھ کر کیوں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

کوئی نہیں پوچھتا کہ خون کے اندر پائی جانے والی سیاسی بلوغت اچانک ان کے اندھے پیرو کاروں پر کیسے واضح ہو جاتی ہے ۔ کسی کو اس کی پرواہ نہیں کہ اس کی جماعت کے ورکرز کا سوچنا کیا ہے ؟ وہ لوگ جو اس جماعت کو ووٹ دیتے ہیں آخر وہ کس کھیت کی مولی ہیں ؟ میرے خیال میں تو مولی کی بھی زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔

اردو بنگلہ فسادات سے لے کر سانحہ ماڈل ٹاؤن تک انصاف تو کیا ہوتا کسی طاقتور کا آج تک بال بھی بیکا نہ ہوا۔جو مر گئے ان کو آج کوئی نہیں جانتا سوائے ان چند کے جو ان سے براہ راست وابستہ ہیں یا تھے۔ کسی کو نہیں معلوم کے شہید بے نظیر بھٹو پر کراچی میں ہونے والے حملے میں جو مر گئے ان کو کیا ہوا۔ لیاری تو طویل عرصے سے گینگ وار کے کارندوں کے پاس تھا ۔ وہ جو جانثاری کا بھرم رکھتے ہوئے دنیا سے چلے گئے آج ان کے خاندانوں پر کیا گزر رہی ہے ۔

المیہ تو یہ تھا کہ پچھلے سائین سرکار بھلکڑ بابا کے دور میں ہزاروں بوتل خون پھینک دیا گیا ۔ کسی کو نہیں معلوم کہ وہ خون کس کا تھا ؟ معاملہ صرف خون کا تھوڑی ہے ‘ خون سے بہت آگے کا ہے ۔ قاتل دندناتے پھر رہے ہیں ، مقتول کے گھر والے چھپتے پھر رہے ہیں ، کوئی حوا کی بیٹی کو سرِ عام برہنہ کر رہا ہے ، اور کوئی اسے سا لوں سے محض تسکین کے لیے قید رکھے ہوئےہے۔ المیہ یہ نہیں ہے کہ زبانِ خنجر خاموش ہے ، حادثے سے بڑا سانحہ تو یہ ہے کہ آستین کا لہو بھی خاموش ہوگیا ہے۔

ہر سیاسی جلاد کے ساتھ قدرت کا انتقام بڑا بھیانک ہے ۔ کوئی سو نہیں سکتا ،،کوئی رو نہیں سکتا ،،کسی کو غیروں نے مار ڈالا اور کوئی گھر کے قاتل کا شکار ہوا ۔ کسی کو کسمپرسی دیکھنی پڑی اور کوئی دولت کے انبار پر کھڑا کیوں نکالا‘ کیوں نکالا چلا رہا ہے ۔ بھوکے عوام کے اربوں روپے چرانے والوں کے پیچھے بھی ان کے یار موسمی ٹھیلوں پر اپنا مال بیچنے میں مصروف ہیں ۔ قوم کو نوید سنا رہے ہیں کہ عدالتیں جھوٹ بول رہی ہیں ،ان کے آقا نے کچھ نہیں کیا ۔ اس سے پہلے بھی سیاسی مالشیوں کا یہی وطیرہ تھا سب کے سب اپنے لیڈران کو بے قصور ثابت کرنے میںدل جان‘دین اور ایمان سب قربان کر چکے ۔ وہ تو بھلا ہو خالی معدے کے اندر مروڑ کو دبا کر نعرہ لگانے والوں کی عدم یادداشت کا کہ ان کو کچھ یاد نہیں رہتا ورنہ تاریخ شاہد ہے کہ جو لوگ قوم کی عزت کا سودا کرتے ہیں‘ وہ کوئی بھی ہوں تاریخ ان کو کبھی معاف نہیں کرتی ۔

وہ سیاسی کارکن جو لیڈر کی خاطر مرچکا ‘ اس کا گھر جن چیزوں سے چلتا ہے ان میں سب سے اہم ہے ‘ ان کے قاتلوں کو معاف نہیں کریں گے‘ قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا‘ شہید کا نام سنہری حروفوں سے لکھا جائیگا اورپارٹی ان کی قربانی کو بہت اہمیت دیتی ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔

اور پھر یہ وعدہ کر کے کہ اس کے تین سالہ بچے کو نوکری دی جائے گی‘ لیڈر کا قافلہ شہدا کے ناموں سے منسوب تختی کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں چل پڑتے ہیں ۔ اس تقریب میں باقاعدہ کروڑوں کی لاگت سے تعمیر نشانی کو اجاگر کرنے کے لیے کروڑوں کی مارکیٹنگ کمپنی کی خدمات لی جاتی ہیں ۔ پھر فلیش اور کیمروں کی چکا چوند میں اعلانات ہوتے ہیں اور صاحب شہید کا حق ادا کر کے اپنی بلٹ پروف میں گھر چل دیتے ہیں ۔ لیکن جب صاحب کی گاڑی شہید کے گھر سے نکل رہی ہوتی ہے نہ تو اس کا بچہ بھوکا ہوتا ہے ‘ اس کی مفلس اور جوان بیوی دل سے دعا کر رہی ہوتی ہے کہ کب عدت ختم ہو اور وہ گھروں میں جھاڑو پونچھے کا کام پکڑ کر اپنا گھر چلائے ۔ کیونکہ اس کا کمانے والا تو چلا گیا اور لیڈر جو کر سکتا تھا اس نے کر دیا ۔

یہ ایک گھر کی کہانی نہیں ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن ٹیکس بھی دیتے ہیں اور پارٹی فنڈ میں عطیہ بھی ۔ وہ صبح سے شام نوکری بھی کرتے ہیں اور رات گئے تک سیاست بھی ۔ ان کی آمدن کا تما ریکارڈ دستیاب ہوتا ہے ۔ ان کی لندن میں تو کیا کہیں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہوتی اور جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں تو صرف سچ بول رہے ہوتے ہیں ۔ ان کی کوئی آف شور تو کیا‘ آن شور کمپنی ‘ ڈھابہ ‘ یا ٹھیلہ تک نہیں ہوتا وہ تو بس مست ہوتے ہیں ۔ اپنے لیڈر کے دیوانے‘ اس کے چیلوں کے پروانے ، اپنی پارٹی کے کے پرچم پر جان دینے والے ،،اس کے آئین سے وفادار ۔

وہ تو بس کسی ایک علاقے میں پیدا ہوتے ہیں ‘ زندگی بھر گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے مارتے ہیں‘ اور پھر کسی لیڈر پر نہ مریں تو ویسےہی مر جاتے ہیں ۔ اگر ویسے مر جائیں تو ان کے نام کا کوئی چوک نہیں بنتا ، ان کے نام پر کوئی سڑک نہیں بنتی ، ان کے نام پر کوئی اسکول قائم نہیں ہوتا ۔ یہ سب کچھ تو چاچے‘ مامے ، بیٹے ‘ بیٹی ‘ بھائی ‘ ابا جی‘ اور چیلوں کے نام پر بنتے ہیں ۔ کارکن کے نام پر تو صرف کتبہ بنتا ہے اس کی قبر پر لگانے کے لیے اور بہت مرتبہ تو گمنام قبرستان میں کتبہ بھی نہیں ملتا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

.

شاید آپ یہ بھی پسند کریں